ڈاکٹر محمد اسحاق بقاپوری صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍جنوری 2008ء میں مکرم محمد یوسف بقاپوری صاحب اپنے چچا ڈاکٹر محمد اسحاق بقاپوری صاحب کا ذکرخیر کرتے ہیں۔
محترم ڈاکٹر محمد اسحاق بقاپوری صاحب قادیان میں حضرت مولانا مولوی محمد ابراہیم صاحب بقاپوریؓ کے ہاں 17؍اگست 1921ء کو پیدا ہوئے۔ گھریلو ماحول مذہبی تھا۔ والدین کی تربیت نے اس پر چار چاند لگادیئے۔ مدرسہ احمدیہ قادیان میں پانچ سال تعلیم حاصل کی۔ بچپن سے ہی نمازوں کی بروقت ادائیگی اور قرآن مجید کی تلاوت کی عادت تھی۔ میٹرک کے بعد ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کی کیونکہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کا مشورہ تھا کہ اس میں دینی کاموں اور خدمت خلق کے مواقع زیادہ ملتے ہیں۔ اس کے بعد فوج میں ملازمت اختیار کرلی۔ پارٹیشن کے موقع پر آخری کانوائے جو قادیان سے آیا، اُس میں چالیس سے زائد مستورات بچیاں اور مردوں کو بحفاظت لاہور پہنچایا۔
ماڈل ٹاؤن لاہور میں قیام کے دوران آپ سالہاسال سیکرٹری تعلیم القرآن اور امام الصلوٰۃ رہے۔ آپ نے سینکڑوں افراد کو قرآن کریم پڑھایا جن میں بڑی تعداد غیرازجماعت کی ہے۔ سالہا سال آپ رمضان کے آخری عشرہ میں مسجد نور میں اعتکاف بیٹھتے رہے۔ بہت سے ایمان افروز واقعات آپ کی زندگی میں آئے۔ ایک بار ایک حلوائی کے تیز گرم کڑاہے میں آپ کا ہاتھ چلا گیا۔ لوگ پریشان ہوگئے۔ لیکن آپ نے بتایا کہ آپ کو تو کڑاہا ٹھنڈا محسوس ہوتا رہا۔
ایک بار لاہور میں پریکٹس کے دوران ایک لڑکا دوا لینے آیا تو آپ نے اُسے کہا کہ شام کو آنا، اس وقت مہمان آگئے ہیں۔ شام کو وہ لڑکا نہ آیا۔ رات آپ نے خواب میں دو فرشتوں کو دیکھا جنہوں نے آپ کو ٹانگوں سے پکڑ کر اٹھایا اور سر کے بَل نیچے گرادیا۔ جب آپ کی آنکھ کھلی تو سر میں درد تھا اور وہاں سے سوجا ہوا تھا جو جگہ زمین پر لگی تھی۔ صبح اٹھتے ہی آپ نے بیمار لڑکے کے گھر جاکر اُسے دوا دی اور شکر کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اِسی دنیا میں سزا دے دی۔
قرآن کریم سے آپ کو عشق تھا۔ آپ نے قرآن مجید کے کئی نسخے اپنے ہاتھ سے لکھے۔ کئی پمفلٹ ہاتھ سے لکھ کر فوٹوسٹیٹ کرکے تقسیم کئے۔ ان کی تمام تر توجہ صحیح اعرابی صورت میں صحیح تلفظ سے تلاوت کرنے پر رہی۔ ان کی ایک کتاب ’’معلومات قرآن‘‘ بہت مقبول ہوئی۔ ایک کتاب ’’معراج حیات‘‘ ہے جس میں انسانی زندگی کے تقریباً تمام پہلوؤں پر قرآن مجید سے ہدایات اکٹھی کی ہیں اور پھر ان آیات سے منسلک احادیث اور حضرت مسیح موعودؑ کے اقوال پیش کئے ہیں۔ ایک کتاب زیرطبع ہے۔ اس کے علاوہ اخبار الفضل میں بھی آپ کے کئی مضامین چھپے ہیں۔
آپ کی شادی 1950ء میں محترمہ رقیہ بیگم صاحبہ سے ہوئی جو حضرت مولانا شیر علی صاحب مرحوم کی نواسی تھیں۔ ان کے بطن سے تین لڑکے اور ایک لڑکی پیدا ہوئی۔ لڑکی 18 سال کی عمر میں 1981ء میں فوت ہوگئی۔ آپ کی اہلیہ کی وفات 2003ء میں ہوئی۔ وہ بھی نہایت نیک اور قرآن کے علم کی شیدائی اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھیں۔
آپ جماعتی تحریکات میں ہمیشہ نمایاں حصہ لیتے تھے۔ تحریک جدید کے پانچ ہزار مجاہدین میں شامل تھے اور مرحوم والدین کی طرف سے بھی حصہ لیتے تھے۔
مرحوم نے بڑی فعال زندگی گزاری۔ میجر کے عہدہ سے ریٹائرمنٹ کے بعد پرائیویٹ پریکٹس کی۔ 1974ء کے فسادات کے دوران بورے والا میں ان کا کلینک لوٹ لیا گیا۔ لیکن کبھی حرف شکایت زبان پر نہ لائے۔
محترم ڈاکٹر صاحب کی وفات لاہور میں 10؍اکتوبر 2007ء کو ہوئی اور تدفین مقامی قبرستان ماڈل ٹاؤن میں ہوئی۔