ڈاکٹر سلام کی یاد میں
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍فروری 2007ء میں جناب خالد حسن صاحب کا محترم ڈاکٹر عبدالسلام صاحب کی یاد میں لکھا ہوا ایک مضمون شامل اشاعت ہے جو اخبار ’’ڈیلی ٹائمز‘‘ 26نومبر2006ء سے منقول ہے۔
ڈاکٹر عبدالسلام کو فوت ہوئے دس سال ہو چکے۔ یہ ایک لمبا عرصہ ہے ۔ لیکن ان کی موت کا سوگ ہر جگہ منایا جاتا ہے ۔ اور ان کو یاد کیا جاتا ہے۔ سوائے اس ملک کے جس کو وہ سال ہا سال کی دوری کے باوجود اپنا گھر قرار دیتے تھے۔اور جس کی مٹی میں وہ اپنی دلی آرزو کے مطابق مدفون ہیں۔
ڈاکٹر سلام کی سب سے بڑی خوبی ان کی منکسر المزاجی اور حِس مزاح تھی۔ 80 کے عشرہ میں وہ اکثر و بیشتر ویانا آتے، مختلف UN اداروں کے ساتھ صلاح مشورہ کے سلسلے میں اور اپنے چھوٹے بھائی ماجد سے ملنے کے لئے جو اقوام متحدہ کے صنعتی ترقیاتی ادارہ میں ٹیکنیکل سپیشلسٹ تھے۔ ویانا میں دریائے ڈینیوب کے دائیں کنارے پر واقع UNO کی عمارت ہے۔ ایک سہ پہر میں اپنے ایک دوست کے ہمراہ وہاں سے گزرا تو کچھ فاصلہ پر ڈاکٹر سلام کو جاتے ہوئے دیکھا۔ ’’ڈاکٹرصاحب !‘‘میں نے پکارا ۔ وہ رُک گئے اور ہم دیر تک گنبد کے نیچے کھڑے باتیں کرتے رہے ۔ زیادہ تر باتیں پاکستان کے بارے میں ہوئیں۔ میں نے اپنے دوست کو اُن سے متعارف کرایا۔ انہوں نے اس کے ساتھ بہت گرمجوشی سے ہاتھ ملایا ۔ جب وہ چلے گئے تو میرے ساتھی نے پوچھا کہ وہ کون تھے۔ میرے بتانے پر وہ کہہ اٹھا: ’’مائی گاڈ!یہ پروفیسر سلام ہیں! لیکن یہ تو بہت ساد ہ ہیں ۔ میں نے ان سے زیادہ سادہ انسان کبھی نہیں دیکھا ‘‘ ۔ میں نے اُسے کہا ’’میرے دوست! تم بیسویں صدی کے ایک عظیم ترین ماہر طبیعات سے ملے ہو‘‘۔
ڈاکٹر سلام یقینا ایک مکمل طور پر مٹے ہوئے انسان تھے۔ ’’مَیں‘‘ کا لفظ اُن کی کتاب میں ہی نہ تھا۔ میری ان کے ساتھ پاکستان میں کبھی ملاقات نہیں ہوئی ۔ البتہ میں نے انہیں 1972ء میں ملتان میں نواب صادق حسین قریشی کی رہائشگاہ پر ایک میٹنگ میں دیکھا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے سائنسدانوں کے سامنے ایک جذبات سے بھرپور تقریر میں اعلان کیا کہ پاکستان کو جوہری راہ اپنانی پڑے گی۔ بھٹو نے اُن سے پوچھا کہ کیا وہ یہ کام کر سکیں گے؟ سب کا ردّعمل نہایت جذباتی تھا ۔ بلکہ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ تین سے پانچ سال میں کامیابی بھی حاصل کرکے دکھائیں گے ۔ ڈاکٹر سلام نے انہیں تحمل سے کا م لینے کا مشورہ دیا۔
1975ء میں جب میں اوٹاوہ میں پاکستانی سفارتخانہ میں ملازم تھا، مجھے پتہ چلا کہ ڈاکٹر سلام صاحب کینیڈا کے حکام کے ساتھ کچھ میٹنگز کے لیے وہاں تشریف لا رہے ہیں ۔ وہ اس وقت پاکستان کے چیف سائنسی مشیر نہیں رہے تھے۔ وہ شہر میں سرکاری کار استعمال کرنے سے گریزاں تھے۔ لیکن میرے بے حد اصرار پر وہ بمشکل راضی ہو گئے ۔ ٹریسٹے واپسی کے چند روز بعد انہوں نے مجھے شکریہ کا ایک نہایت مشفقانہ مراسلہ بھیجا جس کے آخر میں لکھا تھا۔ ’’براہ مہربانی میری طرف سے مرزا عبدالرحمن کا شکریہ ادا کر دیجئے گاکہ انہوں نے مجھے گھمایا پھرایا‘‘۔ مرزا عبدالرحمن سفارتخانہ کے ڈرائیوروں میں سے ایک تھا۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ کوئی اس طرح ڈرائیور کا شکریہ ادا کرے گا۔ ہم تو اس با ت کی طرف دھیان بھی نہیں دیتے کہ ہمارے خدمتگار کون ہیں۔ اس قسم کا مشفقانہ سلوک ڈاکٹر کا خاصہ تھا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں ہزاروں لوگوں کی بہت طریقوں سے مدد کی ۔ وہ ہر کسی کے ساتھ برابری اور عزت کا سلوک کرتے تھے۔
لندن میں ڈاکٹر سلام پٹنی میں رہتے تھے۔ جب انہوں نے نوبیل انعام جیتا تو میں بھی لندن میں رہتا تھا۔ میں الطاف گوہر کی تنظیم تھرڈ ورلڈ فاونڈیشن میں کام کرتا تھا۔ اس سے پہلے میں نے اس وقت فارن سروس سے استعفیٰ دیدیا تھا جب جولائی 1977ء میں ضیاء الحق نے بھٹو کی حکومت کا تختہ الٹ کر ملک کو جہالت کے اندھیرے گڑھے میں دھکیل دیاتھا۔ سلام اور اے جی (الطاف گوہر) قریباًایک ہی وقت میں گورنمنٹ کالج میں ہوتے تھے۔ فائونڈیشن نے ڈاکٹر سلام کے اعزاز میں ایک جشن منایا جس کے انتظامات میرے ذمہ تھے۔ چند دنوں بعد پارٹی میں کھینچی گئی تصاویر کی البم لے کر اُن کے گھر پٹنی گیا۔ انہوں نے انتہائی خوشی کا اظہار کیا حالانکہ حقیقی اور گہری خوشی تو مجھے ہو رہی تھی کیونکہ ان کی رفاقت میں ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے آپ پر روشنی کی کرنیں پڑ رہی ہیں ۔
وہ ایک ایسے انسان تھے جو ہر قسم کی تلخ مزاجی سے پاک تھے۔ مثال کے طور پر اگر پاکستان اُن کو یونیسکو کے ڈائریکٹر جنرل کے لئے امیدوار نامزد کردیتا تواُن کی جیت یقینی تھی۔ لیکن ضیاء الحق نے صاحبزادہ یعقوب خان کو نامزد کردیا اور عطیہ عنایت اللہ کوان کی انتخابی مہم کی انچارج بنایا۔ یوں یہ الیکشن شروع ہی سے ہارا جا چکا تھا۔ لیکن مس عنایت اللہ نے پیرس میں یہ اعلان کرکے لٹیا ہی ڈبودی کہ ’’ فرانس کو ایک جنرل نے بچایا تھا۔ اب یونیسکو کو بھی ایک جنرل ہی بچائے گا۔‘‘
ویانا میں ڈاکٹر سلام نے مجھے بتایا کہ نوبیل انعام جیتنے کے بعد وہ ہر مسلمان ملک کے دارالحکومت میں یہ التجا لے کر گئے تھے کہ مجموعی قومی آمدنی کا ایک فیصد سائنسی تعلیم کیلئے وقف کردیں لیکن کسی نے حامی نہیں بھری ۔ لیبیا میں ان کے جہازکو زمین پر اترتے ہی اُنہیں سیدھا ’ عظیم لیڈر‘ کے پاس لے جایا گیا جنہوں نے سلام سے جو واحد سوال پوچھا وہ یہ تھا کہ وہ اُن کیلئے ایٹم بم بنا سکتے ہیں ؟ سلام کا جواب تھاکہ وہ اس قسم کے سائنسدان نہیں ہیں۔ کرنل صاحب نے اس کے بعد سلام یا اُن کے خیالات میں کوئی دلچسپی نہیں لی۔
پروفیسر اشفاق علی خاں نے ایک دفعہ کہا تھا کہ ایوب خاں ایک بدقسمت انسان تھا ’’تاریخ اس کا ہاتھ پکڑ کر اس کو عظمت کے راستے پر لے جانا چاہتی ہے لیکن ہر مرتبہ وہ جھٹک کر اپنا ہاتھ چھڑالیتاہے‘‘۔