پہلی صدی کے مجدّد حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ، روزنامہ الفضل انٹرنیشنل 16؍جون 2025ء)
اموی خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے بارے میں روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3؍فروری 2014ء میں مکرم محمد احمد بشیر صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
آپؒ 681ء میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ آپؒ کے والد مروان بن حکم تھے جو قریباً اکیس سال مصر کے گورنر رہے۔ والدہ اُمّ عاصم تھیں جو حضرت عمرفاروقؓ کی پوتی تھیں۔ نازونعم میں پرورش ہوئی لیکن پاکیزگی نفس آپؒ کی شخصیت کا خصوصی وصف تھا۔ آپؒ کی تعلیم وتربیت کی طرف خصوصی توجہ دی گئی۔ حافظ قرآن بھی تھے۔ایک بار نماز میں شریک نہ ہوسکے تو اپنے استاد صالح بن کیسان کے پوچھنے پر بتایا کہ بالوں میں کنگھی کررہا تھا۔ استاد نے مصر میں والد کو یہ اطلاع بھجوائی تو والد نے آپؒ کے بال منڈوا دیے۔
آپؒ کے استاد کا کہنا تھا کہ ’’مجھے ایسے کسی آدمی کا علم نہیں جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کی عظمت اس لڑکے سے زیادہ نقش ہو۔‘‘ یہی وجہ تھی آپؒ خلافت سے قبل جس عہدے پر فائز کیے گئے آپؒ کی خداخوفی کی روش قائم رہی۔ چنانچہ خلیفہ عبدالملک نے اپنی چہیتی بیٹی فاطمہ کی شادی آپؒ سے کردی۔
707ء میں ولید بن عبدالملک نے آپؒ کو مدینہ کا گورنر مقرر کرنا چاہا تو آپؒ نے اس شرط پر یہ عہدہ قبول کیا کہ کسی پر ظلم نہیں ہونے دیں گے۔ چنانچہ 713ء تک آپؒ نے ایسا عدل قائم کیا کہ اہل حجاز کے دل جیت لیے۔
خلیفہ سلیمان بن عبدالملک نے اپنے وزیر رجاء سے مشورے کے بعد آپؒ کو اپنے بعد خلافت کے لیے وصیت میں نامزد کیا اور اس وصیت کو لفافے میں بند کرکے بنوامیّہ سے اس پر بیعت لی۔ 718ء میں سلیمان کی وفات ہوئی تو آپؒ خلیفہ بنے۔ ہشام (جسے اپنی خلافت کا یقین تھا) اُس نے بیعت سے انکار کیا تو رجاء نے اُسے سر قلم کرنے کی دھمکی دے کر بیعت کروائی۔ دوسری طرف حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ اس ذمہ داری کے اٹھانے پر لرزاں تھے اس لیے یہ اعلان کیا: ’’لوگو! میری خواہش اور عام مسلمانوں کی رائے لیے بغیر مجھے خلافت کی ذمہ داری میں مبتلا کیا گیا ہے اس لیے میری بیعت کا جو طوق تمہاری گردن میں ہے خود اُسے اُتارے دیتا ہوں، تم جسے چاہو اپنا خلیفہ بنالو۔‘‘ اس پر لوگوں نے بآوازِ بلند آپؒ کے حق میں رائے دی۔ تب آپؒ نے اطاعت پر خطبہ دیا اور کہا کہ اگر مَیں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کروں تو میری اطاعت کرو اور اگر مَیں خدا کی نافرمانی کروں تو میری بات نہ مانو۔
