ہنگری
ہنگری ایک ایسا ملک ہے جسے کوئی سمندر میسر نہیں۔ روسی گھڑسوار خانہ بدوش قوم Magyars نے 896ء میں اس کے کچھ علاقہ پر قبضہ کر کے ہنگری مملکت کی بنیاد ڈالی۔ سولہویں صدی میں ترکوں نے اس پر قبضہ کرلیا اور 1699ء میں آسٹرین اس ملک پر قابض ہوگئے لیکن کچھ عرصہ بعد مقامی لوگوں نے روسی فوج کی مدد سے حکومت حاصل کر لی، البتہ سیاسی مصلحت کے ماتحت یہاں ہنگری اور آسٹریا کی مخلوط حکومت قائم ہوئی۔ پہلی عالمی جنگ کے بعد ہنگری کے پاس اصلی ملک کا تیسرا حصہ رہ گیا اور باقی تقسیم ہو کر چیکو سلواکیہ ، رومانیہ اور یوگوسلاویہ بن گیا۔ 1930ء میں ہنگری جرمنی کے زیر اثر آگیا اور جنگ عظیم دوم میں ہنگری نے جرمنی کا ہی ساتھ دیا۔ پھر جنگ کے بعد یہ ملک روس کے زیراثر آگیا۔ 1956ء میں یہاں ہونے والی آزادی کی کوشش کو روسی فوجوں نے کچل دیا لیکن کیمونزم کے خاتمہ کے بعد سے ہنگری ایک آزاد مملکت ہے۔ موجودہ آبادی تقریباً ایک کروڑ چھ لاکھ بیس ہزار نفوس پر مشتمل ہے جن میں سے 77% عیسائی ہیں۔
تحریک جدید کے تحت ہنگری میں پہلا احمدیہ مشن ’’بوڈاپسٹ‘‘ میں محترم چوہدری احمد خان صاحب ایاز نے فروری 1936ء میں قائم کیا تھا۔ 1937ء میں محترم محمد ابراہیم ناصر صاحب نے ان سے چارج لے لیا اور محترم ایاز صاحب پولینڈ چلے گئے۔ محترم محمد ابراہیم ناصر صاحب 12 ؍نومبر 1912ء کو گھوگھیاٹ ضلع بھیرہ میں پیدا ہوئے۔ تحریک جدید کے تحت ابتداء میں وقف کیا اور ہنگری بھیجے گئے۔ نومبر 1938ء میں واپس تشریف لائے اور حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد پر B.Ed. کرنے کے بعد تعلیم الاسلام ہائی سکول میں مدرس ہوگئے۔ 1953ء میں ریاضی میں M.A. کیا تو تعلیم الاسلام کالج میں تقرری ہوئی۔ 8؍جولائی 1968ء کو آپ نے وفات پائی۔
محترم نذیر احمد ڈار صاحب کا ایک مضمون بعنوان ’’1937ء کا ہنگری‘‘ روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 2؍مارچ 1996ء میں شامل اشاعت ہے۔