پردہ کے حکم کی تعمیل کی برکت اور ایک نشان
لجنہ ناروے کے سہ ماہی رسالہ ’’زینب‘‘ اپریل،مئی،جون 2007ء میں ایک نواحمدی بہن مکرمہ شازیہ افتخار صاحبہ یہ ایمان افروز واقعہ لکھتی ہیں کہ میں نے پچھلے سال ہی احمدیت کو قبول کیا ہے جس کی وجہ سے میرے والدین اور رشتہ دار مجھ سے نہیں ملتے۔ میں نے احمدیت کے لئے اِن کو بھی چھوڑ دیا۔ ایک بیٹی کی ماں ہوں مگر احمدی ہونے کی وجہ سے اس سے ملنے یا بات کرنے یا آواز سننے کی بھی اجازت نہیں دیتے لیکن مجھے اب اس کی پرواہ نہیں۔ میرے ساتھ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی مدد اور خلیفہ وقت کی دعائیں ہیں۔
میں پچھلے 4سال سے ملازمت کر رہی ہوں۔ پہلے پردہ نہ کرتی تھی لیکن احمدی ہونے کے بعد کوٹ پہننے اور سکارف لینے لگی۔ اس پر میرے باس (Boss) نے مجھ سے کہا کہ میں سکارف مجھ پر اچھا نہیں لگتا اور اس کے بغیر میں زیادہ خوبصورت لگتی تھی اس لئے میں اس کو اوڑھنا چھوڑ دوں۔ میں نے جواب دیا کہ میں اسی لئے اوڑھتی ہوں کیونکہ میرا مذہب مجھے اجازت نہیں دیتا کہ غیرمحرم مجھے دیکھیں۔ اس پر اُس نے کہا کہ اگر یہ بات ہے تو بہتر ہے کہ گھر پر رہو تا کہ تمہیں کوئی نہ دیکھے۔ میں نے کہا کہ اگر تم نے مجھے کام سے نکالنا ہے تو مجھے یہ لکھ کر دو کہ تم مجھے کس وجہ سے نوکری سے نکال رہے ہو۔ اُس نے کہا کہ ٹھیک ہے چار دن تک میں سوچ لوں اور چار دن کے بعد وہ مجھے لکھ کر دیدے گا۔
چونکہ بہت اکیلی ہونے کی وجہ سے ایک کام کا ہی سہارا تھا یا تھوڑا سا دل لگا ہوا تھا اور روزی کا ذریعہ بھی تھا۔ چنانچہ چار دن بہت پریشان رہی اور خدا سے بہت دعا مانگی۔ پھر میں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ مجھے اس کا فیصلہ منظور ہے، میں نوکری چھوڑ دوں گی کیونکہ خلیفۂ وقت کا ارشاد ہے کہ وہ کام چھوڑ دو جو پردہ کی راہ میں رکاوٹ ہو۔ لیکن جب چار دن بعد میں کام پر گئی تو پتہ چلا کہ اُسی باس (Boss) کو نوکری سے نکال دیا گیا ہے۔ میں خدا کے اس عظیم فیصلے پر حیران رہ گئی اور سجدۂ شکر ادا کیا۔