پہلے انگریز واقف زندگی محترم بشیر احمد آرچرڈ صاحب – انٹرویو
’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا‘‘
(شیخ فضل عمر)
(مطبوعہ رسالہ ’طارق‘ لندن 1993 ٕ )
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا مذکورہ بالا الہام نہایت شان کے ساتھ پورا ہو رہا ہے اور کوئی ایک سال بھی ایسا نہیں گزرتا جب احمدیت نے کسی نئے ملک اور نئی بستی میں نفوذ نہ کیا ہو۔ اور یہ بھی کہ دنیا بھر میں پھیلی ہوئی مختلف قوموں کے لاکھوں افراد آج مسیح وقت کی غلامی میں مسند خلافت پر متمکن ہونے والے وجود کے قدموں میں بیٹھ کر اسلام کی خدمت کرنے کو اپنی سعادت سمجھتے ہیں۔ ایسے ہی چند فدائین کے تعارف کے مقصد سے یہ سلسلہ شروع کیا گیا ہے تا وہ جنہوں نے خود حق کو قبول کی اور پھر اسے دوسروں تک پہنچانے کے لئے قابل قدر کوشش فرمارہے ہیں انہیں ہم اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔ اس شمارہ میں پہلے انگریز واقف زندگی محترم بشیر احمد آرچرڈ صاحب کا مختصر تعارف پیش کیا جارہا ہے۔
محترم بشیر احمد آرچرڈ صاحب 26 ؍اپریل 1920ء کو انگلستان کے قصبہ ’’ٹورکی‘‘ میں پیدا ہوئے۔ والد اور دادا ڈاکٹر تھے اور نانا ایڈمرل۔ آپ تین بھائی تھے۔ بڑے بھائی جو نیوی میں تھے جنگ عظیم دوئم میں ان کا جہاز ڈوب گیا۔ دوسرے بھائی مذہبی میلان رکھتے تھے اور اس خالہ سے متأثر تھے جو چین میں 40 سال تک بطور مشنری کام کرتی رہی تھیں۔ چنانچہ وہ پروٹسٹنٹ فرقہ کے پادری بن گئے۔ والدہ بھی مذہبی تھیں جبکہ والد کو مذہب سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔
محترم آرچرڈ صاحب کو بچپن ہی سے پڑھائی سے دلچسپی نہیں تھی چنانچہ 16 سالہ کی عمر میں سکول کو خیر باد کہہ کر سات سالہ معاہدہ کے تحت فوج میں بھرتی ہوگئے لیکن دو سال بعد ہی اس زندگی سے تنگ آکر ملازمت سے نجات حاصل کی۔ پھر دوبارہ فوج میں ملازم ہوگئے اور جنگ عظیم دوئم کے شروع میں اپنی یونٹ کے ساتھ فرانس اور بیلجیم گئے لیکن پسپا ہونے کے بعد یہ یونٹ واپس برطانیہ بھیج دی گئی۔
1941ء میں آپ نے فوج میں باقاعدہ کمیشن حاصل کیا۔ 1944ء میں آپ کو ہندوستان بھجوایا گیا اور آپ بمبئی سے ہوتے ہوئے بنگلور پہنچے اور 6 ماہ کی ٹریننگ کے بعد سیکنڈ لیفٹیننٹ متعین ہو کر جالندھر چلے گئے۔ پھر آپ کو آسام اور برما کے محاذ پر بھیجا گیا جہاں ایک موقع پر دو ہفتہ کے لئے آپ کی یونٹ کو جاپانی فوج نے محصور کئے رکھا۔ 1944ء کا وہ لمحہ آپ کی یادداشت میں ہمیشہ کے لئے محفوظ ہوگیا ہے جب اپنے افسر کے بلانے پر آپ خندق سے باہر نکلے ہی تھے کہ ایک گولہ خندق پر آکر گرا اور آپ کے تمام ساتھی آپ کی نظروں کے سامنے لقمہ اجل بن گئے۔
محترم آرچرڈ صاحب عیسائیت سے کبھی متأثر نہیں ہوئے۔ ہندوستان میں قیام کے آغاز میں آپ نے ہندو مذہب کا مطالعہ کیا۔ اس زمانے میں آپ کی زندگی کا کوئی مقصد نہ تھا اور آپ سگریٹ نوشی، شراب نوشی، قماربازی، ناچ گانے اور سینمابازی کے شوقین اور عادی تھے۔
آپ کو اسلام کا پیغام ایک احمدی حوالدار کلرک (محترم عبدالرحمن دہلوی صاحب) نے پہنچایا اور قادیان سے ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ بھی منگواکر دی۔ نیز دو ہفتوں کی چھٹیاں قادیان میں گزارنے کی تجویز بھی پیش کی۔
