یوم الفرقان اور اس کے شہداء
ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ فروری 2010ء میں مکرم محمدلقمان صاحب کے قلم سے غزوۂ بدر کے تین شہداء کا مختصر تعارف شائع ہوا ہے۔
سن 2 ہجری میں جب ایک ہزار مسلح لشکر کا مقابلہ کرنے کے لئے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم 313 نہتے، غریب اور کمزور لوگ لے کر میدان بدر میں آئے تو اپنے خدا کے حضور گریہ کناں ہوئے کہ: ’’اے اللہ! اگر تُو نے آج ان تھوڑے سے مسلمانوں کو ہلاک کر ڈالا تو پھر رُوئے زمین پر تیری عبادت کرنے والا کوئی نہ ہوگا‘‘۔
پھر دعا کی: ’’اے اللہ! ان (دشمنوں) کے دلوں میں رعب ڈال دے اور ان کے قدموں کو ڈگمگا دے۔‘‘
پھر آپؐ نے خدا تعالیٰ کی طرف سے مدد کے وعدہ کی نوید اپنے صحابہؓ کو یوں دی کہ : ’’تمہیں خدا کی طرف سے خوشخبری ہے کہ اللہ نے مجھ سے مدد کا وعدہ کیا ہے۔ خدا کی قسم! مجھے وہ جگہیں دکھائی دے رہی ہیں جہاں مشرکین کی لاشیں پڑی ہوں گی‘‘۔ یہی نہیں بلکہ آپ نے اپنی اس عاجزانہ دعا کے نتیجہ میں خدا سے خبر پا کر میدان جنگ میں بعض جگہوں پر نشان لگائے کہ اس جگہ فلاں سردار کی لاش ہوگی اور اس جگہ فلاں سردار کی لاش ہوگی۔
حق و باطل کے اس معرکے میں کفار کا غرور و تکبر خاک میں مل گیا اور 70 کفار میدان جنگ میں مارے گئے اور 70 ؍افراد قیدی بنا لیے گئے۔ قرآن کریم میں بدر کے دن کو ’’یوم الفرقان‘‘ قرار دیا گیا ہے اور اس معرکہ میں شریک تمام صحابہؓ کے عظیم درجات بیان فرمائے ہیں۔ جن صحابہؓ کو اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کی سعادت نصیب ہوئی اُن میں درج ذیل تین خوش نصیب بھی شامل تھے۔
حضرت عبیدہؓ بن الحارث بن عبدالمطلب
آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زاد تھے اور حضورؐ سے قریباً دس سال بڑے تھے۔ والدہ کا نام سخیلہ تھا۔ کنیت ابو الحارث یا ابومعاویہ تھی۔ آپ متوسط اندام، گندم گوں اور خوبصورت تھے۔ آپ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دارارقم میں پناہ گزین ہونے سے پہلے مشرف بہ اسلام ہوئے۔ ہجرت کرکے مدینہ آئے اور عبدالرحمنؓ بن سلمہ العجلائی کے مہمان بنے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کے اور حضرت عمیرؓ بن الحمام کے درمیان مؤاخات کروائی۔ دونوں غزوۂ بدر میں شہید ہوئے۔
سریہ عبیدہ بن الحارث: ہجرت کے آٹھویں ماہ آغاز شوال میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عبیدہؓ بن الحارث کو 60 مہاجرین کے ساتھ حجفہ سے دس میل کے فاصلہ پر ’احیاء‘ نامی مقام کی طرف بھجوایا اور آپ کو سفید جھنڈا عطا فرمایا جسے مسطح ؓ بن اثاثہ بن عبدالمطلب نے اٹھایا۔ تاریخ اسلام میں آپ دوسرے جرنیل تھے جنہیں لوائے ابیض عطا ہوا۔ آپ سے قبل ہجرت کے ساتویں ماہ میں آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت حمزہؓ کو ایک مہم پر مامور فرمایا اور انہیں یہ سفید جھنڈا عطا فرمایا تھا۔
حضرت عبیدہؓ اس مہم میں ’’رابغ‘‘ کے قریب پہنچے تو ابوسفیان کی سرکردگی میں دو سو مشرکین کی ایک جماعت سے مڈبھیڑ ہوئی لیکن چند تیروں کے تبادلہ کے سوا خونریز لڑائی کی نوبت نہیں آئی۔
بدر کا معرکہ: بدر کا معرکہ شروع ہوا تو عتبہ بن ربیعہ اپنے بھائی شیبہ اور بیٹے ولید کو لے کر میدان کارزار میں اترا اور مسلمانوں کو للکارا کہ ہم سے کوئی مقابلہ کرنے والا ہو تو نکل کر سامنے آئے۔ اس پر تین انصار جو آپس میں بھائی تھے میدان میں نکلے۔ انہوں نے کہا کہ ہم انصاری ہیں تو انہوں نے جواب دیا: ’ہمیں تم سے کوئی مطلب نہیں… ہم اپنی قوم کے لوگوں سے مقابلہ کریں گے‘۔ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان انصاری نوجوانوں کو واپس آنے کا حکم دیا۔ چنانچہ وہ واپس آگئے۔ اس وقت مشرکوں کی طرف سے کسی نے پکار کر کہا: ’’اے محمد! ہمارے سامنے ہماری برادری اور قوم کے لوگوں میں سے کسی کو بھیجو‘‘۔
اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے بنی ہاشم! اٹھو اور اپنے اس اعزاز کی بنیاد پر مقابلہ کرو جس کے تحت تم میں نبی کا ظہور ہوا ہے کیونکہ یہ لوگ اسے جھٹلانے اور اللہ کے نور کو بجھانے کے لیے آئے ہیں۔ عبیدہ بن حرث اٹھو، حمزہ اٹھو، علی اٹھو‘‘۔
حضرت حمزہؓ کا مقابلہ شیبہ سے ہوا۔ حضرت علیؓ کا مقابلہ ولید سے ہوا اور حضرت عبیدہؓ عتبہ سے برسر پیکار ہوئے۔ حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ نے اپنے مقابلین کو پہلے ہی وار میں ڈھیر کر ڈالا البتہ حضرت عبیدہؓ اور عتبہ کے درمیان تلواروں کے وار ہونے لگے۔ حضرت عبیدہؓ کی پنڈلی میں زخم آیا۔ پنڈلی کی ہڈی سے خون کی دھار نکل رہی تھی۔ حضرت حمزہؓ اور حضرت علیؓ نے اپنے دشمنوں کو ٹھکانے لگایا اور پھر آکر عتبہ کا کام تمام کیا اور زخمی عبیدہؓ کو اٹھا کر اپنے لشکر میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لٹا دیا۔ آنحضورؐ نے ان کے لیے اپنا گھٹنا پھیلایا اور حضرت عبیدہؓ نے اپنا رخسار آپؐ کے قدم مبارک پر رکھ کر عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا میں شہید نہیں؟ آپؐ نے فرمایا: ’’مَیں گواہی دیتا ہوں کہ تم شہید ہو‘‘۔ پھر عرض کیا یا رسول اللہ! ابوطالب مجھے دیکھتے تو انہیں یقین ہو جاتا کہ میں اُن سے زیادہ اُن کے اِس قول کا مستحق ہوں کہ
و نسلمہٗ حتی لضرع حولہ
ونذھل عن ابناء ناوالحلائل
ہم (محمد ا) کی حفاظت کریں گے یہاں تک کہ ان کے اردگرد مارے جائیں گے اور اپنے بچوں اور بیویوں سے غافل ہو جائیں گے۔
اختتامِ جنگ پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بدر سے واپس آئے لیکن زخم ایسے کاری تھے کہ جانبر نہ ہوسکے اور قریباً 63 برس کی عمر میں شہادت پائی اور مقام صفراء میں آپ کی تدفین ہوئی۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر مبارک میں آپؓ کو غیرمعمولی مقام حاصل تھا۔ ایک مرتبہ آپؐ کا قیام صفراء کے مقام پر ہوا تو صحابہؓ نے عرض کیا: یارسول اللہ! یہاں مشک کی لپٹ آتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’یہاں ابومعاویہ کی قبر ہوتے ہوئے تمہیں اس پر تعجب کیوں ہے!۔ ‘‘
حضرت عمیرؓ بن ابی وقاص
حضرت عمیرؓ بن ابی وقاص معروف صحابی اور فاتح ایران حضرت سعدؓ بن ابی وقاص کے چھوٹے بھائی تھے۔ بچپن سے ہی اپنے بڑے بھائی کی طرح سعادتمند فطرت پائی تھی۔ چنانچہ جب حضرت سعدؓ بن ابی وقاص نے اسلام قبول کیا تو اُس وقت عمیرؓ نہایت کمسن تھے اور باوجود اس کے کہ والدہ کی طرف سے سعدؓ کے اسلام قبول کرنے پر شدید ردّعمل کا اظہار کیا گیا تھا، عمیرؓ نے اپنے بھائی کا ہر لحاظ سے بھرپور ساتھ دیا اور عَلَم توحید کی سر بلندی کی مہمات میں اپنے بھائی کے نقش قدم پر ہی چلنا اپنا نصب العین بنایا۔
