ڈلوال ضلع چکوال میں احمدیت

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 3و 4مارچ 2005ء میں مکرم پروفیسر راجا نصر اللہ خان صاحب کے قلم سے ڈلوال (ضلع چکوال) میں احمدیت کے نفوذ سے متعلق دلچسپ حالات شامل اشاعت ہیں۔
ڈلوال آبادی اور رقبہ کے لحاظ سے اپنے اردگرد کے سب دیہات سے بڑا ہے اور علاقہ میں بڑی اہمیت رکھتا ہے۔ یہاں 1900ء میں بیلجیم مشن نے ایک ہائی سکول قائم کیا جس میں اس فوجی خطے کے کئی بریگیڈئر اور جرنیل میٹرک تک تعلیم پاکر فوج میں کمیشن حاصل کرتے رہے۔ ڈلوال کے قریبی گاؤں دوالمیال میں حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ سے ہی احمدیت پہنچ چکی تھی اور پاکستان کے پہلے احمدی جرنیل ملک نذیر احمد صاحب کا تعلق بھی یہیں سے تھا۔ ڈلوال کے پہلے احمدی خاکسار کے والد محترم راجہ فضل خان رئیس ڈلوال تھے۔ ڈلوال ہائی سکول میں اُن کے ساتھی احمدی طلباء جب یہ نظم خوش الحانی سے پڑھتے کہ ؎

کبھی نصرت نہیں ملتی درِ مولیٰ سے گندوں کو

تو نظم کے دلآویز الفاظ کا قلب و ذہن پر خاص اثر ہوتا تھا۔
ہمارے دادا راجہ پناہ خان صاحب بھی فوج میں ترقی پاکر کمانڈر انچیف کے سپیشل باڈی گارڈ دستہ میں شامل تھے۔ وہ اونچے قد کے نہایت ہی مضبوط، وجیہہ اور بارعب شخصیت کے مالک تھے لیکن انہوں نے اپنے واحد زندہ بیٹے (یعنی ہمارے والد محترم) کو فوج میں بھیجنا پسند نہ کیا بلکہ ڈلوال سکول سے میٹرک کے بعد زرعی کالج لائلپور میں داخل کرادیا۔ یہاں بھی والد محترم کی ملاقات کچھ احمدی طلباء سے ہوگئی جن میں سے ایک کمانڈر عبداللطیف تھے جو بعد ازاں زرعی کالج کے پرنسپل بھی رہے۔ والد محترم نے ملازمت تو زیادہ عرصہ نہیں کی لیکن زراعتی علم اور تجربہ کی بنا پر وہ اپنی پانچ مربع زرعی اراضی کا انتظام بہت عمدگی سے کرتے رہے اور مزارعین کو بھی مفید مشورے دیتے رہے۔
مکرم راجہ غالب احمد صاحب آف لاہور کے والد حضرت راجہ علی محمد صاحبؓ (بیعت1905ء) کا آبائی گاؤں کوٹ راجگان تھا۔جب والد صاحب نے کچھ عرصہ لاہور میں ملازمت کی تو حضرت راجہ علی محمد صاحبؓ، جو افسر مال کے عہدہ پر تعینات تھے، کی نیک صحبت کا آپ پر بہت اچھا اثر پڑا۔ آپ کی ملاقات خان بشیر احمد خانصاحب سے بھی ہوئی جو کپورتھلہ کے بزرگ حضرت محمد خانصاحبؓ کے منجھلے صاحبزادے تھے۔ والد صاحب کے قبول احمدیت کے بعد ان کی شادی خان بشیر احمد خانصاحب کی دوسری بیٹی محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ سے ہوگئی۔ اس طرح ڈلوال میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے پہلا احمدی گھرانہ قائم ہوگیا۔ والد محترم بیعت کے بعد بفضلہ تعالیٰ ہمیشہ ثابت قدم رہے۔ ان کے اعلیٰ اخلاق اور کردار کی وجہ سے پورا علاقہ ان کا احترام کرتا تھا۔ ہمارے دادا نے اگرچہ احمدیت قبول نہیں کی لیکن کبھی مخالفت بھی نہیں کی۔
