چراغ کوئی جل رہا ہو آندھیوں کے درمیاں – غزل
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم ستمبر 2005ء میں شائع ہونے والی مکرم مبارک احمد ظفرؔ صاحب کی ایک غزل سے انتخاب ملاحظہ فرمائیں:
چراغ کوئی جل رہا ہو آندھیوں کے درمیاں
گزر رہی ہے زندگی یوں حادثوں کے درمیاں
وہ قافلے جو راہبرِ سفر کے ساتھ نہ چلے
وہ آج تک بھٹک رہے ہیں راستوں کے درمیاں
ڈرائیں گے بھلا انہیں یہ کیا بگولے خاک کے
پلے ہوئے جو لوگ ہیں تلاطموں کے درمیاں
رقم کیا ہے جو فسانہ ہم نے لوحِ عشق پر
وہ ڈھونڈتے ہیں کم نظر عبارتوں کے درمیاں