ہومیوپیتھی کے ذریعہ خدمت خلق

روزنامہ الفضل ربوہ کے سالانہ نمبر 2011ء میں مکرم مقبول احمد ظفر صاحب کے قلم سے ایک مضمون ہومیوپیتھی کے ذریعہ خدمت خلق کے حوالہ سے جماعت احمدیہ کی خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے ہومیوپیتھی کے ذریعہ جماعت کو خدمت خلق کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اس کے شفا بخش فلسفہ کو بہت مفید قرار دیا۔ آپؓ نے فرمایا: ’’ ایک قسم علاج کی ہومیوپیتھی ہے جس کو علاج بالمثل کہتے ہیں۔ اس قسم کا علاج کرنے والے کہتے ہیں جب سے انسان پیدا ہوا ہے، اور وہ مختلف امراض میں مبتلا ہوتا ہے، اس کو ان بیماریوں سے شفا پانے کے لئے ایک ایسا گُر بتا دیا ہے کہ اس کے استعمال سے فائدہ ہوتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جس چیز سے بیماری پیدا ہوتی ہے اس کی قلیل مقدار دینے سے وہ دُور ہو جاتی ہے۔ مثلاً افیون قبض کرتی ہے لیکن جب افیون نہایت ہی قلیل مقدار میں دی جائے تو وہ قبض کشا ہو جاتی ہے۔ اس غرض کے لئے انہوں نے کیمیاوی ترکیب سے ہر چیز کی تاثیر کو نکال لیا ہے‘‘۔
٭ حضرت مصلح موعودؓ کی تجویز کردہ ادویات سے بیشمار لوگوں نے استفادہ کیا جن میں سے ایک حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ بھی تھے۔ چنانچہ ایک روز جب آپؒ کی ضدی سردرد ایک ہومیوپیتھی دوا سے فوراً دُور ہو گئی تو پھر ہومیو پیتھی کا یہی کرشمہ آپؒ کے ذریعہ ظاہر ہوکر بے مثال خدمت خلق اور دنیائے طبّ پر اَنمٹ نقوش چھوڑنے والی پریکٹس کا باعث بنا۔ آپؒ خود فرماتے ہیں: ’’خداتعالیٰ نے صفت رحمانیت کے تابع جو شفا کا مضمون پیدا کیا ہے جس کا ذکر حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں ان میں ایک ہو میو پیتھی شفا کا نظام بھی ہے اور یہ الٰہی نظام شفا کے قریب تر ان معنوں میں ہے کہ اس کی اتنی باریکیاں ہیں کہ ان پر غور کرنے سے انسان خدا کی ہستی کا لازماً قائل ہو جاتا ہے ۔ ناممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت کے بغیر یہ شفا کا مضمون سکھایا جاتا۔‘‘
٭ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ کے ذریعہ سے ہی ہومیوپیتھی کا فلسفہ عام آدمی کے دسترس میں آگیا۔ اس کا سب سے بڑا ذریعہ آپ کی کتاب ’’ہومیوپیتھی علاج بالمثل‘‘ ہے۔ اس کتاب میں متعدّد ایسی مثالیں شامل ہیں کہ عام آدمی نے کس طرح حضورؒ کی ہو میو پیتھی سے استفادہ کرکے خطرناک امراض سے نجات پائی۔ چنانچہ زیرنظر مضمون میں حضورؒ کے بیان فرمودہ مختلف نسخے اور آپؒ کی دست مسیحائی کے کئی نمونے پیش کئے گئے ہیں۔
حضورؒ خود فرماتے ہیں: ’’ایسے مریض جن کے مرض کو مہلک قرار دیا جا چکا تھا اور جن کے بچنے کی کوئی امید نہیں رہی تھی ، خدا تعالیٰ کے فضل سے آج بھی زندہ ہیں۔ ……. ایک لمبی فہرست موجود ہے جس کے ساتھ ڈاکٹروں اور مریضوں کے بیانات بھی شامل ہیں‘‘۔
٭ حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ نے نہ صرف اپنے دفتر وقف جدید کے تحت باقاعدہ فری ہومیو ڈسپنسری کا آغاز فرمایا بلکہ وقف جدید کے تحت تیار ہونے والے معلّمین کو بھی یہ طبّ سکھائی اور ہومیوپیتھی ڈگریز لینے کے لئے بھی اُن کی حوصلہ افزائی فرمائی تاکہ وہ بے خوف و خطر مریضوں کی مفت خدمت کرسکیں۔ چنانچہ پاکستان بھر میں لکھوکھہا انسان جماعت کی اس خدمت سے مستفید ہونے لگے جن میں اکثریت غرباء کی تھی۔ خلیفۃالمسیح بننے کے بعد MTA پر آپؒ کی طرف سے ہومیوپیتھی سکھانے کے لیکچرز کے بعد تو دنیابھر کے بے شمار احمدی اس خدمت کے میدان میں نکل آئے اور کئی ممالک میں مختلف مقامات پر متعدّد فری ڈسپنسریاں کام کرنے لگیں۔
٭ 1992ء میں بواڈی غانا میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی اجازت اور دعاؤں سے نصرت جہاں سکیم کے تحت پہلے ہومیو کلینک کا افتتاح عمل میں آیا۔ یہاں ڈاکٹر محمد ظفراللہ صاحب نے حضورؒ کے ارشاد پر سستے داموں ہومیوپیتھی کی دوائیں، گولیاں اور شیشیاں تیار کروائیں اور یورپ و افریقہ میں بھجواتے رہے۔ پھر افریقی بیماریوں پر ہومیو نقطہ نگاہ سے ریسرچ کرنے کی غرض سے حضورؒ کی اجازت سے غانا میں ہی طاہر ہومیو کمپلیکس کا آغاز ہوا۔
٭ ربوہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی اجازت سے طاہر ہومیو پیتھک ہاسپٹل اینڈ ریسرچ انسٹیٹیوٹ کا آغاز 2000ء میں ہوا جس کی تعمیر کے لئے آپؒ نے چھ کنال آٹھ مرلے پر مشتمل قطعہ عنایت فرمایا تھا۔ اس پر تعمیر ہونے والی عمارت بیسمنٹ سمیت چار منزلوں پر مشتمل ہے جس کا کُل رقبہ 58ہزار مربع فٹ ہے۔ یہ ادارہ مجلس خدام الاحمدیہ پاکستان کے زیر انتظام کام کررہا ہے۔ یہاں سے صرف ایک سال (2010ء میں) قریباً سوا لاکھ مریضوں نے استفادہ کیا جن میں ایک تہائی سے زائد غیرازجماعت تھے۔ (مختلف خطرناک امراض میں مبتلا مریضوں کی معجزانہ شفا کے چند واقعات بھی اس مضمون کی زینت ہیں)۔ اس ادارہ میں نئی ادویات کی تیاری کے علاوہ وسیع پیمانے پر پروونگ اور تجربات کئے جاتے ہیں۔ ادویات کی بڑے پیمانے پر تیاری کے لئے ایک جدید فارمیسی بھی قائم ہے۔ مکرم ڈاکٹر وقار منظور بسرا صاحب کی زیرنگرانی ڈاکٹروں کی ایک بڑی ٹیم یہاں خدمت کی توفیق پارہی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں