کشمیری بزرگوں کے ایمان افروز واقعات
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 15؍دسمبر 2004ء کی زینت کشمیر کے احمدی بزرگوں کے بعض ایمان افروز واقعات (مرسلہ: داؤد بھٹی صاحب) ہیں۔
٭ حضرت خواجہ عبد الرحمان صاحبؓ صوم وصلوٰۃ کے اس قدر پابند تھے کہ ایک بار جب ریاست جموں و کشمیر کے جنگلات کے افسر اعلیٰ پنڈت دیوی سرن ان کے علاقہ کا دورہ کررہے تھے تو دوران کام میں آپؓ نماز میں مشغول ہوگئے۔ پنڈت صاحب نے تعصب کی وجہ سے آپؓ کو معطل کر کے کہا کہ ان کو جا کر کسی مسجد کی امامت سنبھال لینی چاہئے کہ وہ رینج افسری کے اہل نہیں ہیں۔ خواجہ صاحب نے اپنا بستر بوریا باندھا اور اور اپنے گاؤں موضع آسنور خاموشی سے چلے گئے۔ ابھی چند ہی دن گزرے تھے کہ دیوی سرن افسر نے ہی آپؓ کی بحالی کے احکام صادر کردئے حالانکہ آپؓ نے بحالی کی نہ کوئی درخواست کی اور نہ کوئی سفارشی بھیجا۔
٭ حضرت سید ناصر شاہ صاحبؓ نے ایک مرتبہ خواب میں دیکھا کہ حضرت مسیح موعودؑ کو آپؓ کی ضرورت ہے۔ چنانچہ رخصت لے کر قادیان میں پہنچے تو پتہ چلا کہ حضورؑ کو کتاب ’’نزول المسیح‘‘ کی طباعت کیلئے روپیہ کی ضرورت ہے۔ آپ نے اسی وقت ڈیڑھ ہزار کی رقم جو حج بیت اللہ کیلئے جمع کی تھی، حضورؑ کی خدمت میں پیش کرتے ہوئے وعدہ کیا کہ طباعت کے بقیہ اخراجات کشمیر جاکر ارسال کر دیں گے۔ حضورؑ کو بھی آپؓ سے بہت محبت تھی۔ ایک دفعہ حضرت مولوی عبدالکریم صاحب سیالکوٹیؓ نے فرمایا: شاہ صاحب! حضرت صاحب جس طرح آپ سے محبت کرتے ہیں اسے دیکھ کر خدا کی قسم ہمیں تو رشک آتا ہے۔
٭ 1894ء میں جب سورج اور چاند گرہن کا نشان وقوع ہوا تو حضرت قاضی محمد اکبر صاحب کو حضرت مسیح موعودؑ کے دعاوی کی تردید سے متعلق ایک کتاب کہیں سے ملی۔ اسی دوران حضرت مولوی برہان الدین صاحبؓ نے حضورؑ کی دو کتب بھی آپ کو بھجوائیں۔ ان کتب کی وصولی سے قبل آپ نے رؤیا میں دیکھا تھا کہ آپ کو تین کتابیں پڑھنے کے لئے دی گئی ہیں۔ ان میں سے پہلی کتاب پڑھنے کے لئے آپ نے کھولی تو اس کے اندر گند بھرا ہوا ہے اور بدبو آرہی ہے۔ اس پر آپ نے وہ کتاب پھینک دی۔ پھر دو کتابوں کو دیکھا کہ ان سے نور کے شعلے نکل رہے ہیں۔ چنانچہ یہ رؤیا پورا ہونے پر آپ نے پہلے تحریری بیعت کی اور پھر جلد ہی قادیان پہنچ کر حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے دست مبارک پر بیعت کر لی۔
٭ حضرت چوہدری حیات بخش کے بیٹے مولوی اللہ دتہ نے جب اپنے والد محترم کو دعوت الی اللہ کی تو انہوں نے کہا کہ نبی اور ولی بڑی بڑی کرامتیں دکھاتے تھے۔ اگر حضرت مرزا صاحب کی دعا سے میرا حقہ چھوٹ جائے تو میں احمدی ہوجاؤں گا۔
اتفاق تھا کہ اُسی دن چوہدری صاحب کو شدید بخار ہوا جو متواتر تین دن تک رہا۔ جب بخار اترنے پر آپ نے حقہ طلب کیا تو حقہ دیکھتے ہی آپ نے کہنا شروع کردیا کہ اسے دُور لے جاؤ، مجھ سے اس کی بدبو برداشت نہیں ہورہی۔ چنانچہ حقہ کو گھر سے باہر پھینکواکر دَم لیا اور پھر اسی وقت احمدیت قبول کرلی۔
٭ مکرم شیخ غلام نبی صاحب کو پتھری کی شکایت تھی جس سے بڑی پریشانی تھی۔ علاج سے کوئی افاقہ نہیں ہوتا تھا۔ آخر ایک دفعہ دعا کی کہ اے اللہ! میں تیرے مسیح کو ماننے والا ہوں مجھے شفا دیدے۔ فرماتے تھے وہ رات روتے روتے گزاری تھی۔ صبح خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ پیشاب کے ساتھ مکئی کے دانے کے برابر پتھری خود بخود خارج ہوگئی اور مجھے شفا ہوگئی۔