پُراسرار مصری ممیاں

ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ فروری 2005ء میں مکرم عزیز احمد صاحب کا مصری ممیوں کے بارہ میں ایک معلوماتی مضمون شامل اشاعت ہے۔

مسالہ جات اور دواؤں کے ذریعے محفوظ کرنے کا عمل، حنوط کاری یا Mummificationکہلاتا ہے۔ عام حالات میں مرنے کے بعد انسانی جسم میں گلنے سڑنے کا عمل شروع ہوجاتا ہے جس کی بڑی وجہ وہ بیکٹیریا ہیں جو لاکھوں کی تعداد میں انسانی جسم کے اندر اور جلد پر ہر وقت پائے جاتے ہیں۔ زندگی کے دوران جسمانی دفاعی نظام فعال ہونے کی وجہ سے یہ بیکٹیریا نقصان نہیں پہنچاتے۔ پھر مرنے کے بعد انسانی خلیوں کی خود بخود ٹوٹ پھوٹ کا عمل بھی شروع ہوجاتا ہے جو موت سے تقریباً چار سے چھ گھنٹے بعد شروع ہوتا ہے اور تقریباً دوسے تین دن میں مکمل ہوجاتا ہے۔ اگر کسی طریق سے یہ عمل سست کیا جاسکے یا بالکل روکا جاسکے تو لاش کافی لمبے عرصہ تک اپنی اصلی حالت میں محفوظ کی جاسکتی ہے۔ ایسا کرنے کے کئی طریقے ہیں مثلاً مُردہ جسم نکتہ انجماد (صفر سنٹی گریڈ) سے کم پر رکھا جائے۔ یا اسے نکتہ کھولاؤ (ایک سو سنٹی گریڈ) سے اوپر رکھا جائے کیونکہ اس طرح پانی بخارات بن کر اُڑ جاتا ہے اور بیکٹیریا وغیرہ بھی زندہ نہیں رہ پاتے۔ یا جسم کو ہوا کی غیر موجودگی مثلاً ائیرٹائٹ کفن وغیرہ میں یا چونے کے پتھروں کے درمیان دفنایا جائے۔ یا پھر انتہائی گہری قبر میں بچایا جائے۔
مذکورہ بالا عوامل کے ذریعے قدرتی طور پر حنوط شدہ اجسام دنیا کے مختلف خطوں سے ملے ہیں۔ مثلاً قطب شمالی پر قدیم زمانے کے انسان اور جانوروں کی برف میں دبی ہوئی لاشیں ملی ہیں۔ اس طرح بعض علاقوں میں معدنی (چونے کے پتھروں) چٹانوں میں مدفون ہزاروں سال پہلے کے جانداروں کے باقیات بھی صحیح حالت میں ملے ہیں۔ حنوط کاری بحیثیت ایک معاشرتی رواج اور فن کے جب بھی زیربحث آتا ہے تو مصریوں کے فن حنوط کاری کا ذکر کئے بغیر بات مکمل نہیں ہوتی۔ مصر اس کرہ ارض پر واحد تہذیب تھی جہاں مرنے کے بعد جسم کو محفوظ کرنے کے لئے باقاعدہ حنوط کاری کی جاتی تھی۔ 400قبل مسیح میں مصریوں نے مُردے کو حنوط کرنے کا عمل متعارف کرایا تھا اور دس سے سولہ برس قبل مسیح تک اپنے عروج پر پہنچ چکا تھا۔ حنوط کرنے کا سب سے تفصیلی اور مہنگا طریقہ باحیثیت لوگوں اور قیمتی جانوروں پر اپنایا جاتا تھا۔
مصر کا پہلا تاریخی حکمران جس نے 3100قبل مسیح میں بہت سارے مقامی حکمرانوں اور قبیلوں کو زیر کر کے ایک متحدہ مصر کی بنیاد رکھی اسے مصر کا پہلا بادشاہ یا فرعون اوّل کہتے ہیں۔ اس کے بعد اس کی تیس پشتوں نے مصر پر حکمرانی کی جس کا سلسلہ سکندراعظم نے ختم کیا جب اس نے مصر پر فتح حاصل کی۔ فراعین کے دَور میں ہی مصریوں میں مرنے کے بعد جسم کو حنوط کرنے کا رواج عام ہوا۔ دراصل مصریوں کا اس بات پر مکمل ایمان تھا کہ مرنے کے بعد دوبارہ زندگی ملتی ہے اس لئے وہ اپنے نمایاں اور اہم افراد کی لاشوں کو حنوط کیا کرتے تھے۔ قدیم یونانی مؤرخ ہیروڈوٹس کے مطابق مصر میں اُس وقت لاشوں کو حنوط کرنے کے لئے مخصوص افراد ہوتے تھے جو اس فن میں ماہر تھے اور مرنے والے کے لواحقین (رشتے دار وغیرہ) اپنی حیثیت کے مطابق تابوت اور حنوطی ماہرین کے حوالے کر دیا جاتا تھا جو پھر اپنی ورکشاپ میں اس پر کام کرتے تھے۔ سب سے پہلے یہ لوگ لوہے کے ایک ہک کوناک کے ذریعے مردے کے سر میں ڈال کر اس کے مغز کا کچھ حصہ نکال کر دوائیں بھر دیتے۔ پھر وہ ایک تیز نوکیلے پتھر سے اس کے پیٹ میں چیرا لگاتے اور آنتیں وغیرہ نکال لیتے۔ پھر معدہ میں مختلف قسم کی خوشبوئیں بھر کر دوبارہ اندر رکھ کر پیٹ کو سی دیتے۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد وہ لاش کو نیٹرم کاربونیٹ، سلفیٹ اور نمک کے تیزاب کے محلول بھرے ٹب میں ڈبو دیتے اور ستر دن تک اس کے اندر رہنے دیتے۔ ستر دن کے بعد وہ لاش کو باہر نکال کر خوب اچھی طرح دھوتے پھر جسم کو لچکدار کپڑے (لینن) کی پٹیوں میں لپیٹ کر انہیں گوند سے چپکا دیتے۔ پھر لاش رشتہ داروں کے حوالے کر دی جاتی جو انسانی جسم کی شکل کی طرح بنائے ہوئے مخصوص تابوت میں بند کر کے اسے تہہ خانے کی دیوار کے ساتھ کھڑا کر دیتے تھے۔ اس طرح لاش کو مرنے کے بعد سے لے کر دفنانے تک کل 96سے 120دن لگ جاتے۔
حنوطیوں کی معاشرے میں بڑی قدر تھی۔ وہ راہبوں اور پجاریوں کے دوست تھے اور اس طرح آزادی سے مندروں میں آجاسکتے تھے۔ یہ اپنے فن میں ایسے ماہر تھے کہ مختلف مسالہ جات اور دواؤں کے ذریعے لاش کو ایسی مکمل صورت میں لے آتے کہ ان کی بھنوؤں اور پلکوں تک میں خلل نہیں پڑتا تھا۔ اس طرح برسوں بلکہ صدیوں بعد بھی ان کی بآسانی شناخت ہوسکتی تھی۔ بے شمار مصری اپنے آباؤ اجداد کی لاشوں کو عالی شان مقبروں یا کمروں میں رکھتے تھے تاکہ آنے والی نسلیں بھی ان کی زیارت سے مستفید ہوسکیں اور ان کے نقوش میں اپنے نقوش کی مماثلت پا کر فخر کر سکیں۔ غریب افراد کے جسموں کو بہت ہی سستے طریقوں سے محفوظ کیا جاتا تھا۔ ایک طریقہ تو یہ تھا کہ جسم کو نمک اور گرم معدنی رال مثلاً تارکول میں ڈبویا جاتا تھا۔ دوسرے طریقے میں صرف نمک ہی استعمال کیا جاتا تھا۔ ان طریقوں کے ذریعے صرف بیرونی طور پر ہی جسموں کو محفوظ کیا جاسکتا تھا۔ نمک زدہ خشک جسم آسانی سے شناخت کیا جاسکتا ہے۔ مگر اس کی کھال کاغذ کی طرح ہوجاتی ہے۔ بال اور نقوش غائب ہوجاتے اور ہڈیاں سفید اور بھربھری ہوجاتی تھیں۔
دنیا کی قدیم ترین ممی پاپائی اول کے بیٹے ’’سیکریم سیف‘‘ کی ہے۔ یہ ممی3200 قبل مسیح کی تھی جو اسکارا میں 1881ء میں دریافت ہوئی اور اب غزہ میں موجود ہے۔ یہ ممی نچلے جبڑے سے محروم ہے اور اس کی ایک ٹانگ لانے لے جانے کی وجہ سے جگہ سے ہٹ گئی ہے۔ مگر نقوش بالکل محفوظ ہیں اور بالوں کے ایک گچھے سے پتہ چلتا ہے کہ یہ آدمی جوان تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں