گھوڑوں کی اعلیٰ اقسام
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 23؍جنوری 2007ء میں بریگیڈیئر (ر) سید ممتاز احمد صاحب کا ایک معلوماتی مضمون شائع ہوا ہے جس میں اعلیٰ قسم کے گھوڑوں کی تاریخ پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
اٹھارہویں صدی میں برطانیہ میں اعلیٰ جانور پالنے کا شوق شروع ہوا۔ اُس زمانہ میں یہاں گھوڑوں کی کئی نسلیں تھیں جو خوبصورت نہ تھیں۔ ایک برطانوی ایک عرب گھوڑا خرید لایا جو اپنے مالک کے نام سے Darley Arabian کہلایا۔ ایک دوسرا انگریز ترکی سے ایک گھوڑا خرید کر لایا جو اسی مناسبت سے Byerlay Turk کہلایا۔ گھوڑوں کا وسیع تجربہ رکھنے والاایک تیسرا انگریز Mr. Godolphin پیرس (فرانس) گیا تو اُس نے وہاں ایک غریب فرانسیسی کی گاڑی میں جتا ہوا خستہ حال گھوڑا دیکھا جسے اُس نے فوراً ہی ایک بڑی رقم دے کر خرید لیا اور اُسے انگلستان لے آیا۔ ان گھوڑوں کی جب انگلستان میں موجود گھوڑیوں سے افزائش کی گئی تو بڑے سڈول اور خوبصورت جانور پیدا ہوئے جنہوں نے دوڑ میں انگریز گھوڑوں پر ہر طرح سبقت حاصل کرلی۔ اس طرح انگلستان میں ایک سوسائٹی کی بنیاد پڑی اور مذکورہ تینوں گھوڑوں کی نسل کا باقاعدہ ریکارڈ رجسٹر میں درج ہونے لگا اور ان کا نام ’’تھارو بریڈ‘‘ یعنی بہترین نسل رکھا گیا۔ یہ نسل گھوڑدوڑ میں اتنی مقبول ہوئی کہ آج تمام دنیا میں پائی جاتی ہے لیکن ان کا شجرۂ نسب ہمیشہ مذکورہ تین میں سے کسی ایک گھوڑے سے جاملے گا۔
اس کے بعد عرب گھوڑے اس قدر مقبول ہوئے کہ کئی لوگ عرب، ترکی، مصر، عراق اور اردن سے گھوڑے خرید کر یہاں لانے لگے اور نسل کشی شروع کردی۔ ان میں ایک جرمن کارل بھی تھا جو ایک عرب قبیلہ کا رکن بن گیا اور کئی سال اُن کے ساتھ رہا، جنگوں میں بھی حصہ لیتا رہا۔ اُس نے تمام عرب گھوڑوں کا غور سے مطالعہ کیا اور واپس آکر ایک کتاب لکھی جس کا انگریزی ترجمہ Black Tents of Arabia ہے۔ اس کتاب کے مطابق عربی نسل کے گھوڑوں کی تین اقسام ہیں۔ ایک طاقت میں مشہور ہے، ایک برق رفتار ہے اور تیسری قسم حسن کا پیکر ہے۔
ایک انگریز لڑکی بھی جو کسی عرب سردار کی بیٹی بن گئی تھی، وہاں لمبا عرصہ رہنے اور عربی نسل کے گھوڑوں کا وسیع تجربہ حاصل کرکے واپس آئی اور Lady Wentworth کے نام سے مشہور ہوئی۔ اس نے انگلستان میں عربی نسل کے گھوڑوں کی نسل کی افزائش گاہ (Stud) قائم کی۔ اُس کی وفات پر جب اس Stud کے گھوڑے نیلام ہوئے تو اُن میں سے دس عدد پاکستانی فوج نے بھی خریدے جن کی نسل کشی اب بھی جاری ہے۔