ہاتھ بڑھانا …
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 13؍مارچ 2000ء میں مکرم عبدالسمیع نون صاحب ایڈووکیٹ نے محترم صاحبزادہ مرزا منیر احمد صاحب کا ذکر خیر کرتے ہوئے بیان کیا ہے کہ قیام پاکستان کے بعد محترم صاحبزادہ صاحب کو دہلی کی دکان کے بدلے ایک دکان مال روڈ لاہور پر الاٹ ہوئی جس کا نام Arsuco رکھ کر محترم میاں صاحب نے اُس میں کاروبار شروع کیا۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کو اس دکانداری کا علم ہوا تو آپؓ نے محترم میاں صاحب کو بلاکر فرمایا:
’’میاں رزق حلال کمانے کے لئے جو کاروبار تم کرنا چاہو ، بے شک کرو۔ مگر خیال رہے کہ مَیں حضرت مسیح موعودؑ کے کسی فرزند کو کاؤنٹر پر بیٹھ کر فروخت کردہ مال کی قیمت وصول کرنے کے لئے بھی ہاتھ بڑھاتے دیکھنا پسند نہیں کرتا‘‘۔
اگرچہ یہ قیمت وصول کرنے کے لئے ہاتھ بڑھانا تھا اور ہاتھ پھیلانے والی بات ہرگز نہیں تھی لیکن قمر روحانی کو اپنا حق لینے کے لئے بھی ہاتھ بڑھانا پسند نہیں تھا۔
اسی مضمون میں محترم صاحبزادہ مرزا مبارک احمد صاحب کے حوالہ سے سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کا یہ واقعہ بھی درج ہے کہ حضورؓ کے ناک کی حس بہت تیز تھی، آپ گائے یا بھینس کے دودھ کا ایک گھونٹ لے کر بتادیتے تھے کہ جانور نے کونسا چارہ کھایا ہے۔ کسی قسم کی بدبو کی برداشت نہیں تھی۔ حضورؓعموماً عطر کا استعمال فرماتے تھے اور عطر بنانے کا شوق بھی رکھتے تھے۔ ایک دفعہ جب کوئی نیا عطر بنایا تو ہماری بڑی بہن کو بلاکر یہ پوچھنے کے لئے کہ یہ عطر کیسا ہے، فرمایا: ہاتھ آگے کرو۔ ہماری ہمشیرہ نے اپنی ہتھیلی آگے کی تو فرمایا:اس طرح نہیں، ہاتھ اُلٹا کرکے میرے سامنے کرو، سیدھا ہاتھ آگے کرنے سے مانگنے کی عادت پڑ سکتی ہے، جو مَیں اپنی اولاد میں برداشت نہیں کرسکتا۔