ڈالفن
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ ڈالفن دراصل مینڈک کے خواص اور چیتے کی جسامت کا جانور تھا جو رہتا تو خشکی پر تھا لیکن خوراک پانی سے لیتا تھا۔ حالات نے اسے مستقلاً پانی میں دھکیل دیا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس کی ٹانگیں ختم ہوگئیں اور ان کی جگہ دو پروں نے لے لی۔ اسی طرح ناک اوپر چلی گئی چنانچہ ڈالفن تقریباً ہر دس منٹ بعد سانس لینے کے لئے مونہہ باہر نکالتی ہے۔
ڈالفن کی آنکھ ریڈار کا کام دیتی ہے۔ اس کے دماغ سے لہریں آنکھ پر اکٹھی ہوتی ہیں اور آنکھ کے عدسے کی مدد سے ڈالفن ان کو پھینکتی ہے۔ ڈالفن آپس کے پیغامات کا تبادلہ بھی انہی لہروں کی مدد سے کرتی ہے۔
ڈالفن بچے دیتی ہے اور بچوں کو دودھ پلاتی ہے۔
ڈالفن کے پر کا جب ایکسرے کیا گیا تو اسے انسانی ہاتھ سے مشابہہ پایا گیا۔ اس کی دم اتنی طاقتور ہوتی ہے کہ اس کی مدد سے یہ پانی کے اوپر سیدھی کھڑی ہوکر پیچھے کی جانب دس میٹر تک دوڑ سکتی ہے۔
ڈالفن کی کئی اقسام ہیں جن میں ’’سفید ڈالفن‘‘ نایاب ہے جو صرف چین میں پائی جاتی ہے اور اس کے شکار پر بین الاقوامی پابندی ہے۔…
یہ معلوماتی مضمون مکرم شیخ محبوب عالم خالد صاحب کے قلم سے ماہنامہ ’’تشحیذ الاذہان‘‘ اگست 1995ء میں شائع ہوا ہے۔