کنسائی ایئرپورٹ جاپان
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم نومبر 2006ء میں جاپان کے کنسائی ایئرپورٹ کے بارہ میں مکرم سرفراز احمد عدیل صاحب کا ایک مضمون شامل اشاعت ہے۔
کنسائی ائیرپورٹ جاپان کو بلاشبہ دنیا کا آٹھواں عجوبہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ یہ ائیرپورٹ جو سمندر میں بنایا گیا ہے لیکن آہستہ آہستہ سمندر میں ڈوب رہا ہے۔ اس کی تعمیر سے قبل اندازہ تھا کہ ائیرپورٹ کی عمارت 19سے 25فٹ تک سمندر کے اندر دھنس سکتی ہے۔ اس رپورٹ پر جنوری 1987ء میں تعمیر شروع ہوئی۔ سمندر میں موجود زمینی تہوں کو مضبوط کرنے کیلئے پائپوں کے ذریعے سمندری زمین کے اندر پانی کو باہر نکالا گیا۔ جون 1989ء میں سمندری دیوار مکمل ہوئی تو پھر تین پہاڑوں کا پتھر سمندر میں ڈال کر سمندری زمین کی سطح اونچی کی گئی۔ اس دوران اس منصوبے کے خلاف عوام کے مظاہرے بھی جاری رہے اور تعمیر کو روکنے کیلئے 24 بار حملے کئے گئے۔
1989ء میں رابطہ سڑکوں کی تعمیر شروع ہوگئی۔ اس کے لئے 29 ستون سمندر کے اندر گاڑے گئے یہ کام ایک سال میں مکمل ہو گیا۔ ستونوں پر بنائے گئے پل کا وزن 4ہزار ٹن تھا اور اس کی لمبائی 2میل تھی۔ اس پُل کے اوپر سڑک تھی اور نیچے ریلوے ٹریک۔ پل پر ایک بلین ڈالر لاگت آئی اور دس ہزار افراد نے اس کی تعمیر میں حصہ لیا۔ پھر ٹرمینل کی تعمیر کا کام شروع ہوا تو معلوم ہوا کہ جس مصنوعی جزیرہ پر یہ ٹرمینل بنایا جانا تھا وہ 27فٹ تک زمین کے اندر د ھنس چکا تھا۔ حالانکہ ابتدائی رپورٹ میں 19فٹ بتایا گیا تھا۔ چنانچہ اس پر ساڑھے گیارہ فٹ مزید مٹی سمندر کی تہہ میں ڈالی گئی۔ پھر ایک مشہور ماہر تعمیرات کی نگرانی میں 1991ء میں پسنجر ٹرمینل کی تعمیر شروع ہو گئی۔ سٹیل کے 30ستون بنائے گئے۔ سطح زمین سے عمارت کی چھت 85فٹ بلند تھی۔ 200ٹن کا ایک سٹیل کاستون نصب کرکے خصوصی 200رائٹس لگائی گئیں جوبرطانیہ میں تیار ہوئی تھیں، ان میں ایسے شیشے لگائے گئے تھے جوٹوٹتے نہیں تھے۔ عمارت کی خوبصورتی کے لئے 90ہزار شیشے کی ٹائلیں لگائی گئیں۔ عمارت کا ڈھانچہ ایسا بنایا گیا کہ اس کے ایک کنارے پر کھڑا شخص دوسرے کنارے تک بآسانی دیکھ سکتا ہے۔ عمودی طرز پر بنائی گئی یہ عمارت فن تعمیر کا خوبصورت نمونہ ہے۔
عمارت میں چار ٹرمینل بنائے گئے جنہیں سنٹرل لفٹ کے ذریعے ملادیا گیا۔ ڈیپارچر کا حصہ ایک میل لمبا ہے جو دنیا کے لمبے ترین ڈیپارچر ایریاز میں سے ایک ہے۔ لیکن تیز ترین ٹرین صرف 90سیکنڈ میں عمارت سے جہاز تک پہنچا دیتی ہے۔ تعمیر کچھ تاخیر سے 24ستمبر 1994ء کو مکمل ہو سکی۔ تاخیر کی ایک وجہ ائیر کنڈیشننگ سسٹم کی تنصیب بھی تھی۔ عام طور پر یہ سسٹم زمین میں لگتا ہے مگر یہاں چھت پر نصب کیا گیا۔ اس عجوبہ روزگار عمارت کا افتتاح جاپان کے بادشاہ نے کیا۔
افتتاح کے پندرہ ماہ بعد شدید زلزلہ آیا جس کی شدت ریکٹر سکیل پر 7.2 تھی۔ اس زلزلے کے نتیجے میں ایئرپورٹ سے اٹھارہ میل دُور شہر ’’کوبے‘‘ دس فٹ تک زمین میں دھنس گیا، پانچ ہزار لوگ مرگئے اور 25ہزار زخمی ہوئے۔ املاک کے نقصان کا کوئی اندازہ نہیں تھا لیکن ائیرپورٹ یہ جھٹکا سہ گیا۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ائیرپورٹ کی بنیادوںمیں 75فٹ چوڑے اور دو ٹن وزن کے پتھر ڈالے گئے تھے۔ پھر تین سال گزرے تو 22ستمبر 1998ء کو 130میل فی گھنٹہ کی رفتار سے سمندری طوفان آگیا۔ ائیرپورٹ خوش قسمتی سے طوفان بھی جھیل گیا۔ لیکن ماہرین کو فیصلہ کرنا پڑا کہ آئندہ طوفانوں سے بچاؤ کے لئے اس کے گرد ایک حفاظتی دیوار بنانی ضروری ہے۔ تاہم اس تعمیر کے دوران ائیرپورٹ کو بند نہیں کیا جاسکتا تھا کیونکہ ائیرپورٹ پر ہر سال ایک لاکھ ساٹھ ہزار جہاز اترتے اور روانہ ہوتے تھے۔ چنانچہ مزید ایک اَور رن وے کی تعمیر کا فیصلہ کیا گیا جو اس وقت تعمیر کے آخری مراحل میں ہے۔
نئی عمارت بنانے کے باوجود پہلے ائرپورٹ کی عمارت ہر سال ایک فٹ نیچے ہورہی ہے حالانکہ اس میں نو سو کنکریٹ کے بلاک بنیادوں میں لگائے گئے ہیں جو سب کمپیوٹر سے منسلک ہیں اور 15انچ تک اوپر نیچے کئے جا سکتے ہیں۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ ائیرپورٹ کے 900پاؤں ہیں جن کا وزن 30ملین ٹن ہے۔ یہ طریق جاپان میں پہلے بھی مختلف جگہوں میں استعمال کیا جا چکا ہے۔ کنسائی ائیرپورٹ کی عمارت کی خاص بات یہ ہے کہ ہر شے بیک وقت اوپر نیچے کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ کئی بار پوری عمارت کی مختلف انداز سے اوپر نیچے ایڈجسٹمنٹ کی جا چکی ہے۔ ہر سال ائیرپورٹ کی سیڑھیوں میں دو مزید سیڑھیاں بھی شامل کی جاتی ہیں تاکہ سمندر کی تہہ میں دھنسنے والی سیڑھیوں کا ازالہ ہو سکے۔
اس ائیرپورٹ کو دومالیاتی فائدوں کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا تھا۔ ایک جاپانی معیشت بڑھانے کے لئے اور دوسرا ایشیا کی ٹریفک کو دوسرے براعظموں سے ملانے کے لئے۔ لیکن یہ دونوں خواب پورے نہ ہو سکے۔ اس ائیرپورٹ پر اب تک 15بلین ڈالر خرچ ہو چکے ہیں جن میں 40% اس کو ڈوبنے سے بچانے پر صرف ہوئے ہیں۔ یہ ائیرپورٹ قرضوں کے ڈھیر کے نیچے دبا ہوا ہے اور اس پر ہر سال تقریباً 560ملین ڈالرز کا سود چڑھ رہا ہے۔ اس ائیرپورٹ پر لینڈنگ فیس بہت زیادہ ہونے کی وجہ سے اکثر ائیرلائنز یہاں نہیں اترتیں۔ یہ دنیا کا دوسرا مہنگا ترین ائیرپورٹ ہے۔