چین کے ساتھ اسلام کے ابتدائی روابط

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 17جون 2022ء)

چین کے ساتھ اسلام کے ابتدائی روابط

روزنامہ’’الفضل‘‘ربوہ 7؍ستمبر2013ء میں مکرم ڈاکٹر حافظ محمد اسحٰق صاحب کے ایک انگریزی مقالے کا اردو ترجمہ شامل اشاعت ہے جس میں چین کے ساتھ اسلام کے ابتدائی روابط سے متعلق تحقیق پیش کی گئی ہے۔ یہ مقالہ ’’ریویو آف ریلیجنز‘‘ اپریل 1992ء کی زینت بن چکا ہے۔
چین میں اوّلین مسلمانوں کی آمد کا ذکر یوں ملتا ہے: T’ang خاندان کے ابتدائی ایام میں Annam کی سلطنت اور کمبوڈیا اور مدینہ اور کئی دوسرے ممالک سے اجنبی لوگوں کی ایک بڑی تعداد Canton میں وارد ہوئی۔ یہ اجنبی لوگ عرش (یعنی خدا) کی عبادت کیا کرتے تھے اور ان کے عبادت خانوں میں بتوں، مجسموں یا عکسی تصاویر کی ممانعت تھی۔ مدینہ کی سلطنت ہندوستان کے قرب و جوار میں ہے۔ اسی سلطنت سے ان اجنبیوں کے مذہب کا آغاز ہوا تھا۔ جو بدھ مت سے جداگانہ ہے۔ وہ سؤر کا گوشت نہیں کھاتے۔ شراب نوشی نہیں کرتے۔ غیرذبیحہ جانور کے گوشت کو ناپاک متصوّر کرتے ہیں۔ (Annals of Kawangtung)
مذکورہ رپورٹ میں یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ (مسلمان) بڑے متموّل لوگ تھے اور اپنے درمیان انتخاب شدہ سربراہ کی تابعداری کرتے تھے۔
دراصل فارس کے ایک بادشاہ فیروز نے عربوں کے خلاف جنگ کے لیے چین سے اعانت کی درخواست کی تھی لیکن شہنشاہ چین کا جواب یہ تھا کہ فارس بہت دُوردراز ہے اس لیے مطلوبہ افواج نہیں بھجوائی جاسکتیں۔
روایت ہے کہ حضرت عثمانؓ نے 651ء میں چین کے ایک سفارت کار کے واپس چین جانے کے وقت اُس کی معیت میں ایک عرب جرنیل کو بھی روانہ فرمایا تھا۔
ولید کے عہد (703ء تا715ء) کے دوران مسلمان جرنیل ہندوستان اور سپین کو بھی روانہ ہورہے تھے۔ خراسان کے مسلمان گورنر نے Oxus کو عبور کرکے بخارا، سمرقند اور نواحی علاقوں کو زیرنگیں کرلیا۔ بعدازاں اُس نے چین کی سرحدوں تک اپنی فتوحات کو پہنچا دیا۔ اس کے بعد چین اور اموی خلفاء کے درمیان بین الحکومتی تعلقات کا آغاز ہوا۔
عربوں اور چین کے مابین تعلقات زیادہ تر تجارتی اور سیاسی نوعیت کے تھے جو تیرھویں صدی میں منگول فتوحات تک جاری رہے۔ منگولوں نے بغداد کی عباسی خلافت پر بڑی بےرحمی سے حملے کیے لیکن بعد میں منگول مسلمان بھی ہوئے۔ چین نے ان منگولی حکمرانوں کو اعلیٰ عہدوں پر فائز کر رکھا تھا۔ ان کو چین میں اشاعت اسلام میں نمایاں کامیابی بھی نصیب ہوئی۔ اس سے قبل چین کے شہری وسط ایشیا میں اور عرب اور ایشیا کے مسلمان چین میں آباد ہورہے تھے۔ ابن بطوطہ نے چودھویں صدی عیسوی میں چین کے کئی ساحلی شہروں کا بھی دورہ کیا ۔ وہ کہتا ہے کہ مسلمانوں نے وہاں اُس کا دلی خیرمقدم کیا۔ مسلمانوں نے اپنی مساجد بنارکھی ہیں اور اہل چین اُن کو احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
