ہمارے لئے دعا کرنا ناگزیر ہے
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍جولائی2007ء میں مکرم پروفیسر راجا نصر اللہ خان صاحب کا ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں دعا کی اہمیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: (اے رسول) تو ان سے کہہ دے کہ میرا رب تمہاری پرواہ ہی کیا کرتا ہے اگر تمہاری طرف سے دعا (اور استغفار) نہ ہو۔
دراصل دعا اور استغفار کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔ اس لئے حدیث شریف میں آتا ہے کہ استغفار بہترین دعا ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’خوب سمجھ لو کہ اگر تم آہ و بکا اور عجز و انکسار میں سستی کرو گے تو خدا کو تمہاری کیا پرواہ ہے۔ … کئی لوگ صرف فرض عبادت کو ضروری سمجھتے ہیں اور دعائیں اور ذکر الٰہی کرنے سے غافل رہتے ہیں مگر یہ بھی دہریت کی ایک رگ ہے۔ جب کوئی قوم ذکر الٰہی کو چھوڑ دیتی ہے تو ایک فضول چیز کی طرح نکال کر پھینک دی جاتی ہے۔‘‘
حدیث شریف میں دعا کو عبادت کا مغز بتایا گیا ہے۔ دراصل انسان کی پیدائش کی غرض ہی اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنا اور اس سے اپنی ہر حاجت عرض کرنا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس بندے پر ناراض ہوتا ہے جو اس کی جناب میں دعا نہیں کرتا۔ نیز آنحضرت ﷺ فرماتے ہیں کہ اگر تم چاہتے ہو کہ مصیبت میں اللہ تعالیٰ تمہاری دعا سنے تو عافیت اور خوشحالی کے دنوں میں دعا جاری رکھو۔
حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں: ’’جو شخص دعا کو نہیں چھوڑتا اس کے دین و دنیا پر آفت نہ آئے گی‘‘۔
دعا کی مثال ایک خزانے یا جمع شدہ پونجی کی طرح ہے جو مشکل کے وقت بندے کے کام آتی ہے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ کی وفات کے بعد حضرت اماں جانؓ نے اپنے بچوں سے فرمایا: ’’بچو! گھر خالی دیکھ کر یہ نہ سمجھنا کہ تمہارے ابا تمہارے لئے کچھ نہیں چھوڑ گئے۔ انہوں نے آسمان پر تمہارے لئے دعاؤں کا بڑا بھاری خزانہ چھوڑا ہے جو تمہیں وقت پر ملتا رہے گا‘‘۔
دعا اس یقین کے ساتھ کرنی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں سب خیر اور خزانے ہیں اور اگر وہ کسی کو کوئی نعمت عطا کرنا چاہے یا دعا کرنے والے کی دلی مراد پوری کرنا چاہے تو اس کی بادشاہت میں خیروفضل اور لطف و کرم کی کبھی کمی واقع نہیں ہوسکتی۔
’’تذکرۃ الاولیاء‘‘ میں لکھا ہے کہ ایک دفعہ بلخ میں سخت قحط سالی ہوگئی۔ ایک دن دنیا کے پیچھے سرگرداں ابو علی شفیق بلخی بازار سے گزر رہے تھے کہ انہوں نے ایک غلام کو دیکھا جو بہت خوش اور مطمئن نظر آتا تھا۔ آپ نے اس سے اس بے فکری کی وجہ پوچھی تو وہ بولا کہ میرے آقا کے پاس غلے کا انبار ہے۔ وہ مجھے کبھی بھوکا نہ رکھے گا تو پھر میں کیوں فکر اور غم کروں۔ یہ سن کر حضرت ابو علی شفیق بلخی کے دل پر بہت اثر ہوا اور آپ فوراً اللہ کے حضور جھکے اور عرض کیا: اے اللہ جب ایک غلام کو اپنے آقا پر اس قدر اعتماد ہے تو میں تیری ذات پر اعتماد کیوں نہ کروں جو تمام آقاؤں کا آقا اور بادشاہوں کا بادشاہ ہے۔ اس واقعہ نے آپ کی کایا پلٹ دی اور آپ اپنے وقت کے عالم ربانی کہلائے۔
قبولیت دعا کے سلسلہ میں اول اور اہم بات یہ ہے کہ دعا کرنے والے کا کامل یقین ہو کہ اللہ تعالیٰ قادر و توانا ہستی ہے جس قبضۂ قدرت میں سب اسباب اور اثمار اور نتائج ہیں اور دعا پوری استقامت اور باقاعدگی سے جاری رکھنی چاہئے۔ پورے الحاح اور گریہ وزاری سے دعا کرنا اس کی قبولیت کو نزدیک تر کر دیتا ہے۔
دعا کرنے کے ساتھ ساتھ پورے اخلاص اور محبت کے ساتھ درور شریف بھیجنے کا التزام بھی ضروری ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ دعا آسمان پر جانے سے رُکی رہتی ہے جب تک سرور کائنات ﷺ پر درود نہ بھیجا جائے۔ حضرت مسیح موعود نے اپنی تمام تر روحانی ترقیات کو رسول اللہ ﷺ کا فیضان اور درود شریف کا ثمرہ قرار دیا ہے۔
دوسروں کے لئے دعا کرنے سے انسان کی اپنے حق میں کی گئی دعائیں بھی قبول ہوتی ہیں۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اگر کوئی شخص دوسرے کو بتائے بغیر اس کے حق میں کوئی دعا کرتا ہے تو خدا کا ایک فرشتہ یہ دعا کرتا ہے کہ اے اللہ! جو دعا یہ شخص اپنے بھائی کے لئے کر رہا ہے وہی دعا پہلے اس کے حق میں قبول فرما۔
قبولیت دعا کے لئے صدقہ وخیرات کرنے کی بھی بہت تاکید آئی ہے۔ صدقات سے بلائیں ٹل جاتی ہیں۔ اسی طرح ہر صاحب ایمان پر فرض قرار دیا گیا ہے کہ دوسروں کا حق نہ کھائے اور ان پر زیادتی نہ کرے۔ یعنی رزق حلال کھانے والا ہو۔ اس طرح کسی پر کسی قسم کا ظلم کرنا یا کسی کمزور کو اپنے ستم و غضب کا نشانہ بنانا بھی قطعاً حرام ہے۔ ان ساری چیزوں پر غور کرنا چاہئے تاکہ قبولیت دعا کے امکانات زیادہ ہوں۔
ایک حکایت ہے کہ ایک ظالم بادشاہ نے کسی بزرگ سے عرض کیا کہ میری مشکل دُور ہونے کے لئے دعا کریں۔ انہوں نے جواب دیا کہ اے بادشاہ! تمہارے ظلموں کی وجہ سے اَن گنت رعایا تمہارے خلاف بددعائیں کر رہی ہے تو ان کے مقابل میں میری دعا تمہیں کیا فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ پہلے اپنے ہاتھ مخلوق خدا پر ظلم سے روکو تا کہ آسمان والا تم پر رحم کرے۔
ایک حکایت یوں درج ہے کہ ایک ظالم و جابر بادشاہ نے ایک بزرگ سے پوچھا کہ کونسی عبادت افضل ہے۔ اس دانشمند نے جواب دیا کہ تمہارے لئے دوپہر کو زیادہ سے زیادہ سوجانا بہتر ہے تا کہ کم از کم اس وقت مخلوق خدا تمہارے ظلم سے محفوظ رہے۔
بعض دفعہ انسان گھبرا جاتا ہے کہ اس کی دعا قبول نہیں ہو رہی۔ اہل اللہ کا یہ قول ہے کہ دعا کے تین نتائج بر آمد ہوتے ہیں۔ اول دعا کا من و عن قبول ہو جانا۔ دوم ظاہری طور پر دعا کے قبول ہونے کی بجائے کسی بلا کا ٹل جانا۔ سوم آخرت میں دعا کا اجر عطا ہونا۔ چنانچہ دعا کرتے چلے جانا چاہئے اور راضی برضا رہنا چاہئے کیونکہ اللہ تعالیٰ ہمارا سب سے بڑا خیرخواہ ہے۔
حضرت پیر افتخار احمد صاحبؓ فرماتے ہیں: ’’میں نے حضرت مسیح موعودؑ سے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ یہ جو فرماتا ہے ادعونی استجب لکم۔ اس میں ’ل‘ کا مطلب ہے کہ جس میں تمہارا فائدہ ہوگا‘‘۔
حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک مناظرے کے سلسلہ میں مجھے لاہور سے حافظ آباد جانا تھا اور سانگلہ ہل جنکشن پر ٹرین تبدیل کرنی تھی۔ چنانچہ اگلی ٹرین کے متعلق دریافت کرنے پر ایک شخص نے بتایا کہ وہ گاڑی سامنے کے پلیٹ فارم پر تیارکھڑی ہے۔ مَیں اپنا بھاری بھر کم سامان اٹھا لیا اور تیز قدموں سے چل پڑا۔ اتنے میں وہ گاڑی بھی روانہ ہوگئی۔ میں اس کام کی اہمیت کے پیش نظر دوڑتا ہوا اور دعا کرتا ہوا گارڈ کے ڈبے تک جا پہنچا اور بڑے الحاح سے اسے کہا کہ مجھے بہت ضروری کام ہے گاڑی ذرا روکیں یا آہستہ کریں تا کہ میں سوار ہوجاؤں میں اس طرح گاڑی کے ساتھ ساتھ دوڑتا جاتا تھا اور اللہ تعالیٰ سے بڑے تضرع سے دعا کر رہا تھا کہ پلیٹ فارم ختم ہوگیا میں سخت مایوس اور رنجیدہ ہوا۔ اسی حالت میں پلیٹ فارم پر بیٹھ گیا تو ایک شخص نے مجھے اس طرح دیکھ کر افسوس کا اظہار کیا اور کہا کہ آپ کو کہاں جانا تھا۔ میں نے کہا کہ مجھے ایک نہایت ضروری کام کے لئے حافظ آباد پہنچنا تھا۔ اس نے کہا کہ حافظ آباد کی گاڑی تو سامنے کھڑی ہے اور چند منٹ میں روانہ ہوگی۔ یہ گاڑی تو لاہور جارہی تھی۔ جونہی میں نے یہ بات سنی میرے شکوہ و شکایت کے خیالات جذبات تشکر سے بدل گئے کہ کس طرح اللہ تعالیٰ نے میری دعا کو جو میرے لئے بہت ہی نقصان دہ تھی ردّ کر کے مجھے تکلیف اور نقصان سے بچا لیا۔
حضرت مصلح موعودؓ کے یہ الفاظ بار بار پڑھنے کے لائق ہیں:
’’اس طرح بھی اللہ تعالیٰ دعا قبول کرتا ہے جو کہ انسانی نظر میں ردّ کی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ خداتعالیٰ کی حکمت ہے لیکن نادان گھبراتا ہے کہ میری دعا قبول نہیں ہوئی حالانکہ اس کا قبول ہونا یہی ہوتا ہے کہ ردّ کی جائے۔‘‘