یوگنڈا میں احمدیت
مشرقی افریقہ میں احمدیت کا پیغام 1896ء کے آغازمیں حضرت مسیح موعودؑ کے دو صحابہ حضرت منشی محمد افضل صاحبؓ (ایڈیٹر اخبار البدر) اور حضرت میاں عبد اللہ صاحبؓ کے ذریعہ پہنچا جو یوگنڈا ریلوے میں بھرتی ہوکر کینیا کی بندرگاہ ممباسہ تشریف لے گئے تھے۔ ان کے بعد چند مزید صحابہؓ بھی وہاں گئے۔
پہلے دو احمدی یوگنڈا میں ساحل سمندر سے قریباً آٹھ سو میل اندرون ہوئے جو جہلم کے رہنے والے تھے اور ہاتھی دانت کی تجارت کرتے تھے۔ 1936ء میں انجمن حمایت اسلام کے سیکرٹری عبد الغفور صاحب نے بذریعہ خط حضرت مصلح موعودؓ کی بیعت کی۔
قادیان سے فروری 1947ء میں چھ مجاہدین کا ایک قافلہ بھجوایا گیا جو یوگنڈا سمیت مشرقی افریقہ کے کئی علاقوں میں تعینات ہوئے۔ ابتدائی مرکزی مربیان میں محترم شیخ مبارک احمد صاحب، مکرم مولوی نور الحق صاحب انور، مکرم عنایت اللہ صاحب خلیل، مکرم حافظ بشیر الدین عبیداللہ صاحب، مکرم حکیم محمد ابراہیم صاحب، مکرم صوفی محمد اسحاق صاحب، مکرم مولوی مقبول احمد صاحب ذبیح، مکرم مرزا محمد ادریس صاحب اور مکرم مولوی عبد الکریم شرما صاحب شامل تھے۔
15مارچ 1957ء کو ٹانگا نیکا کے دارالحکومت دارالسلام میں احمدیہ مسجد کا افتتاح ہوا تو اس موقعہ پر حضرت مصلح موعودؓ نے اپنے پیغام کے آخر میں فرمایا: ’’یوگنڈا کے علاقہ میں بھی مسجد کی تعمیر کی خوشخبری سننے کا منتظر ہوں‘‘۔ حضورؓ کی خواہش کی تعمیل میں 27؍ جولائی 1957ء کو مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے یوگنڈا میں پہلی مسجد کی بنیاد رکھی جس کے ساتھ مشن ہاؤس بھی تعمیر کیا گیا۔ دونوں عمارتیں 1959ء میں مکمل ہوئیں اور اس تعمیر میں جنجہ کی جماعت نے عموماً اور مکرم حافظ بشیرالدین عبیداللہ صاحب مقامی مربی اور بھائی محمد حسین صاحب کھوکھر صدر جماعت نے خصوصاً نمایاں حصہ لیا۔
پھر 9؍اگست 1957ء کو مکرم شیخ مبارک احمد صاحب نے مسجد کمپالہ کا سنگ بنیاد رکھا جس کے لئے مسجد مبارک قادیان کی اینٹ استعمال کی گئی۔ یہ مسجد 1962ء میں مکمل ہوئی اور اس کا افتتاح حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ نے فرمایا۔
یکم مئی 1961ء تک سارے مشرقی افریقہ کے مبلغ انچارج مکرم شیخ مبارک احمد صاحب تھے۔ لیکن پھر ہر ملک کی سطح پر نیا نظام جاری ہوا اور مکرم مولوی عبدالکریم شرما صاحب یوگنڈا کے امیر و مربی انچارج مقرر ہوئے۔ اُس وقت یوگنڈا میں جنجہ، کمپالا، مساکا اور لیرا اہم مراکز تھے۔ لیرا کا مرکز مکرم مولوی مقبول احمد صاحب ذبیح نے مارچ 1963ء میں جاری کیا۔
مکرم مولوی جلال الدین قمر صاحب نے قرآن کریم کا لوگنڈا (Luganda) زبان میں ترجمہ کرنے کی سعادت بھی پائی۔
افریقہ کے دیگر ممالک کی طرح یوگنڈا کے بہت سے مقامی معلمین نے بھی قابل قدر خدمات سر انجام دیں۔ یہ تمام افریقی معلمین محض اعزازی طور پر تبلیغ کرتے تھے۔
1988ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے مشرقی افریقہ کا دورہ فرمایا۔ حضورؒ 3ستمبر کو نیروبی (کینیا) سے کمپالا (یوگنڈا) پہنچے۔ اسی روز حضورؒ نے احمدیہ بشیر ہائی سکول کا معائنہ فرمایا۔ 4ستمبر کو کمپالا سے جنجہ جاتے ہوئے کپاٹا میں احمدیہ پرائمری سکول کا معائنہ فرمایا۔ پھر جنجہ پہنچ کر حاضرین سے خطاب فرمایا اور اسی شام جنجہ میں ایک استقبالیہ تقریب میں خطاب فرمایا جس میںضلعی ناظم سمیت علاقہ کی معزز شخصیات شریک ہوئیں۔ اگلی صبح حضورؒ مساکا پہنچے اور مسجد و مشن ہاؤس کا معائنہ فرمایا۔ پھر مشن ہاؤس کے احاطہ میں مکرم ڈاکٹر احمد دین صاحب مرحوم کی قبر پر دعا کی جنہوں نے یہ زمین مسجد ومشن ہاؤس کے لئے وقف کی تھی۔ اس کے بعد حضورؒ نے احمدیہ ہسپتال کا معائنہ فرمایا۔ نیز یہاں مرکز کی تعمیر کے لئے بنیادی اینٹ پر دعا بھی کی۔
6ستمبر کو حضورؒ نے یوگنڈا کے وزیراعظم سے ملاقات فرمائی اور اسی شام شیراٹن ہوٹل کمپالا میں ایک استقبالیہ تقریب سے خطاب فرمایا جس میں مختلف طبقہ ہائے فکر کے ممتاز افراد نے شرکت کی۔ اس کے بعد یوگنڈین ٹیلی ویژن نے حضورؒ کا ایک خصوصی انٹرویو لیا جو تقریباً چالیس منٹ تک جاری رہا۔
7ستمبر کو حضورانور یوگنڈا سے کینیا کے لئے روانہ ہوئے۔ روانگی سے قبل ائیرپورٹ کے VIP لاؤنج میں یوگنڈا کے وزیر تعلیم، وزیر صحت اور منسٹر آف اسٹیٹ نے حضورؒ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ اور نیف ڈیک کے نمائندہ نے حضورؒ کا انٹرویو لیا۔
(نوٹ2005ء میں جب حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مشرقی افریقہ کے ممالک کا دورہ فرمایا تو اُس وقت یہ مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ کی زینت بنایا گیا جو 19مئی 2005ء کے شمارہ میں ابوحماد کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔)