ہم سب کے محبوب – حضرت خلیفۃالمسیح الرابع
جماعت احمدیہ برطانیہ کے ’’سیدنا طاہر نمبر‘‘ میں مکرم لئیق احمد طاہر صاحب مبلغ سلسلہ انگلستان بیان کرتے ہیں کہ
میری ابتدائی یادوں میں وہ نقشہ اب بھی محفوظ ہے جب حضور ربوہ کے قائد تھے اور ربوہ کی تزئین کے لئے ہونے والے وقارِ عمل کے دوران مٹی کی تگاری اُٹھاتے ہوئے ناہموار جگہ پر مٹی ڈال رہے تھے ۔آپ کی دلنواز شخصیت کی وجہ سے دِل میں آپ کے لئے اُس زمانہ میں بھی محبت کا سمندر موجزن تھا۔
جب خاکسار جامعہ احمدیہ میں موازنہ مذاہب کا مضمون پڑھانے کی خدمت پر مامور تھا تو جامعہ کے طلبائے قدیم کی ایک انجمن بنانے کی تجویز ہوئی۔ اس کے مختلف نام پیش کیے گئے بعض نے ’’ مجلس طلبائے قدیم جامعہ احمدیہ ‘‘ کا نام تجویز کیا۔ میری بھی یہی رائے تھی۔ حضورؒ نے ہنس کر فرمایا کہ آپ اتنے قدیم تو نہیں لگتے، اس کا نام مجلس طلبائے سابق جامعہ احمدیہ رکھ لیں ۔ خاکسار نے حضور کے ساتھ اس مجلس کے جنرل سیکریٹری کے طور پر پانچ سال تک کام کیا۔ حضور کی ذات اس مجلس کی روح ورواں تھی۔ ایک بار حضور نے انسانی ذہن کی غیر معمولی اور اعجازی استعدادوں سے متعلق حیرت انگیز انکشافات پر مشتمل چھ تقاریر فرمائیں جن سے نامور علماء نے بھی استفادہ کیا اور سب حضور کے وسعتِ مطالعہ اور سحر انگیز بیان پر سر دھنتے تھے۔
جلسہ سالانہ کے دوران دفتر جلسہ سالانہ ہی میں ایک شامیانہ نمازوں کی ادائیگی کیلئے مختص تھا۔حضور نائب افسر جلسہ سالانہ تھے۔آپ نے مغرب وعشاء کی نمازوں کی امامت شروع کی۔نمازِ مغرب پڑھاتے ہی حضور نے فرمایا: مجھے تو اب یاد آیا ہے کہ میرا وضو نہیں تھا۔ پھر مکرم میر محمود احمد صاحب سے فرمانے لگے: محمود! تم دونو ں نمازیں پڑھادو، میں وضو کر کے شامل ہو جاؤں گا ۔ انہوں نے فرمایا: نہیں ہم انتظار کریں گے۔ چنانچہ حضور وضو کرکے آئے اور نمازیں پڑھائیں۔ یہ واقعہ بتاتا ہے کہ آپ کو کسی لومۃ لائم کی پرواہ نہیں تھی صرف اللہ کے خوف اور محبت میں سرشار وجود تھا۔
جب خاکسار نائب وکیل التبشیر تھا تو حضور اور اہلِ قافلہ کے ویزوں کے سلسلہ میں اسلام آباد گیا ہوا تھا ۔خاکسار کی بیٹی بہت بیمار تھی۔ حضور کی خدام کی دلجوئی کا یہ عالم تھا کہ روزانہ دفتر کا آدمی بچی کا حال پوچھنے آتا رہا۔ اسی طرح جب خاکسار کے سُسر محترم مولانا ابوالمنیر نورالحق صاحب ربوہ میں وفات پا گئے تو اُن کی بیماری میں حضورؒ روزانہ بعض دفعہ دو دو بار ادویہ تجویز فرماتے اور دعاؤں اور ہدایات سے نوازتے۔ ان کی وفات پر حضور کی طرف سے کھانا بھجوایا گیا۔
1997 ء کے آخر میں خاکسار کو پیشاب میں خون آنا شروع ہوا۔ خاکسار نے انڈو سکوپی کروانے کے لئے کلاس سے ایک دن کے لئے رخصت لی۔ جانے سے ایک روز قبل جب حضور کلاس سے نکلے تو میں نے دعا کیلئے خدمتِ اقدس میں درخواست کی۔ فرمایا: پتھری ہے اور کچھ نہیں بربرس (Q) لینا شروع کر دیں۔فکر نہ کریں، میں دعا بھی کروں گا۔جائیں اور خیریت سے واپس آئیں۔
خاکسار کی تین چار سال میں تین بار انڈو سکوپی ہوئی۔ کرائسٹ چرچ کے ڈاکٹر نے کہا کینسر معلوم ہو تا ہے۔ ایلنگ ہسپتال میں ڈاکٹر کلٹر بکس نے بڑی محنت کی لیکن کچھ پتہ نہ لگا کہ کیوں ہر چھ ماہ بعد یک دم شدید درد سے پیشاب میں خون آنے لگتا ہے۔ ایلنگ ہسپتال کے ایک بڑے کنسلٹینٹ نے میری بیماری کی تفصیلی رپورٹ دیکھتے ہی کہا: پتھری کے سوا کچھ نہیں ۔چنانچہ ڈاکٹر سالہا سال کے بعد اُسی نتیجہ پر پہنچے جبکہ حضور ؒ نے چند سیکنڈ میں یہی تشخیص فرمائی۔
خاکسار کی بیٹی کو اتفاقاً Cyst ہوگیا۔ ہم نے حضوؒر سے ملاقات کی۔ فرمایا: دفتر سے اس کا بنا ہوا نسخہ لے لیں۔ ایک ماہ میں تکلیف بڑھ گئی تو حضورؒ نے نسخہ ملاحظہ کرکے فرمایا Cyst کے دو تین نسخے ہیں۔ یہ نسخہ غلط ہے۔ چنانچہ ڈیوٹی پر مامور ڈاکٹر اب زیادہ توجہ سے ادویہ دینے لگے لیکن تکلیف بڑھتی چلی گئی۔ دو بار Key hole Surgery اور ایک بار میجر آپریشن ہوا۔ خاکسار مسلسل دعا کیلئے عرض کرتا رہا اور آخری خط میں لکھا کہ ڈاکٹروں کے نزدیک اس کا کوئی علاج نہیں ہے۔ ایک دن دفتر کے عملہ کے ایک دوست نے مجھے بتایا کہ حضورؒ نے آج بڑے درد کے ساتھ آپ کا اور بیٹی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ پہلے لئیق صاحب کو دل کی شدید تکلیف اور بائی پاس آپریشن سے گزرنا پڑا اور اب بیٹی کی طرف سے فکرمند ہیں۔
میں یقینِ کامل سے کہہ سکتا ہوں کہ حضور کی اس توجہ نے یکدم اعجازی نشان کی حیثیت اختیار کرلی۔ ظاہر ہے اولاد کے لئے سبھی والدین دعائیں اور تدبیر کرتے ہیں یہی ہماری بھی کیفیت تھی۔ خاکسار نے ایک رات خواب دیکھا کہ صرف Sepia 30 اس کا علاج ہے۔ خاکسار نے اُسی روز تمام دوائیاں بند کر کے صرف یہی دوا شروع کروادی۔ اس کے بعد بحمداللہ تکلیف کا نام ونشان نہیں۔ خود ڈاکٹر بھی حیران ہیں لیکن مجھے معلوم ہے کہ یہ محض اللہ تعالیٰ کا فضل احسان ہے جسے جذب کرنے کے لئے حضور ؒ کی توجہ اور دعائیں ہمارے شامل حال ہوئیں۔