ڈاکٹر علامہ سر محمد اقبال کا حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ سے تعلق

سر سید نے ایک بار کسی کو اُس کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے لکھا: ’’آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ جاہل پڑھ کر جب ترقی کرتا ہے تو پڑھا لکھا کہلاتا ہے مگر جب اور ترقی کرتا ہے تو فلسفی بننے لگتا ہے۔ پھر ترقی کرے تو اسے صوفی بننا پڑتا ہے جب یہ ترقی کرے تو کیا بنتا ہے؟ … اس کا جواب اپنے مذاق کے موافق عرض کرتا ہوں۔ جب صوفی ترقی کرتا ہے تو مولانا نورالدین ہو جاتا ہے۔‘‘
اگست 1894ء میں آپؓ نواب بہاولپور کے علاج کے سلسلہ میں بہاولپور تشریف لے گئے۔ نواب صاحب اور حضرت خواجہ غلام فرید صاحب چاچڑاں شریف نے آپ سے کہا: ’’دراصل تو ہم آپ سے ملاقات کرنا اور قرآن پاک کے معارف سننا چاہتے تھے۔ علاج تو آپ کو بلانے کا ذریعہ بن گیا‘‘۔ نواب صاحب نے آپؓ کو ساٹھ ہزار ایکڑ زمین کی پیشکش کی کہ آپؓ وہیں رہ جائیں لیکن آپؓ یہ پیشکش ردّ کرکے اپنے آقا و مطاع کے قدموں میں حاضر ہوگئے۔
آپؓ کے دیرینہ مراسم علامہ اقبال کے استاد شمس العلماء سید میر حسن صاحب کے ساتھ بھی تھے چنانچہ علامہ اقبال بھی آپؓ کی بہت عزت کرتے اور اہم مسائل میں آپؓ سے رجوع کرتے۔ اس بارہ میں ایک مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 26؍اگست 1999ء میں مکرم مرزا خلیل احمد قمر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
علامہ اقبال جن دنوں گورنمنٹ کالج لاہور میں زیر تعلیم تھے تو اُن کے ایک استاد سر تھامس آرنلڈ نے تثلیث کے عقیدہ کے بارہ میں کہا کہ یہ مسئلہ کسی ایشیائی کے دماغ میں نہیں آسکتا۔ علامہ اقبال نے یہ سوال حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ کے سامنے رکھا۔ آپؓ نے فرمایا کہ مسٹر آرنلڈ کا یہ دعویٰ اگر درست ہے تو خود مسیح علیہ السلام اور تمام حواری بھی ایشیائی تھے… یہ جواب سن کر مسٹر تھامس خاموش ہوگیا اور بعد ازاں یورپ کی ایک کانفرنس میں اس اعتراض کو پیش کیا لیکن اس کا کوئی جواب نہ مل سکا۔
1909ء میں علامہ نے حضورؓ سے فقہ اسلامی کے بارہ میں چار سوالات دریافت کئے جن کے اصولی جوابات آپؓ نے ارشاد فرمائے۔ ایک سوال تھا کہ کیا کوئی غیرمسلم فرمانروا اپنی مسلمان رعایا کے لئے قانون وضع کرسکتا ہے؟ آپؓ نے فرمایا کہ قانون اسلامی کے اصل الاصول قرآن مجید میں موجود ہیں مگر ان کی تفصیل کو اطاعت اولی الامر کے نیچے رکھا ہے۔ ہر مسلمان کے لئے اللہ، رسول اور اولی الامر کی اطاعت ضروری ہے۔ اگر اولی الامر صریح مخالف فرمان الٰہی اور فرمان نبوی کرے تو مسلمان بقدر برداشت حکم مانے یا اس کا ملک چھوڑ دے۔
دوسرا سوال تھا کہ کیا کوئی غیرمسلم جج ازروئے قانون اسلامی ، مسلمانوں کے مقدمات فیصل کر سکتا ہے؟ فرمایا: غیرمسلم جج جب فرمانروا کی طرف سے ہے تو حقیقتاً فرمانروا ہی جج ہے اوراگر پنچائیتی طور پر ہے تو بھی جائز ہے جیسے حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک دفعہ خود فرعون مصر کو اپنے معاملہ میں منصف مقرر فرمایا۔
تیسرا سوال تھا کہ کیا مسلمان ہونے کے لئے شرع محمدی کی پابندی لازمی ہے۔ اگر ہے تو ان مسلمان قوموں کی نسبت کیا حکم ہے جو خود اپنے آپ کو رواج کا پابند ظاہر کرتی ہیں؟ فرمایا: شرع محمدی نام ہے قرآن، احکام نبوی، خلفائے راشدینؓ، صحابہ، ائمہ دین کے فیصلہ پر عملدرآمد کا۔ فتاویٰ عالمگیری بلکہ ہدایہ کے مقدمات و قوانین میں قرآن و حدیث کے ہزارویں حصہ کا ذکر بھی نہیں آتا۔ سیاست مدنی ساری عرف پر مبنی ہے۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ ان امور کی آزادی میں وقتی ضرورت عرف سے کام لیا گیا ہے۔
چوتھا سوال تھا کہ جو مسلمان ضابطہ اسلامی کے پابند نہیں اُن کے اسلام کی نسبت کیا حکم ہے؟ فرمایا: قرآنی نظریہ کے مطابق ایمان بتدریج ترقی کرتا رہتا ہے۔ پس جو لوگ لاالہ الاّ اللہ کہتے ہیں اور دل سے مانتے ہیں وہ ایک حد تک مسلمان ہیں اور جو پابند نماز بھی ہیں وہ پہلوں سے بڑھ کر مسلمان ہیں اور جو زکوٰۃ روزہ اور حج کو بھی ادا کرتے ہیں وہ اور زیادہ پختہ مسلمان ہیں علی ھذالقیاس۔ سب مساوی الایمان نہیں اور ہرگز نہیں۔
ایک بار ڈاکٹر اقبال نے عربی ادب کی اعلیٰ ترین کتب کے بارہ میں حضورؓ سے راہنمائی چاہی تو آپؓ نے 12؍دسمبر 1912ء کو عربی کے ادبی لٹریچر کی ایک فہرست بھجوائی اور لکھا کہ اس امر میں بڑے بڑے ادیب میرے ساتھ ہیں حتی کہ جرمنی کے عربی دان بھی کہتے ہیں کہ عربی کی بہترین کتاب قرآن مجید ہے۔
ایک بار علامہ اقبال نے حضورؓ کے ایک خط کے جواب میں لکھا کہ ’’ڈریپر مر گیا، اس کا فلسفہ بھی مر گیا۔ یورپ ہر روز نئے فلسفہ کا دلدادہ ہے‘‘۔ حضورؓ فرماتے ہیں کہ میرے دل میں آیا یہ کیا بات ہے؟ القاء ہوا انسان پر انسان فنا ہوتا ہے اور نیا بنتا ہے،کیا یہ انسان لغو ہے؟ ہرگز نہیں۔ یہ تبدیلی ہمارا اپنا فعل ہے اور ایک حکمت پر مبنی ہے۔
1913ء میں علامہ نے ایک کشمیری خاندان میں نکاح کیا لیکن کسی نے اُس خاتون کے بارہ میں گمنام خطوط بھیج کر علامہ کو شکوک میں مبتلا کردیا۔ تحقیق کے بعد خاتون پاک دامن معلوم ہوئی تو علامہ کو رجوع کرنے کے بارہ میں شکوک تھے کیونکہ انہوں نے دل میں طلاق کا ارادہ کرلیا تھا۔ چنانچہ علامہ نے مرزا جلال الدین کو حضورؓ کے پاس قادیان بھیجا اور مسئلہ کا حل دریافت کیا۔ حضورؓ نے فرمایا کہ شرعاً طلاق نہیں ہوئی لیکن اگر دل میں کوئی شبہ ہو تو دوبارہ نکاح کرلیجئے۔ چنانچہ علامہ کا اس خاتون سے نکاح دوبارہ پڑھا گیا۔
’’ملفوظات اقبال ‘‘ میں علامہ کا اپنا بیان ہے کہ میری والدہ ایک رات درد گردہ سے بیہوش ہوگئیں ۔ حکیم نورالدین صاحب قادیان نے صورتحال معلوم ہونے پر ایڑی کے قریب کسی رگ کو دبایا تو والدہ نے آنکھیں کھول دیں۔ حکیم صاحب نے کہا اس وقت تو سینک کرو، صبح علاج ہوگا۔ صبح حکیم صاحب نے والدہ کے لئے چوزہ تجویز کیا۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ والدہ کو پھر عمر بھر درد گردہ کی شکایت نہ ہوئی۔ جب وہ عرصہ دراز تک چوزہ کھاتے کھاتے تنگ آگئیں تو حکیم صاحب کو لکھا گیا کہ چوزہ کا بدل بتادیں۔ جواب آیا انڈا بدل ہے۔
ایک دفعہ مجھے گاؤٹ کی شکایت ہوگئی۔ علی بخش کو اُن کے پاس بھیجا … جواب آیا کہ کھانا کھاکر مرغی کے پر کو حلق میں ڈال کر قے کردو۔ مَیں کھانا کھا چکا تھا۔ علی بخش مرغی کا پر لایا۔ قے کردی۔ درد مستقل طور پر جاتا رہا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں