پاکستان کا بہترین سفیر ڈاکٹر عبدالسلام – پروفیسر غلام مرتضیٰ صاحب کا انٹرویو

پاکستان کے نامور سائنس دان پروفیسر غلام مرتضیٰ صاحب نے امپیریل کالج لندن سے محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی زیر سرپرستی Ph.D. کی ڈگری حاصل کی۔ 36 سال سے وہ تدریس و تحقیق میں مصروف ہیں اور ان کے 134 تحقیقی مضامین غیرملکی اعلیٰ سائنسی جرائد میں شائع ہوچکے ہیں۔ نیز ان کی 29؍کتب ہیں جو مختلف اہم کانفرنسوں کی رپورٹس پر مشتمل ہیں۔ روزنامہ ’’پاکستان‘‘ کو دیئے جانے والے اپنے ایک انٹرویو میں انہوں نے محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کو شاندار خراج تحسین پیش کیا۔ ان کے انٹرویو کا یہ حصہ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 21؍اگست 1999ء کی زینت ہے۔
انہوں نے کہا کہ مجھے اس بات پر فخر ہے کہ مَیں نے پروفیسر عبدالسلام کی سرپرستی میں تربیت حاصل کی۔ 1962ء میں ڈاکٹر عثمانی اور ڈاکٹر سلام نے مل کر نوجوان سائنس دانوں کا بیرون ملک ٹریننگ کا ایک پروگرام بنایا تھا۔ آج پاکستان کے بہت سے سینئر سائنس دان اور انجینئر اسی پروگرام کی پیداوار ہیں اور سلام اور عثمانی کی کوششوں کے مرہون منت ہیں۔ میرے پارٹیکل فزکس میں پی ایچ ڈی کرنے کی وجہ یہی تھی کہ: ’’فزکس اور ریاضی کا پس منظر ہو اور ہر طرف ڈاکٹر سلام کے چرچے ہوں‘‘۔ وہ یقینا نوجوان نسل کے ہیرو اور آئیڈیل بن چکے تھے۔ بحیثیت استاد اُن کا اپنا انداز تھا جو منفرد تھا۔ وہ کئی عالمی کانفرنسوں میں وی آئی پی سپیکر کی حیثیت سے مدعو ہوتے تھے۔ ان کے لیکچرز سننے کے لئے لوگ بے تاب ہوتے تھے۔ سحر انگیز لیکچر۔ باتیں طبیعات کی اور انداز بیان ادبی۔ زبان پر ایسا عبور کہ اہل زبان بھی عش عش کرتے ہیں۔ کلاس میں اُن کا لیکچر ایک ہیجانی کیفیت ہوتا جو طلباء میں نیا جوش اور ولولہ پیدا کردیتا۔ ایسا لگتا جیسے اُن کے پاس وقت بہت کم ہے اور بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی بارعب شخصیت، ان کا دبدبہ اور جلالی مزاج اور اس پر طرہ ان کی آنکھوں کی چمک۔ کس کی مجال کہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرسکے۔ پہلے ہمیں گمان ہوا کہ یہ سب کچھ ہم مشرقی لوگوں کا مسئلہ ہے مگر جلد ہی اس راز کی قلعی کھل گئی۔ قصبہ جھنگ کی یہ شخصیت مغرب ہو یا مشرق دونوں پر یکساں طور پر حاوی تھی۔ اُن کی بات سمجھ آئے نہ آئے بندہ متاثر ضرور ہوتا تھا۔ جہاں بھی جاتے ہلچل مچادیتے، نت نئے خیالات، ایسا لگتا کہ انقلاب آنے والا ہی ہے۔
اُن کی ہمہ جہت شخصیت اتنی عظیم تھی کہ گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی تو کجا انگلستان کی شہرہ آفاق کیمبرج یونیورسٹی بھی بہت چھوٹی ثابت ہوئی۔ یہاں تک کہ امپیریل کالج جس کو اس بات پر ناز تھا کہ ان کے ہاں نوبل انعام یافتہ ستاروں کا جھرمٹ رہتا ہے، وہ بھی ان کے تخیّل کی تسکین نہ کرسکا۔ چنانچہ وہ کالج کی چاردیواری سے نکل کر ایک انٹرنیشنل سنٹر فار تھیوریٹیکل فزکس قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے جو ایک معجزہ تھا۔ مگر جھنگ کے عقابی فرزند کی پرواز یہاں ختم نہیں ہوتی۔ وہ نئی راہوں کا متلاشی رہا۔ کہیں تھرڈ ورلڈ اکیڈمی آف سائنسز قائم کی تو کہیں سائنس سٹی بنانے کے ارادے کئے۔ اقوام متحدہ کے تحت ایک جامعہ بنانے کا پروگرام بھی تھا…۔ وہ آج ہم میں نہیں مگر ان کی باتیں نہ ختم ہونے والی ہیں اور ان کے حیرت انگیز کارنامے سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہیں۔
ڈاکٹر عبدالسلام کا ایک شہرہ آفاق کام Parity Violation in Weak Interactions سے متعلق تھا جس پر دو امریکی سائنس دانوں کو نوبل پرائز دیا گیا۔ انصاف کا تقاضا تو یہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب اور روسی سائنس دان لینڈاؤ کو بھی اس میں شامل کیا جاتا کیونکہ انہوں نے بھی الگ الگ اس پر کام کیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کا سب سے مشہور کام Unification of Weak and Electromagnetic Forces ہے جس پر انہیں دو امریکی سائنس دانوں کے ساتھ 1979ء میں نوبل پرائز دیا گیا۔ اُس روز مَیں ٹریسٹ میں ہی تھا۔ انعام کی خبر پہنچتے ہی سارے ٹریسٹ شہر میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ ریڈیو، ٹی وی پر ڈاکٹر صاحب کی باتیں اور پاکستان کے چرچے ہونے لگے۔کئی دن اخبارات ڈاکٹر صاحب اور سینٹر کے بارہ میں بھرے ہوئے تھے۔ ٹریسٹ کے شہریوں نے اس طرح مسرت کا اظہار کیا جیسے ڈاکٹر صاحب اُن کے اپنے ہیں۔ پاکستانیوں کو بڑی عزت ملی۔ عام شہریوں کی نظر میں پاکستان ایک قابل احترام ملک بن گیا اور ٹریسٹ سنٹر میں پاکستانی سائنس دان مستقبل کے نوبل لارئیٹس سمجھے جانے لگے۔ پاکستان کو ڈاکٹر صاحب سے بڑھ کر شائد ہی کوئی سفیر ملے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں