پیشگوئیوں کا ایک عجیب دستور
مجلس انصاراللہ ناروے کے رسالہ ’’انصاراللہ‘‘ برائے 2011ء میں مکرم مبارک احمد شاہ صاحب کے قلم سے ایک مختصر مضمون شامل ہے جس میں پیشگوئیوں میں مخفی اشارات کے حوالہ سے چند اسرار بیان کئے گئے ہیں ۔
خداتعالیٰ کی وحی اکثر ایسے الفاظ میں ہوتی ہے جس کے دو رُخ ہوتے ہیں ۔ ظاہری طور پر غور کرنے والے ایک ابتلا میں پڑ جاتے ہیں اور عقل سلیم والے سچّی باتوں کو مان لیتے ہیں ۔ اکثر پیشگوئیاں ایسے پوری ہوتی ہیں جیسے خواب میں دی جانے والی خبریں پوری ہوتی ہیں ۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ میرے بعد میری بیبیوں میں جس کے لمبے ہاتھ ہیں پہلے وہ انتقال کریں گی۔ یہ پیشگوئی سُن کر بیبیاں آپس میں ہاتھ ناپنے لگیں ۔ آپؐ نے کسی کو ہاتھ ناپنے سے روکا بھی نہیں ۔ لیکن آپؐ کی رحلت کے بعد حضرت بی بی زینبؓ نے رحلت فرمائی تو لوگوں کو بہت تعجّب ہوا کیونکہ حضرت بی بی سودہؓ کا ہاتھ سب سے لمبا تھا۔ آخر کسی نے بتایا کہ سب بیبیوں میں سے حضرت بی بی زینبؓ زیادہ سخی تھیں ۔ سب نے اس تاویل کو مان لیا اور سمجھ گئے کہ آپؐ کی پیشگوئی پوری ہوگئی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ حرم کعبہ میں ایک مینڈھا ذبح کیا جائے گا۔ جب حضرت عبداللہ بن زبیرؓ شہید ہوئے تو سب نے سمجھا کہ مینڈھے سے مراد حضرت عبداللہؓ ہی تھے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا گیا کہ آپ کے دونوں ہاتھوں میں دو سونے کے کنگن ہیں اور آپ نے اُن کو پھونک سے اُڑا دیا۔ آخر مسیلمہ کذّاب اور اسود عنسی کی شکل میں دو جھوٹے نبوّت کے دعویدار پیدا ہوئے اور دونوں مفتری تباہ و برباد ہوگئے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ ایک بہشتی انگور کا خوشہ آپؐ کو ابوجہل کے لئے دیا گیا ہے۔ آپؐ اس کی تعبیر یہ سمجھے کہ شاید ابوجہل مشرف بہ اسلام ہوگا لیکن دراصل ابوجہل کے بیٹے عکرمہ کو اللہ تعالیٰ نے اسلام سے مشرف کیا اور وہ جلیل القدر صحابی ثابت ہوئے۔
حضرت ابوموسیٰ ؓسے روایت ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا گیا کہ آپ ایک ایسی زمین کی طرف ہجرت کر رہے ہیں جہاں کھجورکے درخت بہت ہیں ۔ آپؐ نے خیال کیا کہ شاید وہ یمامہ یا حجر ہوگا لیکن آخر وہ مدینہ نکلا۔
اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ گائیں ذبح ہورہی ہیں لیکن اس سے مراد جنگ اُحد میں صحابہ کی شہادت تھی۔
پس ضروری ہے کہ مسیح کی آمد ثانی اور دجّال کے ظہور کے متعلق پیشگوئیوں کو اُن کے ظاہری الفاظ کی بجائے اُن میں بیان شدہ اشارات کے ذریعہ سمجھا جائے۔ اس حوالہ سے یہ روایت بھی دلچسپ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک شخص ابن صیّاد تھا جس کو جنون سے کچھ تعلق پیدا ہوگیا تھا ور وہ غیب کی خبریں بتلاتا تھا اور بعض باتیں دل کی بھی سمجھ جاتا تھا۔ اُس کے عجب کام دیکھ کر صحابہؓ سمجھنے لگے کہ ضرور یہی دجّال معہود ہے۔ ایک بار تو حضرت عمرؓ نے بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور میں قسم کھاکر کہا کہ ضرور ابن صیّاد ہی دجّال معہود ہے۔ آپؐ نے بیان سن کر سکوت کیا۔ پھر ایک دفعہ حضرت عمرؓ نے ابن صیّاد کو قتل کرنے کی اجازت چاہی تو آپؐ نے فرمایا کہ اگر ابن صیّاد ہی دجّال ہے تو اس کے مارنے والے عیسیٰ ہیں اور اگر وہ دجّال نہیں ہے تو ناحق ایک بے گناہ کے قتل کا بوجھ سر پر کیوں لیا جائے۔ ایک بار ابن صیّاد نے مدینہ سے مکّہ جاتے ہوئے سفر کے دوران حضرت ابوسعید خدریؓ سے کہا کہ اُسے صحابہؓ کی باتوں سے بہت دکھ ہوتا ہے جب وہ اُسے دجّال سمجھتے ہیں ۔ جبکہ اصل حال اس کے خلاف ہے کیونکہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے دجّال لاولد ہوگا اور مَیں صاحبِ اولاد ہوں اور آپؐ فرمایا کرتے تھے کہ دجّال مدینہ اور مکّہ میں داخل نہیں ہوگا اور مَیں مدینہ سے آتا ہوں اور مکّہ کو جاتا ہوں ۔
بعدازاں ابن صیّاد نے مدینہ میں انتقال کیا اور مسلمانوں نے اُس کی نماز جنازہ پڑھی۔
اب یہ دیکھئے کہ حضرت عمرؓ کس مرتبہ کے صحابی ہیں ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمر ہوتے۔ اور ایک بار فرمایا کہ خدا کے فرشتے حضرت عمرؓ کی زبان پر کلام کرتے ہیں ۔ لیکن اس رتبہ کے باوجود آپؓ ایک مسلمان، صاحبِ اولاد ساکنِ مدینہ کو دجّال معہود سمجھتے رہے اور اُس کے قتل کی اجازت مانگتے رہے۔ دراصل ابن صیّاد میں ایسی باتیں دیکھنے کے بعد جن سے فساد کا اندیشہ تھا صحابہؓ چاہتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشگوئی کو ظاہری صورت میں بھی پورا ہوتا دیکھیں ۔ لیکن حقیقت وہی ہے جو کہ حضرت مسیح موعودؑ نے بیان فرمائی ہے اور مسیح و مہدی نیز دجّال سے متعلق پیشگوئیوں کی جو تشریح آپ نے بیان فرمائی ہے اُس کو عقل ہر سطح پر قبول کرتی ہے اور آسمان سے اس کی تائید ہوتی ہے۔