گیمبیا میں میرا پہلا دن

محترم مولانا چوہدری محمد شریف صاحب مرحوم کی بطور مبلغ گیمبیا میں پہلے دن کی خودنوشت روداد روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 19مارچ 2005ء میں شامل اشاعت ہے۔

محترم چودھری محمد شریف صاحب

گیمبیا، مغربی افریقہ میں سلطنت برطانیہ کی سب سے پہلی نو آبادی تھی اور اس کو فتح کرنے کے بعد برطانیہ نے سیرالیون، گولڈ کوسٹ (غانا) اور نائیجیریا پر قبضہ کیا اور متعدد یورپین قوموں کی اس ملک پر قبضہ کی خاطر باہمی لڑائیاں ہوئیں۔ گیمبیا میں احمدیہ مشن قائم کرنے کے لئے متواتر پانچ سال تک جدو جہد کرنا پڑی۔ وہاں کی انگریزی حکومت احمدیہ مشن قائم کرنے کی اجازت نہیں دیتی تھی کیونکہ اسے گولڈ کوسٹ، نائیجیریا، سیرالیون سے تجربہ حاصل ہوچکا تھا کہ جہاں احمدیہ مشن قائم ہوگا وہاں سے عیسائیت کے قدم اکھڑنے شروع ہوجائیں گے۔
مجھے فروری 1961ء میں ربوہ سے براستہ نائیجیریا، گیمبیا کے لئے روانہ کیا گیا۔ راستہ میں لبنان اور شام میں بھی چند ہفتے قیام کیا۔ ان ممالک میں پہلے مَیں بیس سال گزار چکا تھا اور یہاں میرے رشتہ دار اور محب کثیر تعداد میں موجود تھے۔ اس کے بعد میں روم (اٹلی) سے ہوتا ہوا 26فروری 1961ء کو لیگوس (نائیجیریا) میں پہنچ گیا۔ وہاں برادرم مولوی نسیم سیفی صاحب مربی انچارج مغربی افریقہ نے استقبال کیا۔ اُسی روز حکومت گیمبیا کی طرف سے گیمبیا میں احمدیہ مشن قائم کرنے کی اجازت اور مجھے وہاں بطور مربی جانے کی منظوری آگئی۔

مکرم نسیم سیفی صاحب

مَیں نائیجیریا سے گیمبیا کے لئے مارچ کے پہلے ہفتہ میں روانہ ہوا۔ چند دن کے لئے غانا میں اترا۔ وہاں مکرم و معظم مولوی نذیر احمد صاحب مبشر فاضل (انچارج احمدیہ مشن غانا) سے 26سال بعد ملاقات ہوئی۔ یہاں مجھے اس خیال نے بے قرار کردیا کہ یہاں تک تو میں اپنے گھر میں اور اپنے عزیزوں کے درمیان ہی تھا اور مجھے کسی قسم کی تکلیف نہیں ہوئی لیکن جس ملک کی طرف اب مجھے جانا ہے وہاں تو میرا کوئی واقف نہیں۔ اگرچہ ایک احمدی دوست کے نام وہاں تار بھیج دیا گیا تھا لیکن یہ علم نہ تھا کہ ان کو یہ تار ملا بھی یا نہیں۔ 10مارچ 1961ء کی صبح غانا سے روانہ ہو کر شام ساڑھے پانچ بجے گیمبیا کے ائیرپورٹ پر ہمارا جہاز اترا۔ میری جیب میں صرف پچاس پاؤنڈ تھے۔ اور یہ گویا ایک ہفتہ کا خرچ تھا کیونکہ ان دنوں گیمبیا میں صرف ایک ہی ہوٹل (ایٹلانٹک) تھا اور اس کا روزانہ خرچ خوراک و رہائش ساڑھے سات پونڈ تھا۔ چونکہ میرا یہاں کوئی واقف نہیں تھا اور نہ مجھے کسی جلدی کی ضرورت تھی اس لئے میں سب سے آخر میں دعا کرتے ہوئے جہاز سے باہر نکلا۔
ابھی میں جہاز کی سیڑھیوں پر ہی تھا کہ انگریزی لبا س میں ملبوس ایک شخص نے مجھے سلیوٹ کیا اور ان کے اردگرد جو تین چار پولیس مین تھے، انہوں نے بھی ایسے ہی سلام کیا۔ پھر جب میں نے گیمبیا کی زمین پر قدم رکھا تو اُن صاحب نے کہا کہ میرا نام عمر جوف ہے اور میں سب انسپکٹر پولیس ہوں (پھر وہ گیمبیا کے ایک ڈویژن کے کمانڈر بنے) ہم آپ کے استقبال کے لئے یہاں آئے ہیں اور آپ کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ اور جب میں نے نظر اٹھا کر دیکھا تو ائیرپورٹ کے جنگلہ کے باہر بھی چند اصحاب مجھے ہاتھوں اور رومالوں سے اشارہ کر کے سلام کہہ رہے تھے۔
برادرم عمر جوف صاحب نے میرے ہاتھ سے میرا ہینڈ بیگ پکڑ لیا اور چند منٹ کے اندر پاسپورٹ سے متعلقہ امور مکمل کروا لئے۔ کیونکہ یہ کام وہاں پولیس کا ہے۔ کسٹم کا بھی کوئی مسئلہ نہ تھا کیونکہ برادرم علی با صاحب (جو اس وقت کسٹمز افیسر تھے) وہ بھی استقبال کے لئے آنے والوں میں شامل تھے۔ دیگر دس گیارہ دوست بھی اندر آگئے اور سب سے سلام و کلام و مصافحہ و معانقہ ہوا اور ہم س زمین گیمبیا میں داخل ہوگئے۔ یہ دوست اپنے ساتھ ایک بس بھی شہر سے لائے ہوئے تھے۔ بس میں سوار ہونے سے پہلے انہوں نے میرے ساتھ اپنا فوٹو لیا اور پھر بس میں بیٹھ کر دارالحکومت باتھرسٹ کی طرف روانہ ہوئے۔ ان کی خوشی کی بھی کوئی انتہا نہ تھی کہ وہ اپنے اندر آج ایک احمدی مربی کو پارہے تھے۔ جس کے یہاں لانے کے لئے وہ گزشتہ چار پانچ سال سے درخواستیں اور کوششیں کر رہے تھے اور میں بھی اللہ تعالیٰ کے خاص فضلوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر خوش ہورہا تھا۔ میرے لئے یہ معمولی آدمی نہ تھے یہ خدا تعالیٰ کے وہ خاص بندے تھے جن کو خدا تعالیٰ نے اپنے فرشتوں کے ذریعہ یہاں اس جنگل میں مسیح موعود کے ایک غلام کے استقبال کے لئے اپنے وعدہ کے مطابق بھیجا تھا۔
چودہ پندرہ میل کا فاصلہ تھا۔ تقریباً مغرب کے وقت بس باتھرسٹ پہنچی تو آہستہ آہستہ چلنے لگی اور سب بھائیوں نے بڑی اونچی آوازوں سے ’’لٓا الٰہ اِلّااللہ‘‘ کا ورد شروع کردیا اور سارے شہر کا اسی طرح چکر لگایا۔ان کا یہ رواج ہے کہ جب کوئی بڑا آدمی شہر میں آئے تو وہ سب اہل شہر کی اطلاع کیلئے ایسا کرتے ہیں۔ آخر سارے شہر کا چکر لگاکر ہم گیمبیا میں سب سے پہلے احمدی بھائی (لامین انجائے) کے گھر (نمبر 11 رانکن سٹریٹ) پہنچے۔ مکان بانس کی سرکیوں کا بنا ہوااور اس پر ٹین کی چادروں کی چھت تھی۔ میں نے یہاں دو رکعت شکرانہ ادا کیا۔ پھر نماز مغرب باجماعت ادا کی۔ ایک کمرہ میرے لئے خاص کیا گیا تھا جس میں ایک پلنگ پر نہایت اعلیٰ درجہ کا بستر کیا ہوا تھا اور ضیافت کا سامان موجود تھا۔ مَیں یہاں 24 دن تک ٹھہرا اور سب گھر والوں نے میری اور میری ملاقات کے لئے آنے والے معززین اور نماز باجماعت ادا کرنے کے لئے آنے والے بھائیوں کی وہ خدمت کی جسے بیان کرنا میرے قلم کا کام نہیں۔
پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم نے احمدیہ مشن کے لئے شہر کے وسط میں ایک پختہ مکان نمبر 75لٹکا سٹر سٹریٹ لے لیا۔ اس سال (1976ء میں) احمدیہ مشن گیمبیا کا بجٹ آمد و خرچ 4 لاکھ 6 ہزار 742 روپیہ ہے۔ اور یہ مشن آمدو خرچ کے لحاظ سے مغربی افریقہ میں چوتھے نمبر پر اور ساری دنیا میں پھیلے ہوئے احمدیہ مشنوں میں ساتویں نمبر پر ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں