یاد محمودؓ

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 11؍مارچ 1998ء میں حضرت مصلح موعودؓ کی یاد میں مکرم مرزا عبدالحق صاحب کا ایک مضمون ’’مجلۃالجامعہ‘‘ سے منقول ہے۔ آپ بیان کرتے ہیں کہ مجھے آغاز جوانی سے ہی حضورؓ کی خدمت میں رہنے کا موقعہ ملا جبکہ آپؓ ابھی منصبِ خلافت پر فائز نہیں ہوئے تھے۔ میرے والدصاحب 1903ء میں فوت ہوچکے تھے اور میری رہائش اپنے بھائی عبدالرحمٰن صاحب کے پاس تھی جو بدقسمتی سے 1914ء میں غیرمبائعین میں شامل ہوگئے۔ 1917ء میں اُنہوں نے مجھے مزید تعلیم کے لئے لاہور بھیجا تو رہائش کا انتظام مولوی صدر دین صاحب کے پاس کروایا جہاں میں قریباً ایک ماہ ہی رہا تھا کہ ایک روز میں نے ایک کوٹھی پر ’’احمدیہ ہوسٹل‘‘ کا بورڈ دیکھا۔ میں نے اندر جاکرلڑکوں سے ملاقات کی جو سب داڑھیاں رکھے ہوئے تھے اور اُن کے چہروں سے نیکی ٹپکتی تھی۔ میں نے بھی اپنا سامان وہیں منگوالیا اور احمدیہ ہوسٹل میں داخل ہوگیا۔ گرمیوں کی تعطیلات میں جب شملہ گیا تو بھائی صاحب سے کُھلم کُھلا اختلاف ہوگیا۔ بحث مباحثہ کے بعد وہ مجھ سے مایوس ہوگئے اور ایک بار دباؤ ڈالنے کے بعد پھر کبھی سختی نہ کی۔ لیکن بھائی صاحب سے اختلاف کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے خیال فرمایا کہ شائد مجھے مالی تنگی نہ پیش آئے اس لئے از راہ شفقت اتنے ہی وظیفہ کی پیشکش فرمائی جو مجھے گھر سے خرچ ملتا تھا۔میں نے عرض کردیا کہ مجھے ضرورت نہیں لیکن مجھے احساس ہوگیا کہ میرے لئے اپنے حقیقی بھائی سے بہت زیادہ شفقت رکھنے والا انسان موجود ہے۔
1921ء میں B.A. کرکے میں شملہ میں ملازم ہوگیا۔ پھر ملازمت چھوڑ کر لاء کالج میں داخلہ لیا لیکن پڑھائی کی طرف توجہ کم تھی اور دینیات کی طرف زیادہ اس لئے دوسرے سال کامیاب نہ ہوسکا اور پھر پڑھائی چھوڑ کر ہوم ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کرلی۔ یہ ڈیپارٹمنٹ موسم سرما میں شملہ سے دھلی منتقل ہو جاتا تھا اور قادیان سے یہ دوری میرے لئے ناقابل برداشت تھی اس لئے 25ء میں استعفیٰ دے کر قادیان چلا گیا جہاں احمدیہ سکول میں انگریزی پڑھانے لگا۔ حضورؓ بار بار فرماتے کہ LLB کے لئے داخلہ بھیج دو لیکن میں ٹال مٹول کرتا رہا تاکہ ایسا نہ ہو کہ LLB کے بعدمجھے قادیان سے باہر جانے کا حکم ہوجائے۔ ایک بار حضورؓ نے ایک سفر سے واپس تشریف لانے کے بعد دریافت فرمایا کہ داخلہ بھیج دیا ہے؟ عرض کیا ابھی نہیں۔ فرمایا فوراً بھیج دو۔ چنانچہ داخلہ بھیج دیا اور اُسی سال اللہ تعالیٰ نے کامیاب بھی فرما دیا۔ لیکن پھر وہی ہوا جس کا مجھے ڈر تھا یعنی حضورؓ نے حکم دیا کہ فوراً گورداسپور میں پریکٹس شروع کردوں۔ اُنہی دنوں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ نے رؤیا میں دیکھا کہ میں گورداسپور کے ڈپٹی کمشنر کے ساتھ ایک ہی چارپائی پر بیٹھا بے تکلّفی کے ساتھ باتیں کر رہا ہوں پھر ڈپٹی کمشنر نے کہا کہ وہ حضورؓ کی باتیں سننا چاہتا ہے جس پر یوں معلوم ہوا کہ حضورؓ وہاں تشریف لے آئے ہیں اور اُسے قرآن کریم پڑھ کر سناتے ہیں۔ اِس خواب کی تعبیر حضورؓ نے مجھے یہ فرمائی کہ اللہ تعالیٰ آپ کو دنیوی عزت دے گا اور آپ کی وجہ سے حکام کو سلسلہ کی طرف متوجہ کرے گا۔
حضرت مصلح موعودؓ کے حکم کے مطابق 2؍جنوری 1926ء سے میں نے گورداسپور میں پریکٹس شروع کردی اور تقسیم ملک تک وہیں رہا۔ ہر ہفتہ کی شام سائیکل پر میں قادیان چلا جاتا اور پیر کی صبح واپس آ جاتا۔ سارے سال میں شاید ہی کوئی ہفتہ ہوتا جبکہ قادیان نہ جاسکتا۔ حضورؓ کی کشش میرے لئے ایسی تھی کہ میں اُسے بیان نہیں کرسکتا اور یہ ہمیشہ بڑھتی ہی رہی۔
مکرم مرزا صاحب نے اپنے مضمون میں متعدد واقعات بھی تحریر کئے ہیں جن سے اظہار ہوتا ہے کہ حضرت مصلح موعودؓ اپنے خدام کے ساتھ کتنی شفقت فرمایا کرتے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں