پلاسٹک کی آلودگی
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 4؍اپریل 1998ء میں شائع ہونے والے ماحول کی آلودگی سے متعلق ایک مضمون میں مکرم سید ظہور احمد شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ پلاسٹک ایک ایسی چیز ہے جو کبھی بھی ضائع نہیں ہوتی اور اس میں سے ایسی زہریلی گیسیں خارج ہوتی رہتی ہیں جو مسلسل فضا میں شامل ہوتی رہتی ہیں اور ان سے متأثر ہونے والا انسان کینسر میں مبتلا ہوسکتا ہے۔ دراصل پلاسٹک کی تیاری میں بے شمار کیمیائی مادے استعمال ہوتے ہیں جن میں سے اکثر زہریلے ہوتے ہیں اور وہ پلاسٹک سے بنی ہوئی اشیاء میں اپنی اصلی حالت میں موجود رہتے ہیں اور اُن چیزوں میں شامل ہوجاتے ہیں جو ان اشیاء میں رکھی جائیں خصوصاً اچار اور چٹنی وغیرہ میں۔ اسی طرح پلاسٹک کی بالٹی یا ٹینکی میں سٹور کیا جانے والا پانی بھی آلودہ ہوسکتا ہے۔
پلاسٹک کی اشیاء کبھی بھی قدرتی عمل سے ضائع نہیں ہوتیں بلکہ اگر ان کو جلایا جائے تو خطرناک زہریلے مادے خارج ہوتے ہیں جن سے کینسر ہوسکتا ہے اور انسانی جسم میں جینیاتی تبدیلیاں بھی واقع ہوسکتی ہیں جس کی وجہ سے ٹیومر بن جاتے ہیں۔ ایسے کوڑے کرکٹ کے ڈھیر جن میںپلاسٹک کی اشیاء صرف 2ء1 فیصد بھی ہوں ان کو اگر جلایا جائے تو سینہ کا درد، کینسر اور الرجی ہونے کا احتمال ہوتا ہے۔ اس کا علاج صرف یہی رہ گیا ہے کہ ردّی پلاسٹک کو Recycle کیا جائے اگرچہ یہ پلاسٹک بہت اچھا اور مضبوط نہیں ہوگا۔ بہرحال ان تمام خطرات کے پیش نظر ہمیں چاہئے کہ پلاسٹک کے تھیلوں کی جگہ کاغذ یا کپڑے کے تھیلے استعمال کریں اور پلاسٹک کی بوتلوں میں بند اشیاء خورونوش کی بجائے شیشے کی بوتلوں میں بند اشیاء خریدیں۔