پاکستانی ’’علماء‘‘ کی افسوسناک اخلاقی حالت
مجلس انصاراللہ کینیڈا کے مجلہ ’’نحن انصاراللہ‘‘ اپریل تا ستمبر 2004ء میں شامل اشاعت اخبارات سے منقولہ چند خبروں میں سے دو کا انتخاب پیش ہے جن سے پاکستان کے علماء اور مذہبی سیاسی پارٹیوں کے رہنماؤں کے اخلاقی کردار پر روشنی پڑتی ہے:
٭ اسلام آباد (امن نیوز) ’’ گزشتہ روز وزارت مذہبی امور کی جانب سے نفاذ شریعت کے سلسلہ میں منعقدہ ’’ قومی مشاورتی کنونشن‘‘ میں ملک بھر سے علماء کرام، مساجد کے خطیب اور دیگر شخصیات مدعو تھیں۔ وزیراعظم محمد نواز شریف کی تقریر کے بعد جونہی اجتماعی دعا ہوئی، شرکاء نے تیزی اور پوری قوت کے ساتھ سبزہ زار کا رخ کیا جہاں ظہرانہ کا بندوبست تھا۔ تمام انتظام تہس نہس ہوکر رہ گیا۔ وزارت مذہبی امور کی طرف سے ’’ لنچ بکسوں‘‘ کا انتظام کیا گیا تھا۔ جن کو حاصل کرنے کی کوشش میں علماء نے قواعد و ضوابط کو تہس نہس کردیا اور علماء کے جوش کی تاب نہ لاتے ہوئے انتظامیہ ایک طرف ہو گئی۔ علماء کے درمیان لنچ باکس چھیننے کی جنگ میں تمام لنچ بکس تباہ ہوگئے۔ مندوبین کے شدید اور اچانک حملہ کی تاب نہ لاتے ہوئے میزیں ٹوٹ گئیں اور ایک دوسرے کو دھکے دینے کی وجہ سے شامیانے اکھڑ گئے۔ اس دوران بعض معززین میں تلخ کلامی بھی ہوئی اور نوبت ہاتھاپائی تک آپہنچی۔ جس کے نتیجہ میں کئی افراد کی قمیضیں اورواسکٹیں پھٹ گئیں اور ٹوپیاں پاؤں تلے روندی گئیں۔ مندوبین کا مظاہرہ آدھے گھنٹہ تک جاری رہا۔ پولیس اہلکاروں کا کہنا تھا کہ ’’ یہ بھوک کے خلاف جہاد ہے‘‘۔ بعد ازاں متعدد معززین کئی کئی لنچ باکس گاڑی میں لے جاتے ہوئے دیکھے گئے۔
( بحوالہ : روزنامہ امن کراچی7 ستمبر1998)
٭ لاہور (نمائندہ خصوصی نوائے وقت) ’’ سپاہ صحابہ‘‘ کے درجنوں کارکنوں نے بعد دوپہر موچی دروازہ سے دوبارہ ایک احتجاجی جلوس نکالا۔ اس جلوس نے ایک ’’ جنازہ‘‘ اٹھایا ہوا تھا۔ جس کے بارہ میں کارکنوں کا کہنا تھا کہ صبح مسجد شہداء کے قریب ’’سپاہ صحابہ‘‘کے مظاہرہ پر پولیس تشدد سے ایک کارکن جاں بحق ہوگیا تھا اور یہ جنازہ اسی کا ہے۔ مظاہرین کی قیادت مولانا عبدالقیوم اور مولانا عبدالرزاق کر رہے تھے۔ جنازہ کے اس جلوس کی اطلاع جب ضلعی انتظامیہ کو ہوئی تو انتظامی افسروں میں کھلبلی مچ گئی۔ ساری ضلعی انتظامیہ الرٹ ہوگئی ۔ ڈپٹی کمشنر آصف حسن ندیم ، ایس ایس پی (لاہور) ملک احمد رضا طاہر ، ایس پی سٹی ’’منظور سرور‘‘ اور ایس پی کینٹ ’’شکیل مرزا‘‘ سمیت پولیس کے دو ڈویژن اور ریزرو فورس وغیرہ موقع پر پہنچ گئی۔ جنازہ کا جلوس جب ریگل چوک پہنچا تو ضلعی انتظامیہ نے مظاہرین کو صفیں بنانے اور جنازہ پڑھنے کی اجازت دے دی۔
اس دوران جنازہ کی چارپائی پر لیٹے ہوئے ’’مردے‘‘ نے چھینک ماری جس پر پولیس کے کان کھڑے ہوگئے اور یہ راز کھل گیا کہ زندہ شخص کو جنازہ کی چارپائی پر لٹا کر جنازہ کا ڈھونگ رچایا گیا اور پولیس اور انتظامیہ کو بے وقوف بنایا گیا۔ اس پر مقامی افسروں نے مظاہرین کو گرفتار کرنے کا حکم دیدیا۔ اس دوران لاٹھی چارج بھی کیا گیا۔ 35مظاہرین کو گرفتار کرکے پولیس لے گئی۔ ردّعمل کے طور پر مظاہرین نے پولیس پر پتھراؤ بھی کیا۔ پولیس کی زَد میں آنے والے مظاہرین کی خوب پٹائی کی گئی۔ تاہم اس دوران میں غنیمت جان کر چارپائی پر پڑاہوا مردہ زندہ ہوگیا کہ کہیں پولیس کے ہتھے چڑھ کر سچ مچ جنازے کی ڈولی تک نہ پہنچ جائے‘‘۔
( نوائے وقت لاہور، 25ستمبر ، صفحہ نمبر11,1)