صاحب جائیداد ہونے کی وجہ سے ہمارے والد صاحب رئیس ڈلوال کہلاتے تھے۔ قیام پاکستان کے بعد انہیں کوئلے کی کانوں کا کاروبار کرنے کے لئے کچھ پہاڑی سلسلہ گورنمنٹ کی طرف سے لیز پر مل گیا اور اس طرح ان کا سرکاری افسران سے تعلق اور علاقہ میں اثرورسوخ اور بڑھ گیا۔ قیام پاکستان پر کئی دفعہ حالات سے مجبور کچھ مہاجرین ڈلوال آجاتے تو لوگ امداد لینے کے لئے انہیں والد صاحب کا پتہ بتاتے۔ چنانچہ آپ کو خدمت خلق کی خوب توفیق ملی۔
والد محترم بہت خشوع وخضوع سے نمازیں ادا کرتے تھے۔ رمضان میں باقاعدہ روزے رکھتے اور ہر سال ایک مسکین پڑوسی کو دونوں وقت کا کھانا خود دیکر آتے۔ ڈلوال کے حاجتمندوں اور بیماروں کا بھی بہت خیال رکھتے تھے۔ خود بہت وضع دار شخصیت کے مالک تھے۔ لباس صاف ستھرا اور بے شکن ہوتا۔ رفاہ عامہ کی خاطر کھلے دل سے خرچ کرتے تھے۔ جماعتی چندوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ تحریک جدید کے اولین پانچ ہزاری مجاہدین میں شامل تھے۔ فضل عمر ہسپتال اور دفتر انصار اللہ مرکزیہ کی تعمیر کے لئے خصوصی چندہ دہندگان میں شامل تھے۔
فروری 1942ء میں ڈلوال میں احمدیوں اور مخالفین کے درمیان ایک مناظرہ ہوا۔ مخالف گروہ کے بڑے مناظر مولوی لال حسین اختر تھے جبکہ احمدی مناظر محترم محمد یار عارف صاحب تھے جن کے ساتھ محترم سید احمد علی شاہ صاحب اور حضرت مولوی محمد حسین صاحب (سبزپگڑی والے) بھی تھے۔ اس مناظرہ کی بنیاد یہ ہوئی کہ ایک بار میرے والد اپنی زمینوں کے دورہ پر (ضلع سرگودھا) گئے ہوئے تھے تو مولوی لال حسین اختر ڈلوال آکر مسجد خواجگان میں مقیم ہوئے اور لوگوں سے پوچھا کہ یہاں بھی کوئی قادیانی ہے؟ لوگوں نے والد صاحب کا نام لیا۔ جب والد صاحب زمینوں سے واپس آئے اور انہیں اس بات کا پتہ چلا تو وہ خود مسجد پہنچ گئے۔ ابتدائی گفتگو کے بعد مولوی لال حسین اختر سے مناظرہ کی بات چل پڑی اور والد صاحب نے قادیان میں ساری اطلاع تحریراً عرض کردی اور اس طرح مقررہ تاریخ تک تینوں فاضل مناظر تشریف لے آئے۔ اس مناظرہ کے نتیجہ میں علاقہ بھر کے لوگوں تک احمدیت کا پیغام پہنچا۔ ہماری دو منزلہ حویلی کے نچلے حصہ میں مہمان خانہ موجود تھا۔ مناظرہ سننے کیلئے آنے والے بہت سے احمدیوں کیلئے کھانے اور رہائش کا بندوبست بھی ہمارے والد صاحب نے وہیں کیا ہوا تھا۔
والد محترم بہت جرأت مند اور حق گو انسان تھے۔ تقسیم ہند کے وقت جب ہندو گھرانے ہجرت کرگئے تو فساد کے زمانہ میں کئی لوگوں نے ہندوؤں کی متروکہ املاک پر قبضہ کر لیا۔ ہمارے ایک قریبی رشتہ دار نے بھی اپنے پڑوس میں واقع ایک ہندو کی زمین اپنے گھر کے ساتھ ملا لی۔ کچھ عرصہ کے بعد جب حکام ناجائز قبضہ کی تحقیق کرنے آئے تو اُن صاحب کا بیان حکام نے اس شرط پر تسلیم کرنے پر رضامندی ظاہر کی اگر ہمارے والد صاحب اُس کے حق میں گواہی دیدیں۔ لیکن والد صاحب کے سچ بیان کرنے پر فیصلہ ان صاحب کے خلاف گیا اور وہ ایک لمبے عرصہ تک والد صاحب سے ناراض رہے۔
والد محترم کے بھانجے راجہ محمد نواز صاحب ہمارے والد صاحب کو بہت عزیز تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمارے والد صاحب کے اثر اور جماعت دوالمیال کے بزرگ حضرت مولوی کرم داد صاحبؓ کی نیک صحبت اور دعا کے نتیجہ میں انہوں نے احمدیت قبول کر لی۔ یہ واقعہ پاکستان بننے سے کئی سال پہلے کا ہے۔ گو ان کی اہلیہ محترمہ نے کافی عرصہ بعد احمدیت قبول کی لیکن بہر حال ڈلوال میں دوسرے احمدی گھرانے کا آغاز ہوگیا۔ قبولِ احمدیت پر راجہ محمد نواز صاحب کے والد راجہ مواز خان صاحب نے شدید مخالفت کی اور ان کو گھر سے بے دخل کر دیا اور ہمارے والد صاحب سے بھی سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے قطع تعلق کرلیا۔ اپنے والد کے سلوک کی وجہ سے راجہ محمد نواز صاحب قادیان چلے گئے اور اپنے آپ کو جماعت کی خدمت کے لئے پیش کر دیا۔وہاں کئی عمارتوں کی تعمیر کی نگرانی اور انتظام کے سلسلہ میں جماعتی خدمت کی توفیق پائی۔ ان عمارات میں دفاتر تحریک جدید کی تعمیر کا کام بھی شامل ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اور اپنے بیٹے کا حسن سلوک دیکھ کر آخر راجہ مواز صاحب نے مخالفت ترک کر دی بلکہ کبھی کبھار بیٹے کو ملنے ربوہ بھی آنے لگے۔ تقسیم ہند کے وقت انہوں نے خود آکر والد صاحب سے بھی رنجش دُور کی اور پھر دونوں نے مشترکہ کاروبار بھی شروع کیا۔
ڈلوال کے احمدی جمعہ اور عیدین دوالمیال میں ادا کیا کرتے تھے جہاں بزرگوار محترم قاضی عبدالرحمٰن صاحب ہر عید پر احمدیوں کی وسیع دعوت کا اہتمام کرتے۔ بسااوقات والد محترم کی دعوت پر وہ ڈلوال بھی تشریف لاتے اور کئی کئی دن تک باجماعت نمازوں اور دینی و تبلیغی مجالس کا لطف ہم اٹھایا کرتے۔
والد محترم اپنے والدین کے اکیلے بیٹے تھے لیکن احمدیت کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے انہیں نو بیٹے اور بیٹیاں عطا فرمائے۔ ساری اولاد اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ہر لحاظ سے کامیاب ہے۔ والد صاحب اگست 1959ء میں بوجہ بخار بیمار رہنے لگے تو انہیں راولپنڈی کے امریکن ہسپتال ہولی فیملی میں داخل کرایا گیا لیکن 29 ؍ستمبر کو اُن کی وفات ہوگئی۔ وہ وقتاً فوقتاً خاص اہتمام سے گھر پر پلاؤ یا روٹی گوشت تیار کرواکر مساکین اور ضعیفوں اور عمر رسیدہ لوگوں کو بھجوادیا کرتے تھے۔
محترم راجہ محمد نواز صاحب بھی ایک نیک فطرت اور سلجھے ہوئے انسان تھے۔ نہایت ہی دعاگو، پابند صلوٰۃ اور تہجد گزار تھے۔انتہائی نفاست پسند تھے۔ بفضلہ تعالیٰ بڑی ہمت اور جفا کشی سے باوقار زندگی گزاری۔آخری سالوں میں مستقل طور پر جہلم شہر میں مقیم ہوگئے تھے۔ غریب رشتہ داروں اور دیگر حاجتمندوں کے بہت کام آتے تھے۔ وفات سے کچھ عرصہ پہلے انہیں مختلف خوابوں کی بنا پر اندازہ ہوگیا تھا کہ ان کی وفات قریب ہے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے خدمت گزار بیٹے عزیزم راجہ مسعود احمد کو کچھ ضروری باتیں نوٹ کرائیں اور وصیت کرنے کی توفیق بھی پائی۔ چند دن بعد وفات ہوئی تو پہلے امانتاً جہلم میں اور پھر بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین ہوئی۔ آپ کی اہلیہ محترمہ بانو بی بی صاحبہ نے اپنے میاں کی نسبت بہت سال بعد جا کر باقاعدہ بیعت کی لیکن وہ ان کی خوبیوں اور اچھائیوں کے باعث شروع سے ہی احمدیت کی مداح تھیں اور خود بھی بہت ہمدرد اور نیک فطرت تھیں۔ ان کی تدفین احمدیہ قبرستان جہلم میں ہوئی۔
