ہدایت کیلئے اصحاب احمدؑ کی قبولیتِ دعا

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 10؍جنوری 2004ء میں حضرت مسیح موعودؑ کے بعض اصحاب کی ایسی دعاؤں کی قبولیت کا ذکر (مرتبہ:عطاء الوحید باجوہ صاحب) شامل اشاعت ہے جن کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے انہیں ہدایت سے نوازا اور انہوں نے مسیح الزمان یا خلیفۂ وقت کی بیعت کی سعادت حاصل کی۔
حضرت جان محمد صاحبؓ
حضرت جان محمد صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ دل میں آیا کہ (حضرت مسیح موعودؑ کے دعویٰ کے بارہ میں) استخارہ کر لینا چاہئے۔ سجدہ میں گڑگڑا کر دعائیں شروع کیں کہ الٰہی تو ہادی ہے میری رہنمائی کر۔ چند روز کے بعد میرے مرشد حضرت پیر حنین شاہ صاحبؒ خواب میں ملے اور فرمایا اب ان کا راج ہے فوراً بیعت کرلے۔ پھر چند دن کے بعد ایک نورانی بزرگ بمعہ حضرت شاہ صاحب ایک جگہ تشریف فرما دیکھے۔ حضرت شاہ صاحب مؤدب دوزانو ہوکر بزرگ کی خدمت میں بیٹھے تھے۔ بزرگ کے پوچھنے پر آپؒ نے میرے بارہ میں عرض کیا: مَیں نے اس کو تاکید کر کے (بیعت کیلئے) کہہ دیا ہے مگر معلوم نہیں کہ یہ کیا سوچ رہا ہے۔ پھر بزرگ سے فرمایا: اس کو کہہ دیں کہ جلدی بیعت کر لے ورنہ پچھتائے گا۔ پھر میری آنکھ کھل گئی۔
چند روز کے بعد تیسرے بزرگ جن کے نورانی چہرہ کی میں تاب نہ لا سکا بمع پہلے دو بزرگوں کے رؤیا میں دیکھے اور پہلے دونوں بزرگ تیسرے بزرگ کے حضور مؤدب بیٹھے تھے۔ تیسرے بزرگ کے دریافت کرنے پر دوسرے بزرگ نے انہیں بتایا کہ شاہ صاحب نے اسے (بیعت کے لئے) کہہ دیا ہے مگر خبر نہیں یہ کس سوچ میں ہے؟۔ پھر تیسرے بزرگ نے بہت رعب دار آواز سے فرمایا: جلدی بیعت کرلے ورنہ پچھتائے گا۔ آپ نے ایسے زور سے فرمایا کہ میں کانپ کر اٹھ بیٹھا۔ میری بیوی نے مجھ سے وجہ پوچھی تو مَیں نے حقیقت بیان کردی۔ میری بیوی نے کہا: جب آپ کو بار بار بیعت کی تاکید ہو تی ہے تو کیوں نہیں کر لیتے۔
یہ فروری 1901ء تھا اور مردم شماری کے دن تھے۔ میں نے پٹواری کو مذہب کے خانہ میں سب گھر والوں کی طرف سے احمدی لکھا دیا۔ پھر اپریل1901ء میں قادیان حاضر ہوا۔ جب حضورؑ نماز مغرب کے بعد شاہ نشین پر رونق افروز ہوئے تو مَیں نے مؤدبانہ کھڑے ہو کر بیعت کی درخواست کی۔ حضورؑ کے دریافت فرمانے پر عرض کیا کہ ڈسکہ ضلع سیالکوٹ میں مڈل سکول میں اوّل مدرس ہوں۔ حضورؑ نے فرمایا: پھر آپ رخصت لے کر آئے ہوں گے۔ عرض کیا: دس روز کی رخصت ہے۔ فرمایا: بہت دن ہیں، آپ یہاں رہیں۔ میں بیٹھ گیا اور میرا ایمان بڑھ گیا اور دل نے گواہی دی کہ حضور صادق ہیں اور صحبت سے فیضیاب ہونے کا سبق سکھاتے ہیں۔ پانچ روز گزرنے کے بعد پھر میں نے بیعت کی درخواست کی تو فرمایا: بہت دن ہیں اَور ٹھہریں۔ حضور نے ان دنوں ایسے کلمات طیبات ارشاد فرمائے کہ جن باتوں کی نسبت میں پوچھنا چاہتا تھا وہ اکثر ان دنوں حل ہو گئیں اور مجھے سوال کرنے کی نوبت نہ آئی۔ میں حضورؑ کے نزدیک بیٹھا کرتا تھا تاکہ حضورؑ کے لباس مبارک سے برکت حاصل کروں۔ موقع ملتا تو پاؤں بھی دبایا کرتا۔ جب رخصت کا ایک دن باقی رہا تو پھر مَیں نے بیعت کے لئے عرض کیا۔ چنانچہ حضورؑ نے بیعت لی، دعا کی اور مجھے جانے کی اجازت دیدی۔ میں نے عرض کی کہ مَیں نے ایک بزرگ کی بیعت کی ہوئی تھی جن کا کئی سال پہلے وصال ہو چکا ہے۔ مَیں اُن کے صاحبزادہ کی خدمت بھی کرتا ہوں۔ اب آپؑ کی بیعت کے بعد میرا اُن سے کیا برتاؤ ہو؟۔ حضورؑ نے فرمایا: آپ ان کی خدمت پہلے سے بھی زیادہ کریں تاکہ ان کو معلوم ہو کہ آپ نے اخلاق میں کیا ترقی کی ہے۔ آپ کی وہ پہلی بیعت ایسی تھی جیسا کہ پانی نہ ملنے کے وقت مٹی پر ہاتھ مار کر تیمم کر لیا جاتا ہے۔ اب آسمان سے خالص پانی آگیا ہے، اب تیمم کی ضرورت نہیں رہی بلکہ ان بزرگوں کو بھی تبلیغ کریں۔
حضرت مرزا رسول بیگ صاحبؓ
حضرت مرزا رسول بیگ صاحبؓ رقمطراز ہیں کہ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کی وفات پر جماعت میں اختلاف ہوا تو مَیں ریاست بہاولپور میں تھا۔ مولوی علی احمد حقانی صاحب کے راولپنڈی سے تائیدِ خلافت میں اور اُن کے چھوٹے بھائی ڈاکٹر مرزا یعقوب بیگ صاحب کے خلافت ثانیہ کے خلاف خطوط آنے شروع ہوئے۔ مَیں نے ایک رات استخارہ کیا تو خواب دیکھا کہ آسمان سے ایک رسہ لٹک رہا ہے۔ میں نے یہ دیکھنے کیلئے کہ مضبوط ہے یا نہیں، دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر اس پر اپنا بوجھ ڈالا۔ جونہی میں نے بوجھ ڈالا اور دیکھا کہ رسہ مضبوط ہے۔ تو غیب سے آواز آئی ’’اسے مضبوطی سے پکڑ لو میاں محمود کا رسہ ہے‘‘۔ چنانچہ صبح ہی اپنی بیعت کا خط حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمت میں لکھ دیا۔
حضرت مولوی فضل الٰہی صاحبؓ
حضرت مولوی فضل الٰہی صاحبؓ تحریر فرماتے ہیں کہ مَیں نے حضرت مسیح موعودؑ کی صداقت کیلئے رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف کے ایام میں بہت دعائے استخارہ کی کہ مولا کریم مجھے اطلاع فرما کہ جس حالت میں اب ہوں یہ درست ہے یا حضرت مسیح موعودؑ کا دعویٰ درست ہے؟ اس پر مجھے دکھلایا گیاکہ میں نماز پڑھ رہا ہوں۔ لیکن رُخ قبلہ کی طرف نہیں ہے۔ اور سورج کی روشنی بوجہ گرہن بہت کم ہے۔ تفہیم ہوئی کہ یہ تمہاری موجودہ حالت کا نقشہ ہے۔ دوسرے دن بعد نماز عشاء پھر رو رو کر دعا کی تو حضرت مسیح موعودؑ نے خواب میں فرمایا: کہ اصل دعا کا وقت جوف اللیل کے بعد کا ہوتا ہے جس طرح بچہ کے رونے پر والدہ کے پستان میں دودھ آجاتا ہے، اسی طرح پچھلی رات گریہ وزاری کرنے سے خدا کا رحم قریب آجاتا ہے۔ اس کے بعد بندہ نے حضرت مسیح موعودؑ کی غلامی اختیار کرلی۔
حضرت بابو فقیر علی صاحبؓ
حضرت بابو فقیر علی صاحبؓ 1905ء میں بلوچستان کے پہلے سٹیشن ’’جھٹ پٹ‘‘ پراسٹیشن ماسٹر متعین ہوئے۔ یہ اجاڑ بیابان جگہ تھی اور پچیس تیس میل اردگرد تک آبادی، پانی اور گھاس تک نہ تھا۔ سبی تک صرف ریلوے سٹیشنوں پر پانی دستیاب ہوتا تھا جہاں ریلوے ٹینک یا تالاب میں پانی ذخیرہ کیا جاتا تھا۔ حضرت منشی عبدالغنی صاحب اوجلوی نے وہاں آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کا اشتہار ’’الانذار‘‘ بھجوایا۔ پھر آپ کو حضورؑ کی کوئی کتاب یا مضمون ملتا تو اس کے مطالعہ سے آپ کا دل حضورؑ کی صداقت کا قائل ہوتا لیکن مخالفین کے اعتراضات کے مطالعہ سے دل میں اضطراب پیدا ہوتا کہ صداقت کدھر ہے۔ تب آپ سنسان مقامات پر جاکر دعائیں کرتے کہ اے اللہ ! تو میری راہنمائی فرما!۔
اُن ایام میں آپ نے اپنی اہلیہ سے کہا کہ میری موت واقع ہونے لگے تو حضرت مرزا صاحب کی فلاں تحریر میرے سامنے کر دینا۔ ایک دن اپنی چچی دادی محترمہ مریم صاحبہ اور اہلیہ اور ایک عزیز رشتہ دار کی معیت میں نماز فجر ادا کر کے آپ نے انہیں کہا کہ آپ سب گواہ رہیں کہ آج میں حضرت مرزا صاحب کے متعلق فیصلہ کے لئے قرآن مجید کھولتا ہوں جو حضورؑ اور مخالفین دونوں کا مشترک و مسلم کلام الٰہی ہے۔ دائیں صفحہ کی تیسری سطر فیصلہ کن ہو گی۔ چنانچہ سورۃ یوسف کا یہ حصہ نکلا کہ یہ بندہ تو پاک فرشتہ ہے۔ اللہ تعالیٰ کا تصرف ایسا ہوا کہ برملا آپ نے کہہ دیا حضرت مرزا غلام احمد صاحب صادق من اللہ اور مسیح موعود ہیں۔ اور معاً اپنی اور اپنی اہلیہ صاحبہ کی بیعت کا خط لکھ دیا۔
حضرت چوہدری فضل محمد صاحبؓ ہرسیاںوالے
حضرت چوہدری فضل محمد صاحب رقمطراز ہیں کہ پہلے میری سکونت موضع ہرسیاں تحصیل بٹالہ ضلع گورداسپور کی تھی اور بعض دوست میرے پاس آکر حضرت مسیح موعودؑ کی کچھ باتیں کیا کرتے تھے اور میں کچھ سوال وجواب کیا کرتا تھا۔ اتفاقاً جلسہ 1896ء کے موقعہ پر جب میں گھوڑے پر سوار ہوکر ایک دوست کو ملنے (براستہ قادیان) سری گوبند پور جا رہا تھا تو جب مسجد اقصیٰ کے دروازہ کے سامنے پہنچا تو میرے ایک دوست محمد اکبر بٹالوی مسجد کے اندر سے نکلے اور میرے گھوڑے کی باگ پکڑ کر فرمایا کہ آج جلسہ ہے، میں ہر گز آپ کو نہیں جانے دوں گا۔ انہوں نے میرا گھوڑا کسی رشتہ دار کے ہاں باندھ دیا اور مجھے ساتھ لے کر مسجد کے اندر چلے گئے جہاں حضرت مسیح موعودؑ بیٹھے تھے اور مولوی عبدالکریم صاحب تقریر فرما رہے تھے۔ میں وہاں بیٹھا تقریریں سنتا رہا۔ چنانچہ میں دو دن قادیان میں رہا اور چندہ بھی دیا۔ آخری دن جب بیعت شروع ہوئی تو محمد اکبر نے میرا بھی ہاتھ پکڑکر اوپر رکھ دیا۔ میں نے دل میں کہا کہ جب تک میرا ارادہ نہ ہو تو بیعت کیا ہوگی۔ خیر میں نے ہاتھ نہ اٹھایا اور دعا میں شامل ہو گیا۔ جب میں واپس گھر گیا تو میرے دل میں یہی خیال گزرا کہ قادیان میں سوائے قرآن شریف کے اور نیک دینی باتوں کے اَور کچھ نہیں سنا۔ اس خیال کے مدنظر میں نے نمازوں میں عاجزانہ دعا شروع کی کہ اے میرے پیدا کرنے والے! مجھے اس رستہ پر چلا کہ جس پر تو راضی ہو…۔ کئی دن کے بعد بٹالہ میں سودا خریدنے گیا تو پہلے محمد اکبر کے پاس گیا اور کہا کہ اس روز آپ نے میرا ہاتھ پکڑ کر بیعت والوں میں شامل ہونے کے لئے حضرت صاحب کے ہاتھ پر رکھ دیا تھا مگر میرا دل نہیں چاہتا تھا۔ مگر آج مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے جوش پیدا ہوا ہے اور اب میں اسی جگہ سے قادیان جاتا ہوں اور سچے دل سے توبہ کرکے بیعت میں داخل ہوتا ہوں۔ چنانچہ ہم دونوں قادیان گئے اور مَیں نے بیعت کرلی۔
حضرت پیر محمد عبد اللہ صاحبؓ
حضرت پیر محمد عبد اللہ صاحب فرماتے ہیں کہ میں 1904ء میں یہاں آیا تو سلسلہ کا سخت مخالف تھا۔ کسی نے کہا چالیس دن دعا کرو تو تمہیں ہدایت مل جائے گی۔ چنانچہ میں نے باقاعدہ نمازیں پڑھنی شروع کر دیں اور دعا بھی کرتا رہا۔ اسی اثناء میں ایک دفعہ عصر کے وقت غنودگی کی حالت میں حکیم عبدالرحمٰن صاحب کاغانی (جو ان دنوں میری طرح طب کا علم سیکھ رہے تھے) میرے سامنے کشف کی حالت میں آگئے اور ایک مسواک مجھے دے کر کہا کہ مولوی نورالدین صاحبؓ نے آپ کو یہ مسواک دی ہے، ہم اتنی مدت سے بیٹھے ہیں ہمیں تو انہوں نے مسواک نہیں دی۔ مسواک کا لینا تھا کہ نظارہ بدل گیا۔ اس وقت میں خلیفہ اولؓ کے مطب کے کوٹھڑی میں بیٹھاہوا تھا جب یہ نظارہ دیکھا۔ یہ دیکھ کر دل میں ایک شگفتگی پیدا ہوئی۔
پھر ایک رات دیکھا کہ میں حضرت خلیفہ اولؓ کے مطب میں بیٹھا ہوا ہوں۔ حضرت مسیح موعودؑ اس جگہ بیٹھے ہیں جہاں حضرت خلیفہ اولؓ مطب کیا کرتے تھے اور لوگ ان کے سامنے بیٹھا کرتے تھے۔ اس نظارہ میں حضرت خلیفہ اولؓ نظر نہیں آئے۔ چند اشخاص حضرت مسیح موعودؑ کے گرد جمع ہیں۔ میں بھی ایک آدھ گز کے فاصلہ پر ہوں اور کہہ رہا ہوں کہ مجھے کوئی نہیں پوچھتا۔ حضرت اقدسؑ نے مجھے اپنے پاس بلاکر فرمایا: آپ میرے پاس کبھی آئے ہیں جو کہتے ہیں کہ مجھے کوئی نہیں پوچھتا۔ تو اس کے جواب میں مَیں نے عرض کیا کہ اب جو میں آگیا ہوں۔ فرمایا۔ اللہ فضل کردے گا۔ یہ نظارہ دیکھ کر تمام اعتراضات جو دل میں تھے، یکے بعد دیگرے مٹنے شروع ہوئے حتیٰ کہ 15؍ستمبر1905ء کو مَیں نے بیعت کر لی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں