کسی فتنہ کو چھوٹا نہیں سمجھنا چاہئے
حضرت مرزا شریف احمد صاحبؓ کے اوصافِ حمیدہ میں سے ایک بہت بڑا وصف یہ تھا کہ آپؓ خلافت کے قیام واجراء اور اس کے استحکام کے زبردست حامی تھے۔ آپ نے 1914ء میں منکرین خلافت کا ڈَٹ کر مقابلہ کیا اور 1956ء میں جب انکارِ خلافت کے فتنہ نے ایک اور شکل میں دوبارہ سر اُٹھایا تو آپ کا ایک مضمون 3؍اگست 1956ء کے روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ میں صفحہ 3 اور 4 پر شائع ہوا۔ آپ کا یہ قیمتی مضمون ماہنامہ ’’مصباح‘‘ ربوہ اپریل 2005ء میں مکرّر شائع کیا گیا ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کی وفات 1914ء میں ہوئی اور اس سے قبل جماعت میں فتنہ کی بنیاد رکھی جاچکی تھی۔ مولوی محمد علی صاحب نے حضور کی وفات سے دو تین دن پہلے ایک ٹریکٹ تیار کیا تھا جس کا مقصد تھا کہ جماعت احمدیہ میں کسی امام کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ ٹریکٹ غالباً لاہور میں چھپا تھا اور قادیان سے پوسٹ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ پیغامیوں نے انفرادی طور پر جماعت میں فتنہ پھیلانے کی کوشش بھی شروع کر دی تھی۔ حتیٰ کہ مولوی صدر الدین صاحب جو اس وقت سکول کے ہیڈ ماسٹر تھے بجائے سکول میں پڑھائی کرانے کے لڑکوں سے بحث مباحثہ کرتے رہتے تھے۔ اس وقت جماعت میں عجیب ہیجان برپا تھا اور فتنہ ہر شخص کو آنکھوں کے سامنے نظر آرہا تھا۔
حضورؓ کی بیماری جب زیادہ ہونا شروع ہوگئی تو ڈاکٹروں نے رائے دی کہ حضورؓ کو اپنے مکان سے نکال کر کسی کھلی جگہ رکھا جائے۔ اس پر مولوی صدرالدین صاحب اور مولوی محمد علی صاحب نے اپنے دیگر دوستوں کے مشورہ سے طے کیا کہ حضورؓ کو ہائی سکول کے بورڈنگ کی اوپر کی منزل میں لے جایا جائے اور اس کے لئے بعض تبدیلیاں بھی عمارت میں کرادیں۔ اس کی سیڑھیاں گول تھیں اور حضور بیٹھنے کے بھی قابل نہیں تھے اس لئے انہوں نے ڈائننگ ہال کی میزوں کو اوپر نیچے رکھ کر ایک اڈہ سا بنایا کہ حضورؓ کی چارپائی کو چار آدمی اٹھاکر اُس کے ذریعہ اوپر لے جائیں اور نیچے بٹھائے گئے پہرہ دار صرف ان آدمیوں کو اوپر جانے کی اجازت دیں جن کو ڈاکٹر (یعنی ڈاکٹر سیّد محمد حسین شاہ صاحب اور مرزا یعقوب بیگ صاحب) پسند کریں۔ اول تو حضورؓ کی چارپائی کو ان میزوں کے اوپر درجہ بدرجہ اٹھا کر لے جانا ایسی خطرناک بات تھی کہ اگر ایک آدمی کا ہاتھ بھی پھسل جاتا تو …۔ پھر عام لوگوں کو جو پیغامیوں کے خیال میں مناسب نہ ہوں وہاں جانے کی اجازت نہ دی جانی تھی۔ نیزاس جگہ کھانا پکانے کا بھی انتظام نہ تھا۔ یہ دیکھ کر مجھے بہت تشویش پیدا ہوئی اور مَیں نے اس کا ذکر اَخی المکرم عزیزم میاں عبد اللہ خاں صاحبؓ سے کیا۔
کھانے کا انتظام تو پہلے ہی حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ کے گھر میں ہوچکا تھا۔ رہائش کے لئے مَیں نے اور میاں عبد اللہ خان صاحبؓ نے مشورہ کیا کہ نواب صاحبؓ کو تاکید کیا جائے کہ وہ حضورؓ کو دعوت دیں کہ آپؓ کی کوٹھی پر تشریف لے جائیں۔ وہ کھلی جگہ تھی باغ تھا۔ چارپائی اندر اور باہر حسب ضرورت نکالی جاسکتی تھی اور ایسے لوگوں کا وہاں ساتھ تھا جن سے آپ کی طبیعت بہل سکتی تھی۔ چنانچہ اس امر کو حضور نے بڑی خوشی سے منظور کر لیا اور اس خبر کے سننے سے آپ کی طبیعت میں نشاط پیداہوگئی۔ جب حضورؓ کو لے جانے لگے تو مَیں بھی ساتھ تھا۔
گھر سے چلنے کے بعد پہلی دفعہ چارپائی بورڈنگ کے سامنے (جہاں میزوں کا اڈہ بنا ہوا تھا) رو کی گئی۔ مجھے اس بات کا یقینی پتہ لگا کہ اُن لوگوں کی رائے تھی کہ اس آخری وقت میں چارپائی روک کر کسی ترکیب سے حضورؓ کو اسی جگہ رکھ لیا جائے۔ جس وقت ایک لمبا فاصلہ طے کرکے چارپائی وہاں ٹھہری جہاں اس کے ٹھہرانے کی وجہ کوئی نہیں تھی کیونکہ ڈیڑھ سو گز پر نواب صاحبؓ کی کوٹھی رہ جاتی تھی۔ جب چارپائی وہاں روکی گئی تو حضورؓ نے نظر اٹھا کر دیکھا تو حسرت سے فرمایا کہ: ’’ہیں یہ اس جگہ مجھے لارہے ہیں؟‘‘۔
اس پر مَیں نے فوراً اونچی آواز سے کہا کہ ’’حضور! یہ صرف چلنے والوں کو آرام دینے کے لئے کیا ہے ورنہ ویسے آپ نواب صاحب کی کوٹھی پر ہی جارہے ہیں‘‘۔ میری بات سن کر حضور کو اطمینان ہوگیا اور پھر ہم چارپائی لے کر آگے چل پڑے۔ میرا اونچی آواز سے بولنے کا مقصد یہی تھا کہ اگر کسی کا خفیہ ارادہ ہو کہ آپ کو بورڈنگ میں لے جایا جائے تو وہ بھی دَب جائے۔
حضورؓ کو نواب صاحبؓ کی کوٹھی کے باہر کے شمالی کمرہ میں رکھا گیا۔ باقی بیرونی سارے کمرے مہمانوں کے لئے خالی کرادئے گئے۔ کافی جگہ تھی جس سے سب لوگوں کو آرام و سکون ملا۔نواب صاحب کے گھر سے صرف حضورؓ کے لئے ہی نہیں بلکہ باقی سارے خاندان اور سارے مہمانوں کے لئے کھانا پک کر آتا رہا اور آپ کو کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوئی۔ حضورؓ نے وصیت فرمائی کہ آپ کے بعد ان کا ایک جانشین ہو اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے یہ وصیت مولوی محمد علی صاحب مرحوم سے پڑھوائی گئی۔ حضورؓ کو چونکہ اس بات کا علم تھا کہ یہ لوگ خلافت کے مخالف ہیں۔ اس لئے اونچی آواز سے ان سے یہ وصیت پڑھوائی تا کہ انہیں کوئی بہانہ بعد میں ہاتھ نہ آئے۔ لیکن بہانہ کرنے والوں نے بہانہ کیا۔
میرا مقصد اس مضمون سے ایک دعا کا ذکر کرنا ہے۔ حضورؓ کی وفات جمعہ کے روز ہوئی۔ مَیں جمعہ کے بعد جلدی جلدی چل پڑا کہ حضورؓ کی طبیعت معلوم کروں کہ راستہ میں ہی حضورؓ کی وفات کی اطلاع مل گئی۔ مَیں نے اس وقت بغیر کچھ سوچنے کے تیزی کے ساتھ بھاگنا شروع کیا۔ لیکن پھر مجھے خیال آیا کہ حضورؓ تو وفات پاچکے ہیں، بھاگنے سے کیا فائدہ۔ جماعت کے حالات بہت منتشر حالت میں ہوگئے ہیں۔ مَیں کھڑا ہوگیا اور بڑے الحاح کے ساتھ خدا تعالیٰ کے حضور دعا کی کہ الٰہی! حضورؓ تو فوت ہوگئے ہیں، اب جماعت کو فتنوں سے محفوظ رکھنا۔ مَیں کافی عرصہ تک ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتا رہا اور پھر آہستہ آہستہ نواب صاحبؓ کے مکان کی طرف چل پڑا۔ اس دعا کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے ہمارے سب خاندان کو ہر قسم کے فتنوں سے محفوظ رکھا حتیٰ کہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانی کا انتخاب ہوگیا۔
میرا یہ چند سطور لکھنے سے یہ مقصد ہے کہ حقیقت میں دعا ہی ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے انسان مصائب تکلیفوں اور فتنوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔ اِس وقت یہ فتنہ ایک اور شکل میں کھڑا ہوا ہے۔ ہر شخص دعاؤں میں لگ جائے صرف اپنے لئے ہی نہیں بلکہ اپنے بیوی بچوں کو خاص طور پر اور اپنی جماعت کے ہر فرد کو عموماً اس میں شامل کرے۔
بعض لوگوں کا یہ خیال ہے کہ یہ ایک چھوٹا سا فتنہ ہے اور ایک ادنیٰ درجہ کا ذلیل آدمی اس کا پروپیگنڈا کر رہا ہے۔ اس کے خلاف حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کو اس شدومد سے مخالفت کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ فتنے ہمیشہ ابتداء ً چھوٹے ہی ہوا کرتے ہیں اور اگر وقت پر ان کو نہ سنبھالا جائے تو اتنے پھیل جاتے ہیں کہ پھر کسی انسان کے بس کی بات نہیں رہتی۔ حضرت عثمانؓ کے زمانہ میں فتنہ کی ابتدائی حالت یہی تھی کہ بعض لوگوں نے آپ کے بعض عاملوں کے اوپر الزام دئیے۔ یہ ظاہراً طور پر ایک چھوٹی سی بات نظر آتی تھی لیکن فتنہ پھیلانے والے ایک سکیم کے ماتحت کام کررہے تھے جس کا انجام خلیفۂ ثالث کی شہادت پر ہوا۔ کسی فتنہ کو کبھی چھوٹا نہیں سمجھنا چاہئے خصوصاً جب کہ مرکز اس کو اہمیت دیتا ہو کیونکہ مرکز میں ایسے حالات پہنچتے ہیں جس کا عام جماعت کو پتہ بھی نہیں ہوتا۔ اگرچہ خدا تعالیٰ کے فضل سے مَیں سمجھتا ہوں کہ وہ منافق جو اپنے آپ کو ہماری جماعت کی طرف منسوب کرتے ہیں ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی ہے مگر باہر سے مدد کرنے والے کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ اس لئے آپ دعا کریں اور پھر دعا کریں تاکہ خدا تعالیٰ ہمیں اور ہماری اولادوں کو اس سے کلیتہً محفوظ رکھے۔ اس فتنہ سے بھی اور اگر خدا تعالیٰ کی تقدیر میں اور فتنے بھی ہوں تو ان سے بھی۔