کتابوں کی دنیا اور اس کے ’’سیاح‘‘
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 14؍مارچ2008ء میں محترم مولانا دوست شاہد کے قلم سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں کتابوں کی پُرلطف دنیا کے حوالہ سے اِس کے شہرت یافتہ سیاحوں کا ذکر کیا گیا ہے۔
محمد رسول اللہ ﷺ تاریخ مذاہب میں پہلے نبی ہیں جنہوں نے اُمّی محض ہونے کے باوجود نہ صرف علوم ومعارف کے دریا بہا دئیے بلکہ اپنے ہر عاشق پر علوم کا سیکھنا فرض قرار دیدیا۔ آپؐ کی پیشگوئیوں کے مصداق آج پریس کی ایجاد اور لٹریچرکی وسیع پیمانے پر اشاعت نے اسلام کی حقانیت پر گواہی دیدی ہے۔
قرون اولیٰ کے بزرگان سلف کا کتابوں سے والہانہ شغف بے مثال تھا۔ شہرہ آفاق ادیب الجاحظ لکھتا ہے کہ تمام چیزوں کے مقابلہ میں کتاب کا حصول آسان اور کم خرچ ہے۔ اس میں تاریخ اور سائنس کے عجائبات دیکھے جاسکتے ہیں، یہ دانشوروں کے علم و تجربہ کا خزانہ ہے اور سابقہ نسلوں اور دُوردراز کے علاقوں کی معلومات بہم پہنچانے کا ذریعہ ہے۔ جب تک آپ کو خاموشی پسند ہوگی کتاب خاموش رہے گی اور جس وقت آپ گفتگو کرنا چاہیں گے وہ ایک شیریں کلام ہمنشیں بن جائے گی۔ آپ کی مصروفیت کے دوران یہ کبھی مداخلت نہیں کرتی لیکن تنہائی میں ایک اچھا رفیق ہے۔
الجاحظ کتابوں پر جان دیتے تھے لیکن یہی کتابیں ان کی موت کا سامان بن گئیں۔ اُن کا دستور یہ تھا کہ وہ اپنے گرد کتابوں کا انبار لگا کر پڑھنے کے لئے بیٹھتے۔ ایک دن کتابوں کا ایک ڈھیر اُن پر گر پڑا جس کے نیچے وہ دب گئے اور ضعیف اور معمر ہونے کے سبب جانبر نہ ہوسکے۔
حضرت حسن بصریؒ فرمایا کرتے تھے کہ مجھ پر چالیس سال اس حال میں گزرے کہ سوتے جاگتے کتاب میرے سینے پر رہتی تھی۔ حضرت امام بخاریؒ سے پوچھا گیا حفظ کی دوا کیا ہے؟ فرمایا ’’کتب بینی‘‘۔
فرانسیسی سکالر ڈاکٹر گستاؤلی بان نے ’’تمدّن عرب‘‘ میں اعتراف کیا ہے کہ بغداد، قرطبہ اور غرناطہ کی مسلم یونیورسٹیاں یورپ کے لئے روشنی کا مینار ثابت ہوئیں۔ برطانوی مؤرخ و ادیب لارڈ میکالے کا قول ہے کہ اگر روئے زمین کی بادشاہت مجھے دیدی جائے اور میرا کتب خانہ مجھ سے لے لیا جائے تو میں اس پر ہرگز رضامند نہ ہو سکوں گا۔ میری تو دعا ہے کہ میں مروں تو اپنے کتب خانہ میں ہی مروں۔
حضرت مولانا غلام حسین صاحبؓ (بیعت 1891ئ۔ وفات یکم فروری 1908ئ) کے بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا: ’’ان کے اندر بہت ہی علمی شوق تھا … حضرت خلیفہ اولؓ اور ایک وہ گویا کتابوں کے کیڑے تھے۔ بلکہ مولوی غلام حسین صاحبؓ کو حضرت خلیفہ اولؓ سے بھی زیادہ کتابوں کا شوق تھا۔ ان کی وفات بھی اسی رنگ میں ہوئی کہ وہ کلکتہ کسی کتاب کے لئے گئے اور وہیں سے بیمار ہو کر واپس آئے اور فوت ہوگئے۔ ان کا حافظہ اتنا زبردست تھا کہ حضرت خلیفہ اولؓ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے انہیں ایک دفعہ ایک کتاب دی کہ اسے پڑھیں۔ انہوں نے میرے سامنے جلدی جلدی اس کے ورق الٹنے شروع کر دئیے۔ وہ ایک صفحہ پر نظر ڈالتے اور اسے الٹ دیتے۔ پھر دوسرے پر نظر ڈالتے اور اسے چھوڑ دیتے۔ حضرت خلیفہ اولؓ خود بھی بہت جلدی پڑھتے تھے مگر آپؓ فرماتے تھے کہ انہوں نے اس قدر جلدی ورق الٹنے شروع کئے کہ مجھے خیال آیا کہ شاید وہ کتاب پڑھ نہیں رہے۔ چنانچہ میں نے ان سے کہا کہ مولوی صاحب آپ کتاب پڑھیں بھی تو سہی۔ وہ کہنے لگے کہ مجھ سے اس کتاب میں سے کوئی بات پوچھ لیجئے۔ حضرت خلیفہ اولؓ نے کوئی بات پوچھی تو کہنے لگے کہ یہ بات اس کتاب کے فلاں صفحہ پر فلاں سطر میں لکھی ہے … ایک بار مولوی صاحبؓ نے حضرت مولانا نورالدین بھیرویؓ سے اس دلی تمنا کا ذکر فرمایا کہ جی چاہتا ہے۔ میرے لئے ایک ایسا مکان بنادیا جائے جس کی دیواریں کتابوں کی بنی ہوئی ہوں گویا نئی کتابوں کی ایک چار دیواری ہو جس کے اندر مجھے بٹھا دیا جائے پھر کوئی شخص مجھ سے یہ نہ پوچھے کہ تم نے روٹی بھی کھائی ہے یا نہیں۔ بس میں کتابیں پڑھتا جاؤں اور اتارتا جاؤں۔ جب رستہ بن جائے تو باہر نکل جاؤں‘‘۔