Sir Thomas Walker Arnold اپنی کتاب Preaching of Islam (مطبوعہ 1896ء) میں لکھتا ہے کہ 1412ء میں وسط ایشیا کے بادشاہ شاہ رُخ بہادر کے سمرقند میں دربار میں اہل چین کے سفارت خانے کا قیام عمل میں آیا۔ تو بادشاہ نے اپنے جواب میں اہل چین کے نام قبولِ اسلام کی دعوت کو بھی شامل کیا اور چینی سفراء کی واپسی پر اُن کے ہمراہ اپنے ایلچی کے ہاتھ دو خطوط روانہ کیے۔ ایک خط عربی میں تھا جس میں توحید اور رسول کریم ﷺ کے حوالے سے مذہب اسلام کی تعلیم بیان کی گئی تھی اور شریعت کے اہم اصول جن میں انصاف، خدمت خلق اور دیگر امور پر روشنی ڈالتے ہوئے اسلام کی خوبیوں کو بیان کیا گیا تھا۔
دوسرا خط فارسی میں تھا جس میں اسلام کے بنیادی عقائد بیان کرنے کے بعد بتایا کہ خداتعالیٰ کی عنایت سے رسول اللہ محمدﷺ حامل امور نبوت ہوئے تو تمام دوسری شریعتیں منسوخ کردی گئیں۔ وہ رسول اللہ اور نبی آخرالزماں تھے۔ تمام دنیا کے لیے مناسب ہے کہ اب اُن کی شریعت کی پیروی کریں۔ پھر بتایا گیا کہ کچھ عرصہ گزرا چنگیزخان نے مسلح افواج تیار کرکے مختلف اطراف میں روانہ کیا جس کے نتیجے میں بعض حکمران مسلمان ہوگئے جن میں ازبیک خان، چانی خان اور عرس خان شامل تھے۔ جن دنوں ہلاکو خان خراسان، فرات اور ان کے نواح میں لمن الملک کی کوس بجارہا تھا تو اُس کے بعض جانشین بننے والے بیٹوں نے نُورِ اسلام قبول کرلیا۔…
مذکورہ خطوط کے حوالے سے سر ٹامس واکر آرنلڈ لکھتا ہے کہ چین کے ایک بادشاہ نے اپنا مذہب چھوڑ کر اسلام اختیار کرلیا تھا۔ اس بات کا حوالہ ہمیں مسلمان تاجروں کے علاوہ سیّد علی اکبر سے بھی ملتا ہے جس نے پیکنگ میں پندرھویں صدی کے آخری اور سولہویں صدی کے ابتدائی کئی سال گزارے تھے۔ شہر ‘کان جان خو’ میں تیس ہزار سے زیادہ مسلمان آباد تھے۔ وہ ٹیکسوں سے مستثنیٰ تھے۔ وہ بادشاہ کی عنایات سے مسرور تھے جس نے انہیں عطیۃً زمینیں دے رکھی تھیں۔ وہ اپنے مذہب کی اتّباع میں مکمل رواداری سے شاداں و فرحاں تھے۔ اہل چین اُن کے مذہب کو بہ نظر استحسان دیکھتے تھے۔ مذہب تبدیل کرنے کی کھلی اجازت تھی۔ دارالحکومت میں ہی چار جامع مساجد تھیں اور سلطنت کے صوبوں میں مزید نوّے مساجد موجود تھیں۔ ان تمام مساجد کی تعمیر کے اخراجات کا متحمّل بادشاہ ہوا تھا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں