پالتو جانوروں کی شناخت
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 5؍مئی 2006ء میں مکرم بریگیڈیئر(ر) سید ممتاز احمد صاحب کا ایک مختصر مضمون شائع ہوا ہے جس میں پالتو جانوروں کی شناخت سے متعلق قیمتی معلومات بیان کی گئی ہیں۔
مالک کے لئے اپنے مویشی کی پہچان بہت اہم ہے اور اس کی قانونی ضرورت بھی پیش آسکتی ہے۔ بھیڑ بکریوں اور گائیوں بھینسوں کے کان میں سٹیل کا چھلہ ڈال کر اس میں پلاسٹک کے ٹکڑے پر نمبر کندہ کرکے لٹکادیا جاتا ہے۔ بعض اوقات نہ مٹنے والا رنگ سوئی کے ذریعہ دُم یا کان کی جلد میں داخل کیا جاتا ہے۔ جن جانوروں سے چمڑا حاصل کرنا ہو، اُن کو داغنے کی بجائے دیگر طریق اختیار کئے جاتے ہیں۔ جبکہ گھوڑے، خچر اور گدھوں کو داغ لگایا جاسکتا ہے۔ مویشیوں کی تصویر کھینچنا بھی شناخت کا طریق ہے۔
گھوڑدوڑ میں حصہ لینے والے گھوڑے نہایت قیمتی اور اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کے ملاپ سے حاصل ہوتے ہیں۔ چنانچہ ان کے جسم پر کوئی نشان پڑ جائے تو ان کی قیمت گر جاتی ہے۔ اس لئے ان کی شناخت ماہر اسپ شناس سے کروائی جاتی ہے جو آتشی شیشہ کا استعمال کرکے ہر گھوڑے کو منفرد ثابت کرسکتے ہیں۔
گھوڑوں کی شناخت میں فراڈ کی ایک داستان یوں بیان کی جاتی ہے کہ آئرلینڈ کا ایک شخص Paddy غربت سے تنگ آکر امریکہ چلا گیا۔ یہ 1930ء کے لگ بھگ کا زمانہ تھا جب امریکہ میں Alcapone نامی ایک شخص بدنام و خوفناک غنڈہ مانا جاتا تھا۔ پیڈی ایک روز اُس کے ملازموں کے پاس گیا اور کہا کہ وہ الکپون سے ملنا چاہتا ہے۔ ملازموں نے مفلس شخص کی یہ جسارت دیکھی تو اُسے مار مار کر ادھ مؤا کردیا۔ مار کھانے کے بعد پیڈی نے کہا کہ دس دفعہ بھی ماروگے تو پھر بھی آؤں گا کیونکہ مَیں تمہارے مالک کو اُس کے فائدہ کے لئے ہی ملنا چاہتا ہوں۔ ملازموں کے سربراہ نے کہا کہ اگر تم نے کوئی غیرذمہ دارانہ حرکت کی تو گولی ماردی جائے گی۔ پھر الکپون کو اطلاع دی گئی۔ اُس روز اُس کا مُوڈ اچھا تھا چنانچہ پیڈی کو بلوالیا گیا۔ پیڈی نے کہا کہ باس! آپ کو میرے ساتھ چلنا ہوگا۔ الکپون نے کہا کہ اگر یہ کوئی بیوقوفی کی حرکت ہے تو اس کا انجام تمہیں پتہ ہے۔ پیڈی نے کہا کہ جان سب کو پیاری ہوتی ہے۔ چنانچہ الکپون شہر سے پندرہ میل دُور ایک اصطبل میں پہنچا جہاں پیڈی دو گھوڑے نکال کر لایا اور بولا کہ اِن گھوڑوں کو الگ الگ شناخت کرو۔ الکپون نے دیر تک گھوڑوں کا معائنہ کیا اور بولا کہ اگر اِن کی ماں ایک ہی ہے، تو وہ بھی اِن کو شناخت نہیں کرسکتی۔ پیڈی نے مدتوں محنت کرکے گھوڑوں پر سفید رنگ کے بال اگانے اور سیاہ داغ دھبے ڈالنے کے کام میں مہارت حاصل کی تھی اور دو ایک جیسے گھوڑے بناڈالے تھے جنہیں ماہر اسپ شناس بھی شناخت نہ کرسکتا تھا۔ ایک گھوڑا نہایت اعلیٰ نسل کا تیز رفتار گھوڑا تھا، دوسرا معمولی نسل کا گھوڑا تھا۔ دونوں کا نام برق رفتار رکھا گیا تھا۔ پیڈی نے ردّی گھوڑے کو قومی دوڑوں میں دوڑانا شروع کیا جہاں وہ توقع کے مطابق ہمیشہ ہار جاتا۔ چنانچہ جواریوں نے اس پر تیس چالیس گُنا تک انعام دینا شروع کردیا لیکن اس پر کبھی کسی نے انعام نہ جیتا۔ چھ ماہ بعد امریکہ کی مشہور ریس Kentucky ڈربی شروع ہوئی تو پیڈی نے اُس میں اعلیٰ نسل کے گھوڑے کو داخل کردیا۔ اور الکپون کے ساتھیوں نے سارے امریکہ میں تھوڑے تھوڑے ڈالروں پر تیس تیس، چالیس چالیس کا ریٹ حاصل کرکے رقم لگادی۔ اس دوڑ میں گھوڑا اوّل آیا تو الکپون نے پیڈی کے ساتھ مل کر خوب نفع کمایا۔
بدقسمتی سے CIA کا ایک ایجنٹ بھی ریس کا رسیا تھا اور مذکورہ ریس میں کافی رقم ہار چکا تھا۔ اُس نے خاموشی سے تمام Bookies کے پاس جاکر گھوڑے برق رفتار کا پرانا ریکارڈ حاصل کیا اور آخر فراڈ کا پتہ چلالیا۔ چنانچہ پیڈی کے خلاف فراڈ کے الزام میں مقدمہ چلا اور اُسے دس سال قید کی سزا دی گئی۔ وہ کہا کرتا تھا کہ امریکہ جیسی اجڈ اور وحشی قوم جو آرٹ سے بے بہرہ ہے، کہیں اَور نہیں پائی جاتی اور اگر وہ یہ کارنامہ فرانس میں انجام دیتا تو نہ صرف سزا سے بچ جاتا بلکہ اُس کو آرٹ کی خدمت میں انعام بھی ملتا۔
مضمون نگار مزید لکھتے ہیں کہ جن دنوں نیپال میں شہنشاہ نیپال کی تخت پوشی ہونا تھی تو نیپال کی حکومت کی درخواست پر حکومت پاکستان نے تیس سرمئی رنگ کے اعلیٰ نسل کے گھوڑے مہیا کئے۔ مَیں مختلف یونٹوں سے گھوڑے اکٹھے کرکے مونہ پہنچا جہاں نیپال سے تین وجیہہ کرنل صاحبان آئے ہوئے تھے۔ اُن میں سے ایک کیولری دستہ کے تھے، دوسرے وٹرنری کور کے تھے اور تیسرے ایک براہمن تھے جو پہلے دونوں افسران کے کسی گھوڑے کے انتخاب کے بعد آخر میں آتشی شیشہ کی مدد سے گھوڑے کے سر اور پیشانی پر اُن نشانوں کو تلاش کرتے جو اُن کے علم کے مطابق نیک شگون کی نشاندہی کرتے تھے۔