لباس فاخرانہ زیب تن کرنے والے عمربن عبدالعزیزؒ خلیفہ بنتے ہی سراپا عجزونیاز بن گئے۔ اعلیٰ نسل کے گھوڑوں پر سواری کی بجائے اپنے خچر پر سوار ہونا پسند کیا۔ آگے چلنے والے نیزہ بردار کو ہٹادیا اور کہا کہ مَیں بھی تمام مسلمانوں کی طرح ایک مسلمان ہوں۔ سلیمان کا اثاثہ تقسیم ہونے لگا تو آپؒ نے سارا مال بیت المال میں جمع کروانے کا حکم دیا۔ قصر خلافت کی بجائے اپنے گھر میں ہی رہنا پسند کیا۔ بیوی سے کہا کہ اپنے سارے زروجواہر بیت المال میں جمع کروادو ورنہ مجھ سے علیحدہ ہوجاؤ۔ اُس نے آپؒ کی خواہش کی تعمیل کی۔ الغرض آپؒ کی زندگی درویشی اور فقر و استغنا کا نمونہ ہوکر رہ گئی۔ ہر وقت اُمّتِ مسلمہ کے حقوق کی نگہداشت اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کے نفاذ کی فکر دامن گیر رہتی اور پریشانی آپؒ کے چہرے سے عیاں ہوتی۔ دوسری طرف اہل بیت کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا ازالہ کیا اور اُن کی اور دیگر لوگوں کی ضبط کی ہوئی جائیدادیں اُن کو واپس کردی گئیں۔ بنوامیہ کی اور اپنی بھی بڑی موروثی جاگیر واپس کردی۔ بعض لوگوں نے آپؒ سے کہا کہ یہ نہ کریں ورنہ اولاد کی کفالت کیسے کریں گے؟ آپؒ نے فرمایا: اُن کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔ آپؒ نے بیت المال کو خلیفہ کی بجائے عوام کا حق قرار دیا۔ خاندانِ بنوامیہ کے تمام وظائف بند کردیے۔ ذمّیوں سے حسن سلوک کیا اور جزیہ لینا بند کردیا۔ اس اعلان کا ایک پہلو یہ ہوا کہ کثیر تعداد میں لوگ اسلام قبول کرنے لگے اور دوسری طرف مصر کے حاکم نے آمدنی کم ہونے کی شکایت کی تو آپؒ نے فرمایا: ’’جزیہ بہرحال ختم کردو، آنحضورﷺ ہادی بناکر بھیجے گئے تھے، محصل بناکر نہیں۔‘‘
کئی معاشی اور سیاسی اصلاحات کیں۔ بیت المال کی حفاظت کا سخت انتظام کیا، سرکاری اخراجات میں تخفیف کردی، معذوروں، علماء اور شیرخوار بچوں کے وظائف مقرر کیے۔ ناجائز آمدنیوں کی روک تھام اور ظلم کے سدّباب کے نتیجے میں صرف ایک سال میں یہ حالت ہوگئی کہ لوگ صدقہ لے کر آتے تھے لیکن صدقہ لینے والے نہ ملتے تھے۔ حضرت علیؓ پر لعن طعن کا سلسلہ جو پہلے سے جاری تھا، آپؒ نے اُسے فوری بند کرادیا۔ الغرض بنوامیہ کی 92سالہ حکومت کے درمیان آپؒ کے اڑھائی سال تاریکی میں روشنی کا مینار دکھائی دیتے ہیں۔ اسی لیے آپؒ کو خلیفہ راشد بھی کہا جاتا ہے اور اہل سنّت اور اہل تشیع دونوں آپؒ کا بےحد احترام کرتے ہیں۔
آپؒ نے بےشمار سرائیں بنوائیں جن میں مسافروں کی ایک دن اور بیمار مسافروں کی دو دن میزبانی کی جاتی، شراب کی دکانوں کو بند کرادیا۔ آپؒ کے دَور میں ہی سندھ کے راجہ داہر کے بیٹے جے سنگھ نے اسلام قبول کیا تھا۔
آپؒ نے خلافت کی موروثی حیثیت ختم کرنے کی کوشش کی تو بنوامیہ کی ریشہ دوانیوں نے یہ تبدیلی لانے کا موقع نہ دیا اور جنوری 720ء میں بنوامیہ نے ایک خادم کو ایک ہزار اشرفیاں دے کر آپؒ کو زہر دلوادیا جس سے آپؒ بیمار ہوگئے۔ جب حقیقت معلوم ہوئی تو خادم کو معاف کرکے آزاد کردیا لیکن اُس سے اشرفیاں لے کر بیت المال میں جمع کروادیں۔ پھر اپنے بعد آنے والے خلیفہ یزید بن عبدالملک کے نام وصیت لکھوائی جس میں تقویٰ کی تلقین کی۔ 10؍فروری 720ء کو صرف چالیس سال کی عمر میں آپؒ کی شہادت ہوگئی اور شام کے شہر حلب کے قریب دیرسمعان میں تدفین ہوئی۔