ڈولفن اور وھیل

جسامت کے لحاظ سے وھیل کی بہت سی اقسام ہیں۔ ’’سپرم وھیل‘‘ (Sperm Whale) کی لمبائی ساٹھ فٹ ہوتی ہے۔ یہ تیز دانتوں سے شکار کو پکڑتی اور پھر سالم ہی نگل جاتی ہے۔ ’’بلیو وھیل‘‘ (Blue Whale) دنیا کا سب سے بڑا جانور ہے۔ اس کی لمبائی ایک سو فٹ تک اور وزن دو سو میٹرک ٹن ہوتا ہے لیکن یہ خونخوار نہیں اور نہ ہی اس کے دانت ہوتے ہیں۔ ڈولفن سب سے چھوٹے سائز کی وھیل ہے جس کی لمبائی چار سے تیس فٹ تک ہوتی ہے۔ اس کے منہ میں بھی وھیل کی طرح دو سو دانتوں کی قطار ہوتی ہے جس سے شکار کو پکڑتی اور سالم نگل جاتی ہے۔ تاہم یہ بھی خونخوار نہیں بلکہ انسانوں سے خاص طور پر مانوس جانور ہے۔
ڈولفن یا وھیل، مچھلی نہیں ہوتی بلکہ ایک سمندری جانور ہے۔ اگرچہ ڈولفن بعض بڑے دریاؤں میں بھی پائی جاتی ہے۔ مچھلی اکثر انڈے دیتی ہے جبکہ ڈولفن اور وھیل صرف ایک بچہ دیتی ہیں جس کو اپنا دودھ پلاتی ہیں اور ایک سال تک اُس کی پرورش اور نگہداشت کرتی ہیں جبکہ مچھلی اپنے بچوں کی قطعاً نگہداشت نہیں کرتی۔ پھر مچھلی گلپھڑوں سے سانس لیتی ہے اور پانی کے اندر رہتی ہے جبکہ وھیل کے باقاعدہ پھیپھڑے ہوتے ہیں اور سر کے اوپر کی طرف ایک یا دو نتھنے ہوتے ہیں جن سے سانس لینے کے لئے اسے پانی کی سطح سے اوپر آنا پڑتا ہے۔ انہیں Blowholes کہا جاتا ہے۔ ڈولفن تو ہر منٹ میں ایک یا دو بار سطح سے اوپر آتی ہے لیکن وھیل پچھتر منٹ تک اپنا سانس روک سکتی ہے اور پھر بہرحال اوپر آتی ہے۔ پھر مچھلیاں سرد خون والی ہوتی ہیں یعنی پانی کے درجہ حرارت میں تبدیلی کے ساتھ ساتھ اُن کا درجہ حرارت بھی تبدیل ہوتا رہتا ہے جبکہ وھیل خشکی کے جانوروں کی طرح گرم خون والی ہوتی ہے یعنی ہر حالت میں ان کا درجہ حرارت یکساں رہتا ہے۔ پھر مچھلی کی دُم کے پر عمودی ہوتے ہیں جبکہ وھیل کے متوازی چنانچہ مچھلی تیرتے وقت اپنے پچھلے حصے کو دائیں بائیں حرکت دیتی ہے اور وھیل اوپر نیچے۔
وھیل کی جلد کے نیچے چربی کی موٹی تہہ ہوتی ہے جو وھیل کے سائز کے مطابق چھ سے بیس انچ تک موٹائی کی ہوتی ہے۔ چربی چونکہ پانی سے ہلکی ہے اسلئے یہ وھیل کو تیرنے میں مدد دیتی ہے اور خوراک کی کمی کی صورت میں کئی کئی ماہ کی خوراک کا کام دیتی ہے۔ وھیل کا گوشت بھی کھایا جاتا ہے اور چربی اور تیل سے کئی مصنوعات بھی بنتی ہیں۔ چونکہ اسے بڑی بے رحمی سے شکار کیا گیا ہے اور اسکی تعداد میں تشویشناک حد تک کمی ہوگئی ہے اسلئے بین الاقوامی طور پر اب اس کے شکار پر پابندیاں عائد ہیں۔
وھیل کی سونگھنے، دیکھنے اور چکھنے کی حسیں انتہائی کمزور ہیں جبکہ چھونے اور سننے کی حسیں انتہائی تیز ہیں۔ چنانچہ بہت کم اور انتہائی اونچی فریکوئنسی کی آوازیں باآسانی سُن لیتی ہے۔ اِس کے سر پر ایک ابھار ہوتا ہے جو آوازوں کو صدائے بازگشت میں تبدیل کرتا ہے۔ یہ اپنی آواز پیدا کرتی ہے اور جب آواز کسی چیز سے ٹکراکر واپس آتی ہے تو یہ اُس چیز کا فاصلہ اور رُخ آسانی سے معلوم کرلیتی ہے۔ اس نظام کی مدد سے وھیل کا رابطہ پچاس میل دُور اپنی ساتھی وھیل سے قائم رہ سکتا ہے۔
وھیل عموماً فیملی کی صورت میں رہتی ہیں جس میں سربراہ ایک نروھیل کے ساتھ کچھ مادہ اور بچے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات ان کے بڑے بڑے غول بھی نظر آتے ہیں جن میں سینکڑوں وھیل ایک خاص ترکیب میں اکٹھی سفر کرتی ہیں۔ آگے نر اور ایسی مادہ وھیل ہوتی ہیں جو حاملہ نہ ہوں۔ درمیان میں ماں وھیل اور اُن کے بچے۔ جبکہ آخر پر حاملہ وھیل ہوتی ہیں۔ اسی طرح بیمار، کمزور یا زخمی وھیل کی باقاعدہ نگہداشت کی جاتی ہے اور اسے پانی کے اوپر آکر سانس لینے کے لئے سہارا بھی مہیا کیا جاتا ہے۔ وھیل کا بچہ اپنی ماں کا دودھ پیتا ہے جو خشکی کے جانوروں کی نسبت بہت زیادہ گاڑھا اور غذائیت سے بھرپور ہوتا ہے۔ بچہ خود دودھ نہیں چوس سکتا بلکہ ماں دھار کی صورت میں اُس کے منہ میں پمپ کرتی ہے اور بچہ طفولیت کے ایام ماں کی کمر پر سوار ہوکر گزارتا ہے۔ بلیووھیل کا بچہ پیدائش کے وقت 23؍فٹ لمبا اور دو ٹن وزنی ہوتا ہے اور روزانہ دو سو پاؤنڈ وزن کے اضافہ کے ساتھ نشوونما پاتا ہے۔ عام طور پر حمل کے ایک سال بعد بچہ پیدا ہوتا ہے اور ماں بننے والی وھیل کی دوسری وھیل باقاعدہ مدد کرتی ہیں۔
وھیل بہت گہرے پانی میں بھی جاسکتی ہے اور اس وقت اس کے پھیپھڑے سکڑ جاتے ہیں اور دل کی رفتار انتہائی کم ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے یہ پانی کے انتہائی زیادہ دباؤ کو آسانی سے برداشت کرلیتی ہے۔ اس کی ایک عجیب بات یہ ہے کہ بعض اوقات کوئی ایک یا کئی وھیل خود بخود گہرے پانی سے نکل کر ساحل پر آجاتی ہیں اور اس طرح پھنس جاتی ہیں کہ واپس گہرے پانی میں نہیں جاسکتیں۔ بڑی وھیل تو اپنے وزن کے نیچے ہی دب جاتی ہے اور سانس نہیں لے سکتی۔ پانی کی کمی سے اس کا درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے اور یوں بے سدھ ہو جاتی ہیں۔ سمندر کی لہریں اس کے نتھنوں کو ڈھک دیتی ہیں اور اس طرح یہ گہرے پانیوں میں رہنے والی وھیل ساحل پر آکر جان دے دیتی ہے۔ ایسی وھیل یا ڈولفن کو بارہا واپس گہرے پانی میں دھکیلا گیا ہے لیکن وہ شاذ ونادر ہی بچ پاتی ہے وگرنہ پھر کچھ دیر بعد واپس ساحل پر آجاتی ہے اور بالآخر جان دیدیتی ہے۔
یہ معلوماتی مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍جولائی 1999ء میں مکرم طاہر احمد نسیم صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں