ہومیو ڈاکٹر محترمہ امۃ النصیر صاحبہ
(مطبوعہ الفضل ڈائجسٹ 11 جنوری 2019ء)
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9 نومبر 2012ء میں مکرم جمیل احمد انورصاحب مربی سلسلہ اپنی والدہ محترمہ ڈاکٹر امۃالنصیر صاحبہ (بنت مکرم محمد اسحاق ارشد صاحب آف احمدیہ ماڈرن سٹور گولبازار ربوہ) کا ذکرخیر کرتے ہیں جنہوں نے 29جنوری 2012ء کو وفات پائی۔
محترمہ امۃالنصیر صاحبہ 23 نومبر1951ء کو پیدا ہوئیں۔ آپ کُل آٹھ بہنیں اور ایک بھائی تھے۔ بچپن سے ہی آپ کو علم حاصل کرنے کا بہت شوق تھا۔ آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ریاضی میں ایم ایس سی کی۔ اس کے بعد ملازمت کا ارادہ کیا تو آپ کے والد صاحب نے کہا کہ مَیں نے تم لوگوں کو نوکریاں کرنے کے لئے نہیں پڑھایا، جاکر دین کی خدمت کرو یا بِلامعاوضہ تدریس کرلو۔ چنانچہ آپ نے لجنہ ہال ربوہ میں اعزازی خدمت بجالانا شروع کردی۔ 1978ء میں آپ کی شادی اپنے خالہ زاد مکرم اطہر احمد نظام صاحب سے ہوئی۔ شادی کے بعد بعض مشکل اور نامساعد حالات میں بھی آپ نے بڑے صبر اور شکر سے گزارہ کیا اور اپنے خاوند کی معین و مددگار بنی رہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دو بیٹوں اور ایک بیٹی سے نوازا۔ چھوٹے بیٹے مکرم حافظ عطاء الغالب صاحب فِن لینڈ میں نیشنل سیکرٹری تربیت کے طور پر خدمت بجالارہے تھے۔
مرحومہ میں خدمت دین اور خدمت انسانیت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ بیماروں کی خدمت کے لئے آدھی رات کو بھی اُٹھ جاتیں۔ آپ کا حلقہ احباب زیادہ تر غریب ، تنگدست اور پریشان حال لوگوں پر ہی مشتمل ہوا کرتا تھا۔ اُن کی غمگساری اور خدمت کرنے کو کارِثواب جانتیں اور دردِ دل سے اُن کیلئے دُعائیں کرتیں۔
شادی کے بعد لاہور میں تدریس کے شعبہ سے منسلک رہیں اور ساتھ ساتھ جماعتی خدمات میں بھی پیش پیش رہیں۔ لاہور کے قریب قصبہ کوٹ عبدالمالک میں تقریباً گیارہ سال رہیں۔ وہاں پر قریباً دس سال صدر لجنہ رہیں اور اتنی محنت سے یہ خدمت بجالائیں کہ یہ مجلس دس سال پاکستان کی دیہی مجالس میں اوّل آتی رہی۔
مضمون نگار 1997ء میں جامعہ احمدیہ میں داخل ہوئے تو ایک سال بعد آپ کے گھر والے بھی ربوہ شفٹ ہو گئے۔ یہاں پر مرحومہ نے نصرت جہاں اکیڈمی میں تدریس شروع کی اور بعد میں طاہر ہومیو ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں بھی خدمت کی توفیق پائی۔ ڈاکٹر بن کر خدمت کرنے کی خواہش بچپن سے ہی آپ کے دل میں تھی۔ اسی شوق کے پیش نظر اپنی بیٹی کو ڈاکٹر بنایا۔ خود بھی 1991ء میں DHMSکیا اور کوٹ عبد المالک میں اپنا کلینک بھی بنایا۔ ربوہ میں بھی طاہر ہومیو ریسرچ انسٹیٹیوٹ میں خدمت کے بعد اپنا کلینک بھی بنایا جہاں نہایت معمولی قیمت پر ادویات تجویز کرتیں۔ بلکہ غریب مریضوں کی اپنی گرہ سے مدد بھی کرتیں۔ دستِ شفا عطا ہونے کے لئے خود بھی دعا کرتیں اور دوسروں کو بھی دعا کے لئے کہتیں۔
چندہ جات میں بہت باقاعدہ اور اوّل وقت میں ادا کرنے والی تھیں۔ ایک ڈبہ رکھا ہوا تھا۔ کلینک یا کہیں سے بھی کوئی آمدن ہوتی تو اُس کا دسواں حصہ وہ ڈبہ میں ڈالتی جاتیں۔ اپنی زندگی میں ہی اپنی وصیت کا تمام چندہ اور حصہ جائیداد تک ادا کردیا۔ وقف جدید اور تحریک جدید اور ذیلی تنظیموں کے چندہ جات سال شروع ہوتے ہی خود دے کر آتیں۔ دیگر مالی تحریکات میں بھی حصہ لیتی رہتیں۔ صدقات دینے کے علاوہ غریب بچیوں اور غریب لڑکوں کی شادی کے مواقع پر بھی حتی الوسع اُن کی مالی معاونت کرتیں۔ کوٹ عبد المالک کی مقامی مسجد میں عورتوں کے لئے ہال کی تعمیر شروع ہوئی تو اپنے کمزور مالی حالات کے باوجود آپ نے بیس ہزار روپے پیش کئے ۔ اپنے مرحومین کی طرف سے بھی اکثر چندہ جات کی ادائیگی کرتیں۔ اپنی آخری بیماری میں مضمون نگار کو بھی یہی نصیحت کی کہ مرحومین کی طرف سے چندہ جات کی ادائیگی کا کام جاری رکھنا۔
مرحومہ کو اپنے بچوں کی روحانی ترقی کی طرف ہروقت توجہ رہتی تھی۔ نمازوں کی ادائیگی، چندہ جات کی بروقت ادائیگی اور قرآن کریم کی تلاوت کا پوچھتیں۔ آپ سب بہنوں کو قرآن کریم سے بہت محبت تھی۔ آپ جہاں بھی رہیں، خواتین کو قرآن کریم کا ترجمہ اور تفسیر پڑھاتی رہیں۔ خلافت سے بے انتہا عشق تھا۔ گھر میں خطبہ جمعہ پوری خاموشی اور احترام سے سنا جاتا۔ حضور انور کی ہرتحریک اور ہر حکم پر صف اول میں شامل ہوکر اطاعت کرتیں۔ شادی بیاہ کے موقع پر اس بات کا خصوصیت سے اہتمام ہوتا کہ حضور کے ارشادات کی خلاف ورزی نہ ہو اور کہیں کسی شادی پر ایسا ہوتے دیکھتیں تو سختی سے روکتیں۔