ہجرت مدینہ کے وقت حضرت عمیرؓ کی عمر صرف 14 برس کی تھی۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی دلبستگی کے لیے قبیلہ عبدالاشہل کے رئیس حضرت سعدؓ بن معاذ کے چھوٹے بھائی حضرت عمروؓ بن معاذ سے مؤاخات کروا دی جو کہ قریباً ان کے ہم عمر ہی تھے۔
میدان بدر میں جب صحابہ کرام آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد اکٹھے ہو رہے تھے تو عمیرؓ بن ابی وقاص بھی ہجوم میں چھپتے پھر رہے تھے۔ ان کے اس اضطراب کو بڑے بھائی نے محسوس کیا اور وجہ پوچھی تو عرض کیا کہ مَیں اس جنگ میں شریک ہونا چاہتا ہوں شاید خدا مجھے شہادت نصیب فرما دے۔ لیکن مجھے خوف ہے کہ آنحضورؐ کہیں مجھے چھوٹا قرار دے کر واپس نہ بھجوا دیں۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جب معائنہ کے لیے لشکر کی صف بندی ہوئی تو آپؐ نے عمیرؓ سے فرمایا کہ تم چھوٹے ہو لہٰذا واپس جاؤ۔ یہ حکم سن کر عمیرؓ بے اختیار رونے لگے۔ اُن کے اس جوش اور شوق شہادت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دل پر خاص اثر کیا اور آپ نے عمیرؓ کو جنگ میں شرکت کی اجازت مرحمت فرما دی۔
عمیرؓ ابھی کمسن تھے۔ اچھی طرح فنون حرب سے بھی آگاہ نہ تھے یہاں تک کہ میان میں تلوار بھی حضرت سعدؓ بن ابی وقاص نے باندھ کر دی۔ لیکن اسلام کے جھنڈے کی سربلندی کے لیے جس شوق کی ضرورت تھی باوجود کمسنی کے عمیرؓ میں اس کی کوئی کمی نہ تھی۔ اسی جذبہ کو لے کر یہ نو عمر بہادر کفار کی صفوں میں گھس گیا اور دیر تک بہادرانہ انداز سے مقابلہ کرتا رہا اور بالآخر عمرو بن عبدوُد کی تلوار سے اس کمسن مجاہد کی شہادت کی تمنّا پوری ہوئی۔ اس وقت آپؓ کی عمر صرف سولہ برس تھی۔
حضرت عاقلؓ بن ابی بکیر
حضرت عاقلؓ بن ابی بکیر کا تعلق بنی عدی بن کعب سے تھا۔ یہ چار بھائی تھے اور انہوں نے اکٹھے ہی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کا شرف حاصل کیا تھا۔ دوسرے بھائیوں کے نام ایاسؓ، خالدؓ اور عامرؓ تھے۔ دارارقم میں سلسلہ بیعت کا آغاز ہی ان چاروں بھائیوں سے ہوا تھا۔ چاروں بھائیوں نے اکٹھے اپنے اہل و عیال سمیت مدینہ ہجرت کی اور رفائہ بن عبدالمنذر کے ہاں پناہ لی۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں حضرت عاقلؓ بن ابی بکیر کی حضرت محذرؓ بن زیاد سے مؤاخات قائم کروائی۔ حضرت محذرؓ جنگ اُحد میں شہید ہوئے۔
حضرت عاقلؓ بنی ابی بکیر اور آپ کے تینوں بھائی غزوۂ بدر میں شریک ہوئے لیکن عاقلؓ نے اس معرکہ میں مالک بن زھیر کے ہاتھوں جام شہادت نوش فرمایا۔ جبکہ دوسرے بھائی خالدؓ نے بدر اور اُحد کے میدانوں میں داد شجاعت دی اور پھر سریہ رجیع میں شہادت پائی۔ تیسرے بھائی عامرؓ بدر اور اُحد اور خندق کے غزوات میں شریک ہونے کے بعد 13ہجری میں مرتدوں کی سرکوبی کے سلسلہ میں جنگ یمامہ میں شہید ہوئے۔ جبکہ چوتھے بھائی ایاسؓ بدر، اُحد، خندق، خیبر اور دیگر معرکوں میں شریک رہے اور اسلام کے غازی بنے اور 34 ہجری میں فوت ہوئے۔