ڈاکٹر راجہ نذیر احمد ظفرؔ صاحب کا آبائی گاؤں ہجکہ (علاقہ بھیرہ) تھا۔ اپنے والد محترم راجہ غلام حیدر صاحب کی وفات کے بعد آپ نے اُن کی طرح ہومیوپیتھی کی پریکٹس شروع کر دی۔ بعد میں ربوہ آگئے اور ایک کامیاب ہومیو پیتھ کے طور پر مشہور ہوئے۔ نوجوانی سے ہی جوشیلے مقرر اور ہونہار شاعر تھے۔ جون 1959ء میں ہماری بڑی ہمشیرہ کی شادی آپ کے ساتھ ہوئی۔ آپ صوم وصلوٰۃ کے پوری طرح پابند اور بہت مالی قربانی کرنے والے انسان تھے، خلافت کے فدائی اور دعوت الی اللہ کے عاشق تھے۔ آپ کو اپنا علم اور استعداد بڑھانے کا مسلسل شوق رہتا تھا۔ چنانچہ ہومیوپیتھک پریکٹس کے ساتھ ساتھ اعلیٰ تعلیم کا سلسلہ بھی جاری رکھا اور شادی کے بعد L.L.B. اور M.A. کا امتحان پاس کیا۔ قرآن کریم اور دوسری دینی کتب ؑ کا مطالعہ بہت توجہ اور شوق سے کرتے تھے۔ انہوں نے قریباً 30سال تک مسجد انوار (دارالصدر شمالی) میں بعد نماز فجر قرآن کریم کا درس دینے کی سعادت حاصل کی۔ نہ صرف بڑھ چڑھ کر چندہ دیتے تھے بلکہ بے شمار ضرورت مندوں کو وظیفے جاری کر رکھے تھے۔ سب کے ساتھ کمال درجہ مروت، عزت اور بشاشت کے ساتھ پیش آتے۔ آپ نے وسیع تجربے، گہرے مطالعہ اور ہومیوپیتھک طریقہ علاج کے ساتھ انتہائی لگن کے نتیجہ میں Curative System ایجاد کیا اور کامیابی سے رائج کیا۔ مصروفیت کے باوجود جماعتی امور اور تبلیغ کو ہمیشہ اولیت دیتے تھے۔ مورخہ 6نومبر 1999ء کو آپ کی وفات ہوئی۔
خاکسار کی والدہ محترمہ سعیدہ بیگم صاحبہ حضرت محمد خان صاحبؓ کی پوتی تھیں جو حضرت مسیح موعودؑ کے لئے اپنے دل میں اس قدر محبت اور غیرت رکھتے تھے کہ جب الٰہی تقدیر کے موافق صاحبزادہ بشیر اول کی بچپن میں ہی وفات ہوگئی اور مخالفین نے بے انتہا شور وغوغا بلند کیا تو آپؓ نے بڑے دکھ بھرے دل سے کہا کہ اگر میری ساری اولاد بھی مرجاتی اور ایک بشیر جیتا رہتا تو کچھ رنج نہ تھا۔ ’’انجام آتھم‘‘ میں درج 313 صحابہ کی فہرست میں آپ کا نام آٹھویں نمبر پر ہے۔ آپؓ کی وفات یکم جنوری 1904ء کو ہوئی۔ اگلی صبح حضرت مسیح موعودؑ نے اپنے اس عاشق زار کے متعلق فرمایا ’’مجھے دو جنوری کو ایسی حالت طاری ہوگئی تھی جیسے کوئی نہایت عزیز مرجاتا ہے۔ ساتھ ہی الہام ہوا اولاد کے ساتھ نرم سلوک کیا جائے گا۔ آپؓ کے بیٹے خان بشیر احمد خان صاحب میرے نانا تھے۔
ہماری والدہ غرباء سے بہت حسن سلوک کرنے والی اور ہر ایک کا خیال رکھنے والی تھیں۔ بہت ہی باہمت خاتون تھیں۔ 82-80 سال کی عمر تک بفضلہ تعالیٰ ان کی صحت بہت اچھی رہی۔ خاکسار کے بیرون ملک سے مستقل واپسی پر (1985) اور ربوہ میں سکونت اختیار کرنے کے بعد آپ قریباً پندرہ سال تک میرے پاس رہائش پذیر رہیں۔ پھر دو تین سال دوسرے بیٹوں کے پاس گزارے۔ احمدیت کی شیدائی اور نماز و عبادات کی بہت پابند تھیں۔ 10؍دسمبر 2003ء کو 87برس کی عمر میں وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں تدفین عمل میں آئی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں