یہ اور بات کہ اِس عہد کی نظر میں ہوں – نظم

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 12؍اگست 2005ء میں شامل اشاعت مکرم عبیداللہ علیم صاحب کی ایک غزل سے انتخاب ملاحظہ فرمائیں:

یہ اور بات کہ اِس عہد کی نظر میں ہوں
ابھی مَیں کیا کہ ابھی منزلِ سفر میں ہوں
جو چاہے سجدہ گزارے جو چاہے ٹھکرادے
پڑا ہوا مَیں زمانے کی راہ گزر میں ہوں
بچھڑ گئی ہے وہ خوشبو اُجڑ گیا ہے وہ رنگ
بس اب تو خواب سا کچھ اپنی چشمِ تر میں ہوں
قصیدہ خواں نہیں لوگو کہ عیش کر جاتا
دعا کہ تنگ بہت شاہ کے نگر میں ہوں

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں