پیرمہرعلی شاہ صاحب گولڑوی کی مقابلہ تفسیر نویسی میں تاحیات ناکامی
رسالہ انصارالدین ستمبر و اکتوبر اور نومبر و دسمبر 2012ء میں مکرم مظفر احمد درّانی صاحب کے قلم سے پیرمہرعلی شاہ صاحب گولڑوی کی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مقابلہ پر تفسیر نویسی میں ناکامی کے بارہ میں تفصیل سے حقائق درج کئے ہیں۔
حضرت مسیح موعودؑ نے جب ماموریت کا دعویٰ فرمایا تو ہر طرف سے مخالفت کا بازار گرم ہوا۔ اگرچہ آپؑ نے کامیاب مناظروں کے ذریعہ حق و صداقت کا بول بالا کیا لیکن آپؑ کے مخالفین نے آپؑ کی کامیابیوں اور دلائل کے غلبہ کو دیکھتے ہوئے اشتعال انگیزی کے ذریعہ مباحثوں میں دنگا وفساد شروع کر دیا۔ اس پر قیامِ امن اور بعض قانونی تقاضوں کے پیش نظر 1896ء میں حضورؑ نے اپنی کتاب ’’انجامِ آتھم‘‘ میں یہ اعلان فرمایا کہ آئندہ آپ مباحثوں میں حصہ نہیں لیں گے اور مخالف علماء کے ساتھ حق و صداقت میں فیصلہ کے لئے مباہلہ کا طریق پیش فرمایا۔ چنانچہ آپ نے جن علماء اور سجادہ نشینوں کو مباہلہ کی طرف بلایا ان میں گولڑہ ضلع راولپنڈی کے ایک مشہور پیر مہر علی شاہ صاحب بھی تھے جو صوفیاء کے چشتی سلسلہ سے تعلق رکھتے تھے۔مگرپیر صاحب نے اس چیلنج کا کوئی جواب نہ دیا۔ اس پر حضور علیہ السلام نے 20جولائی 1900ء کو اُن کی طرف منسوب کتاب ’’شمس الہدایہ‘‘ کے حوالہ سے، جس میں اُن کا یہ دعویٰ درج ہے کہ انہیں قرآن کی سمجھ و علم عطا کیا گیا ہے، انہیں قرآن کریم کی کسی ایک سورۃ کی عربی زبان میں تفسیر لکھنے کا چیلنج دیا۔نیز فرمایا کہ اگر تین اہل علم حلفاً فیصلہ سنادیں کہ پیر صاحب کی تفسیر اور عربی نویسی تائید یافتہ لوگوں کی طرح ہے اور مجھ سے یہ کام نہ ہو سکا یا مجھ سے ہو سکا اور انہوں نے بھی میرے مقابلہ پر ایسے ہی کر دکھایا تو مَیں اقرار کروں گا کہ حق پیر مہر علی شاہ کے ساتھ ہے۔ اور اپنی تمام کتابیں جو اس دعویٰ کے متعلق ہیں جلا دوں گا اور اپنے تئیں مخذول و مردود سمجھوں گا۔ لیکن اگر میرے خدا نے اس معاملہ میں مجھے غالب کردیا تو وہ توبہ کرکے مجھ سے بیعت کریں۔
حضرت مرزا صاحب کا یہ اشتہار پڑھ کر پیر صاحب کو اپنی علمی حیثیت کا خوب احساس ہوا۔ اب نہ تو مقابلہ تفسیر نویسی میں میدان میں آنے کی ہمت تھی اور نہ مریدوں کے خوف سے اس کا انکار کر سکتے تھے۔ اس لئے پیرصاحب نے 25؍جولائی 1900ء کو ایک اشتہار میں یہ تجویز دی کہ پہلے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کے دعویٰ مسیحیت پر بحث ہو۔ جس کی منصفی اور ثالثی مولوی محمد حسین بٹالوی اپنے دیگر دومولویوں کے ساتھ کریں۔ اگر وہ اپنا فیصلہ پیر صاحب کے حق میں دیں تومرزا صاحب کو پیر صاحب کی بیعت کرنا ہوگی اور پھر اس کے بعد مقابلہ تفسیرنویسی کی بات ہوگی۔
گویا پیر صاحب نے اپنے اشتہار کے ذریعہ مقابلہ تفسیر نویسی سے انکار و فرار کی ایک راہ نکال لی۔ حضورؑنے اُن کی اس چال پر اُن کا خوب محاسبہ کیا اور واضح فرمایا کہ ’’مَیں اپنی کتاب انجام آتھم میں مولویوں کی سخت دلی کو دیکھ کر تحریری وعدہ کر چکا ہوں کہ آئندہ ہم ان کے ساتھ مباحثات مذکورہ نہیں کریں گے‘‘۔
اس کے بعد 24؍ اگست 1900ء کو پیر صاحب اچانک اپنے مریدوں کے جلو میں لاہور کے لئے روانہ ہوئے ،ازخود 25؍ اگست کی تاریخ مقابلہ کے لئے مقرر کردی اور گھر سے چلتے وقت یہ چالاکی کی کہ حضورؑ کو تار دی اور کہا کہ وعدے کے مطابق بادشاہی مسجد میں آجاؤ۔ پھر دورانِ سفر لالہ موسیٰ ریلوے اسٹیشن پہنچ کر اسی مضمون کا تار قادیان دوبارہ ارسال کیا۔
دراصل یہ صرف دکھاوے کی یکطرفہ کارروائی تھی۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ جب نہ عنوان مقرر کیا، نہ تاریخ طے کی اورنہ جگہ کا فیصلہ ہوا کہ حضورؑ وہاں پہنچ جاتے۔
چنانچہ پیر صاحب جب اچانک لاہور وارد ہوئے تو جماعت احمدیہ لاہور کے مخلصین نے معاملات کو طے کرنے کے لئے پوری کوشش کی مگر پیر مہر علی شاہ صاحب کسی بات کو بھی قبول کرنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ مثلاً لاہور کے احمدیوں نے نہایت ادب سے ایک دستی خط لکھ کر پیر صاحب کو مقابلہ تفسیرنویسی پر آمادہ ہونے کی تحریک کی۔ یہ خط شہر کے چار غیرازجماعت معززین لے کر اُن کی قیامگاہ پر پہنچے۔ لیکن پیر صاحب کے مریدوں نے اس معزز وفد کو ملاقات کے لئے اندر جانے سے بھی روک دیا اور یہ کہہ کر اس وفد کو باہر سے ہی واپس کر دیا گیا کہ پیر صاحب اس خط کا کوئی جواب نہیں دیتے۔
اس پر اگلے دن یعنی 26؍ اگست 1900ء کو حکیم فضل الٰہی صاحب اور میاں معراج الدین صاحب نے پیر صاحب کے نام ایک رجسٹری خط میں یہ درخواست کی کہ وہ اپنے دستخطوں سے ایسی تحریرشائع فرما دیں کہ انہیں حضورؑ کی طرف سے 20جولائی1900ء کو دی گئی دعوتِ تفسیر نویسی بلاکم و کاست منظور ہے۔ لیکن افسوس کہ جناب پیر صاحب نے وہ رجسٹری خط لینے سے بھی انکار کر دیا۔ بلکہ پیر صاحب نے اپنے مریدوں کو یہی تلقین کی کہ احمدیوں کے ساتھ گفتگو سے بھی پرہیز کریں۔
پھر اچانک پیر صاحب اپنا دورہ نہایت مختصر کرتے ہوئے بغیر کسی تصفیہ اور مقابلہ تفسیر نویسی پر آمادگی کے 29؍ اگست 1900ء کو واپس گولڑہ تشریف لے گئے۔
پیر صاحب جب مقابلہ تفسیر نویسی پر آمادہ نہ ہوئے تو حضرت بانی سلسلہ احمدیہ نے 15دسمبر 1900ء کو اپنی کتاب اربعین نمبر 4میں پیر صاحب کویہ چیلنج دیا کہ آج سے70دن کے اندر اندر یعنی 25 فروری 1901ء تک فصیح و بلیغ عربی زبان میں گھر بیٹھے بیٹھے ہی سورۃ الفاتحہ کی تفسیر لکھیں اور اس سلسلہ میں عرب و عجم کے علماء سے مدد بھی لے لیں۔ مَیں بھی ایسی ہی تفسیر لکھوں گا ۔پھر دیکھیں گے کہ خدا اور حق کس کے ساتھ ہے ۔
اس اعلان و دعوت کے مطابق حضرت مرزا صاحب نے تو معینہ مدت کے اندر 23 فروری 1901ء کو عربی زبان میں سورۃ الفاتحہ کی تفسیر لکھ کر ’’اعجاز المسیح‘‘ کے نام سے شائع کروا دی لیکن پیر صاحب کو ساری زندگی اس کی توفیق نہ ملی۔ اُن کادعویٰ تو یہ تھا کہ میرا قلم بغیر ہاتھ لگائے خود بخودلکھے گا مگر اس کے بعد 37 سال کی عمر پانے کے باوجود کسی بھی طریقہ سے سورۃ الفاتحہ کی عربی تفسیر نہ لکھ سکے۔ حالانکہ عرب وعجم کے جن و انس سے مدد کی انہیں اجازت اور اختیار دیا گیا تھا۔ اور خواہ کسی ساتھی سے ہی لکھوالیتے ، جیسے آپ نے ’’شمس الھدایہ‘‘ مولوی محمد غازی صاحب سے اور ’’سیف چشتیائی‘‘ مولوی محمد حسن فیضی صاحب آف بھیں سے لکھوائیں، لیکن انہیں اس چیلنج کو قبول کرنے کی ہمّت نہ ہوئی۔
بہرحال ان حالات میں جب کہ پیر صاحب کسی بھی طرح مباہلہ یا مقابلہ تفسیر نویسی کے لئے تیار نہیں تھے۔ صرف زبانی بحث و مباحثہ کا ہی ذکر کرتے تھے تاکہ اگر حضرت مرزا صاحب آمادہ ہو جائیں تو کہہ سکیں کہ دیکھو وعدہ اور اعلان کرنے کے باوجود کہ ’آئندہ مناظروں اور مباحثوں میں شامل نہیں ہوں‘ اب خلافِ وعدہ پھر شامل ہورہے ہیں، اور اگر شامل نہ ہوں تو فتح کا نقارہ بجائیں ۔
چونکہ اس سے عوام الناس یہ خیال کر سکتے تھے کہ پیر صاحب چونکہ زبانی مباحثہ و مناظرہ پر آمادہ ہیں اس لئے ضرور ان کے پاس کچھ علمی دلائل ہوں گے۔ اس خیال کے ازالہ کے لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے پیر صاحب کے لئے ایک تحفہ تیار کیا جس میں قرآن و حدیث سے اپنے دعویٰ کی صداقت کے دلائل دیئے۔ اسے کتاب کی صورت میں شائع کیا۔ اور پیر صاحب کو ان دلائل کو توڑنے کی بھی دعوت دی اور انعام کا بھی اعلان فرمایا۔ اور کتاب کے سرورق پرہی آپ نے جلی حروف کے ساتھ کتاب کی تالیف کی غرض لکھ دی کہ
’’یہ رسالہ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی اور ان کے مریدوں اور ہم خیال لوگوں پر اِتمام حجت کے لئے محض نصیحۃً لِلہ شائع کیا گیا ہے۔ اور بغرض اس کے کہ عام لوگوں پر حق واضح ہو جائے‘‘۔
174 صفحات پر مشتمل کتاب ’تحفہ گولڑویہ‘ کی ابتدا میں 32 صفحات کے ضمیمہ میں جھوٹے مدعی الہام کی سزا، مدّتِ مہلت اور حضورؑ نے اپنے اوپر نازل ہونے والے الہامات کا نمونہ جو قبل از وقت شائع کئے گئے اور پورے بھی ہو چکے، کو موضوعِ بحث بنایا ہے۔
پھر اصل کتاب میںمباہلہ اور مقابلہ تفسیر نویسی کی دعوت کا کچھ ذکر کرنے کے بعد آپ نے باقی تمام انبیاء کی طرح حضرت عیسیٰ ؑ کے طبعی طور پر فوت ہو جانے کا ذکر کیا ہے جس کے لئے قرآن و حدیث اور تاریخ و بائبل کو گواہ بنایا ہے۔
٭ دوسرے مرحلہ میں آپ نے نصوصِ قرآنیہ و حدیثیہ اور دیگر قرائن سے ثابت کیا ہے کہ مسیح موعود اس اُمّت کے ایک فرد کے طور پر اسی امّت سے ظاہر ہوگا ۔
٭ تیسرے مرحلہ میں آپ نے یہ دلائل دیئے ہیں کہ یہ زمانہ اوریہ وقت ہی مسیح موعود کی آمد کا وقت ہے۔
وقت تھا وقت ِ مسیحا نہ کسی اور کا وقت
میں نہ آتا تو کوئی اَور ہی آیا ہوتا
٭ چوتھے مرحلہ کے طور پر آپ نے ان شہادات کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے کہ آپ ہی مسیح موعود ہیں۔
٭ خاتمۂ کتاب میں آپ نے تین قسم کی مخلوق کا ذکر کیا ہے یعنی مسیح الدجال، یاجوج ماجوج اور دابۃ الارض جن کے خروج کے ساتھ ہی ان کے مقابلے کے لئے مسیح موعود کی آمد بھی وابستہ تھی۔ آپؑ نے دانیال نبی کی کتاب اور یسعیاہ نبی کی کتاب میں مسیح موعود کے ظہور کے بارہ میں پیشگوئیوں کو بھی نقل فرمایا ہے۔
٭ کتاب کا آخر ی حصہ ’ضمیمہ تحفہ گولڑویہ‘ پر مشتمل ہے جس میں آپ نے دوبارہ حضرت عیسیٰ ؑکی طبعی وفات کے دلائل دیئے ہیں اور یہ بھی سچی شہادتوں سے ثابت کیا ہے کہ آپ ہر گز صلیب پر فوت نہیں ہوئے تھے۔ اور یہ بھی ذکر کیا ہے کہ یہود کو حضرت مسیح کی آمد کا سخت انتظار تھا مگرجب وہ ان کی ظاہری علامات پر پورا نہ اترا تو اسے قبول کرنے سے محروم اور بے نصیب رہے۔
کتاب کو ختم کرنے سے قبل آپؑ نے اللہ تعالیٰ کی قدیم سنت کو بیان کیا ہے کہ جب مخالف اُس کے نبیوں اور ماموروں کو قتل کرنا چاہتے ہیں تو اُن کو ان کے ہاتھ سے اس طرح بھی بچا لیتا ہے کہ وہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم نے اس شخص کو ہلاک کر دیا حالانکہ موت تک اُس کی نوبت نہیں پہنچتی۔
پھر حضورؑ نے حضرت مسیحؑ کے علاوہ حضرت ابراہیمؑ اور حضرت یوسف ؑ، حضرت اسماعیلؑ اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر فرمایا ہے کہ ان میں سے کوئی بھی آسمان پر نہیں گیا بلکہ مصیبت میں فرشتے اُن کی مدد کو آئے۔
اس کے بعد جب بار بار کی دعوت کے باوجود بھی پیر مہر علی شاہ صاحب تفسیر کے مقابلہ پر آمادہ نہ ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی تائید و نصرت یوں فرمائی کہ آپ نے ایک مدّت مقرّر کرکے سورۃالفاتحہ کی تفسیر لکھنے کا چیلنج شائع کروایا اور یہ بھی فرمایا کہ پیر صاحب اس تفسیر کو لکھنے کے لئے عرب و عجم کے علماء سے مدد لے لیں بلکہ یہ چیلنج تمام علماء کے نام عام کردیا۔ اور پھر اس مدّت کے اندر ہی 23فروری 1901ء کو حضورؑ نے یہ تفسیر ’’اعجازالمسیح‘‘ کے نام سے شائع فرما کر پیر صاحب سمیت بہت سے علماء کو بھجوا دی۔ لیکن عرب و عجم کے علماء میں سے کسی ایک کو بھی اس عرصہ میں بالمقابل تفسیر سورۃ الفاتحہ لکھنے کی توفیق نہ ملی جبکہ ان میں پیر مہر علی شاہ صاحب جیسے عالم بھی موجود تھے جن کا یہ دعویٰ بھی تھا کہ ان کا قلم تو مرزا صاحب کے مقابلہ میں خود بخود ہی تفسیر لکھے گا۔
اس واقعہ کے بعدحضرت بانی سلسلہ احمدیہ سات سال زندہ رہے، بلکہ پیر صاحب تو تقریباً 37سال تک زندہ رہے مگر عربی تفسیر پیش نہ کرسکے۔حالانکہ زندگی میں یہاں تک دعویٰ بھی کرتے رہے کہ ’’میرے خیال تفسیر نویسی پر، میرے قلب پر معانی و مضامین کی اس قدر بارش ہو گئی ہے جسے ضبطِ تحریر میں لانے کے لئے ایک عمر درکار ہو گی اور کوئی دوسرا کام نہ ہوسکے گا۔‘‘
حضرت بانی سلسلہ احمدیہ کی عربی تفسیر سورۃ الفاتحہ کو ’’اعجاز المسیح‘‘ کے نام سے چھپے ہوئے ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے لیکن اس کے بالمقابل آج تک بھی کوئی عربی تفسیر نہ چھپ سکی۔ یاد رہے کہ صرف عربی تفسیر کا ذکر نہیں کیا جا رہا ۔بلکہ آپؑ کے بالمقابل عربی تفسیر لکھنے کا ذکر کیا جا رہا ہے۔
’اعجاز المسیح‘ کے معنی ہیں مسیح کا معجزہ۔ سورۃ الفاتحہ کی یہ تفسیر فصیح و بلیغ عربی زبان میں ہے جو 20فروری 1901ء کو مکمل ہوئی اور 23 فروری 1901ء کو چھپ کر آگئی۔ اس کتاب کے بارہ میں مؤلف کتاب اس تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں
’’جب میں نے اس کتاب کے لئے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ اسے علماء کے لئے معجزہ بنائے اور کوئی ادیب اس کی نظیر لانے پرقادر نہ ہو اور ان کو لکھنے کی توفیق نہ ملے۔ تو میری یہ دعا اس رات قبول ہو گئی او ر اللہ تعالیٰ نے مجھے بشارت دی اور فرمایا مَنَعَہٗ مَانِعٌ مِّنَ السَّمَآءِ کہ آسمان سے ہم اسے روک دیں گے۔ اور میں سمجھ گیا کہ اس میں اشارہ ہے کہ دشمن اس کی مثل اور ہم صفت لانے پر قادر نہیں ہوں گے۔ اور خدائے منان کی طرف سے یہ بشارت رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں ملی۔‘‘
حضرت اقدس علیہ السلام کو اس تفسیر سورۃ الفاتحہ کے لاجواب اور بے نظیر ہونے پر اس قدر یقین تھا کہ آپ نے اس کتاب کے سرورق پر ہی یہ پیشگوئی تحریر فرما دی
فَاِنَّہٗ کِتَابٌ لَیْسَ لَہٗ جَوَابٌ وَ مَنْ قَامَ لِلْجَوَابِ وَتَنَمَّرَ فَسَوْفَ یَرٰی اَنَّہٗ تَنَدَّمَ وَ تَذَمَّر ۔
کہ جو شخص بھی غصہ میں آکر اس کتاب کا جواب لکھنے کے لئے کھڑا ہو گا تو وہ نادم ہوگا اور حسرت کے ساتھ اس کا خاتمہ ہوگا۔
اس دعوتِ مقابلہ کو قبول کرتے ہوئے مولوی محمد حسن فیضی ساکن بھیں ضلع جہلم مدرس مدرسہ نعیمیہ شاہی مسجد لاہور نے شائع کیا کہ وہ ’’اعجازالمسیح‘‘ کا جواب لکھے گا۔ چنانچہ اس نے ’’اعجاز المسیح‘‘ اور حضرت سید محمد احسن امروہی صاحب کی کتاب ’’شمسِ بازغہ‘‘ پر نوٹ اور اعتراضات لکھنے شروع کئے جہاں وہ لکھتے لکھتے ایک جگہ یہ لکھ گیا: لَعْنَۃُ اللہ عَلیٰ الْکَاذِبِیْن۔ اور اس کے بعد صرف ایک ہفتہ کے اندر اندر ہی خدا تعالیٰ کی تقدیر ِ خاص کے تحت وہ ناکام و نامراد ہی اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