اُن دنوں آپ برما کے محاذ پر متعیّن تھے جہاں سے قادیان ایک ہزار میل کے فاصلہ پر تھا۔ چنانچہ قادیان کا طویل سفر ایک ہفتہ میں طے ہوا اور وہاں صرف دو دن کے قیام کے دوران حضرت مفتی محمد صادق صاحب ؓ نے آپ کو اسلام اور احمدیت کے بارے میں مزید معلومات مہیا کیں۔ آپ نے حضرت مصلح موعودؓ سے بھی ملاقات کی اور اس ملاقات کی لذّت بیان کرتے ہوئے آپ کہتے ہیں کہ گویا آپ کسی اَور ہی دنیا میں تھے۔ حضورؓ کے نورانی چہرے اور مقناطیسی شخصیت کے بعد جس چیز نے آپ کو متأثر کیا وہ اہل قادیان کا حسنِ اخلاق تھا۔ چنانچہ قادیان سے واپس جاکر (برما کے محاذ پر) جلد ہی بیعت کی سعادت حاصل کر لی۔ قبول احمدیت کے بعد آپ کی زندگی میں عظیم انقلاب رونما ہوا اور آپ نے ساری بدعادات کو ترک کر دیا اور مالی قربانیوں میں اس طرح حصہ لیا کہ نظام وصیت میں بھی شامل ہوگئے۔ چنانچہ آپ کہتے ہیں کہ آج آپ کو وہ ذہنی اور قلبی سکون میسر ہے جو کبھی خواب و خیال میں بھی نہ تھا۔
جنگ عظیم دوم کے اختتام پر آپ نے فوج سے فراغت حاصل کر کے اپنے آپ کو خدمت اسلام کے لئے پیش کر دیا اور اس طرح پہلے انگریز واقف زندگی ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے ایک بار آپ کو خط میں لکھا:
’’بے شک آج تمہیں کوئی نہیں جانتا اور کسی نے تمہارا نام نہیں سنا لیکن یاد رکھو ایک زمانہ آئے گا کہ قومیں تم پر فخر کریں گی اور تمہاری تعریف کے گیت گائیں گی اس لئے تم اپنے کردار اور گفتار پر نظر رکھو۔ یہ مت خیال کرو کہ جو کچھ تم کر رہے ہو وہ تمہارا ذاتی فعل ہے بلکہ وہ تمام برطانوی قوم کی طرف منسوب ہوگا آئندہ آنے والی نسلیں تمہاری پیروی کریں گی … جب احمدیت کا دنیا میں غلبہ ہوگا اور انشاء اللہ ایسا ہوگا، دنیا کی کوئی طاقت ایسی نہیں جو اس غلبہ کو روک سکے، تب لوگوں کے دلوں میں تمہارے لئے عظمت ہوگی اس عظمت سے بھی زیادہ جو اُن کے دلوں میں عزّت مآب وزیراعظم کے لئے ہے‘‘۔
اپنی زندگی خدمت دین کے وقف کر نے کے بعد محترم آرچرڈ صاحب کچھ عرصہ لندن مشن میں کام کرتے رہے اور پھر 1948ء میں گلوسٹر کے مقام پر آپ کا پہلا تقرّر ہوا۔ 1949ء میں گلاسگو (سکاٹ لینڈ) کے پہلے مشنری کے طور پر آپ کا تقرّر ہوا۔ تین سال بعد 1952ء میں آپ کو ویسٹ انڈیز بھجوادیا گیا اور آپ قریباً 15 سال تک ٹرینیڈاڈ، گیانا، گریناڈا اور کئی ملحقہ جزائر میں تبلیغ اسلام کرتے رہے۔ 1966ء میں آپ کا تقرّر دوبارہ گلاسگو میں ہوا جہاں آپ کا قیام مسلسل 17سال تک رہا۔ 1983ء میں آپ آکسفورڈ مشن میں متعین ہوئے۔ اسی دوران انگریزی ماہنامہ ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ کی ادارت کی ذمہ داری آپ کے سپرد کی گئی اور قریباً 9 سال تک آپ یہ خدمت بجالاتے رہے۔ 1987ء میں آپ نے اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں رہائش اختیار کر لی۔ 1993ء کے آخر میں آپ کی تقرّری بحیثیت مبلغ سلسلہ آکسفورڈ میں ہوگئی جہاں آپ اس وقت مقیم ہیں۔
آپ کے بے شمار مضامین جماعتی جرائد کی زینت بنتے رہے ہیں۔ چند مضامین “Life Supreme” کے نام سے شائع ہونے والی کتاب میں پیش کئے گئے ہیں۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ بھی شائع ہوچکا ہے۔
میری درخواست پر محترم آرچرڈ صاحب نے خدّام کے نام اپنا یہ پیغام دیا کہ ’’ میں تمام خدّام کو قرآن کریم کی تعلیم کی روشنی میں یہ نصیحت کرتا ہوں کہ وہ اپنے خیالات، قول اور فعل میں پاکیزگی حاصل کرنے کے لئے ہمہ وقت کوشاں رہیں کیونکہ یہی انسانی پیدائش کا مقصد عظیم ہے۔‘‘