اسلام بزمانۂ خلافت اور بعد از زمانہ خلافت

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24مئی 2012ء میں حضرت مولانا عبدالرحیم نیّر صاحبؓ کی ایک تقریر، جو کسی پرانی اشاعت سے منقول ہے اور جو آپؓ نے جلسہ سالانہ قادیان کے موقع پر 26دسمبر 1939ء کو فرمائی تھی۔ اس تقریر میں اسلام کی تاریخ کے دو ادوار (یعنی خلافت اور خلافت کے بعد کے زمانہ) کا تقابلی جائزہ لیا گیا ہے۔
حضرت مولانا صاحبؓ فرماتے ہیں کہ اسلام کی اشاعت جس سرعت اور طاقت کے ساتھ ہوئی، اس کی نظیر کسی دوسرے مذہب کی تاریخ میں نہیں پائی جاتی۔ سر ولیم میور لکھتا ہے کہ ’’نصف درجن سالوں کے اندر اسلام نے عرب، شام، ایران و مصر پر قبضہ کرلیا۔ اور ایک صدی کے ختم ہونے سے قبل اسلام کی حکومت جبل الطارق سے دریائے جیحون اور بحیرۂ اسود سے دریائے سندھ تک پھیل گئی۔ اور جس کامیابی کے حاصل کرنے میں مسیحیت کو صدیاں لگیں، اسے اسلام نے دس بیس سال میں حاصل کرلیا۔‘‘
رسول کریم ﷺ کی وفات کے وقت باب المندب سے عمان تک قرآن پاک کی حکومت قائم ہوچکی تھی اور اسلام کی سرحد قیصرو کسریٰ کی سلطنتوں کی سرحدات سے ٹکرا رہی تھی۔ خلافتِ راشدہ میں اسلامی ریاست نے اندرونی فتنوں کو فرو کر لینے کے بعد صُحف سابقہ میں مندرجہ خبروں کے مطابق روما کی سلطنت کے ٹکڑے کئے اور کسریٰ کے ملک پر قابض ہوئی۔ اس وقت کے مسلمان بچے، عورتیں، جوان، بوڑھے سب ایمان کے نشہ میں چُور، شہادت کے شائق، موت سے نڈر، تقویٰ میں بالا، انصاف میں اعلیٰ، صفاتِ انسانی میں فائق اور غیرمسلم مخالفین کی نسبت شہزوری، فنون جنگ اور علوم ظاہری و باطنی میں بہتر تھے۔ وہ غیرمسلم رعایا کے جسم کے علاوہ دل پر بھی حکمران تھے۔ طاقت و اخلاق کی فوقیت رکھتے ہوئے وہ اندلوسیہ (سپین) فتح کرنے کے بعد فرانس میں داخل ہوئے اور مرکزی یورپ میں بھی ویانا کا محاصرہ کر لیا۔
دورِ اوّل رسول اللہ ﷺ سے فیض یافتہ صحابہ کا تھا۔ چنانچہ غلطی خوردہ مومنین آپس میں لڑے مگر پھر توبہ کرلی۔ لیکن بعدازاں رسول اللہ کی سلطنت کے دو حصے ہوگئے اور خلافت و امارت کی تقسیم ہوگئی۔ چنانچہ پہلا زمانہ دو حصوں میں تقسیم ہے۔ اوّل خلافت راشدہ اور دوسری وہ خلافت جو مدینہ سے مرکز سلطنت بدل کر کوفہ چلی گئی اور اس طرح حکومتِ اسلام کو ضعف ہوا اور خلافت کے روحانی اثرات جاتے رہے۔
دوسرا زمانہ وہ ہے جب امارت و خلافت یکجا نہ رہی بلکہ دمشق میں جاکر خلافت کو سلطنت مادی کی طرح ورثہ بنا لیا گیا۔ اس زمانہ کو بھی اُس وقت تک خلافت کا زمانہ کہا جاسکتا ہے جب تک کُل اسلام کا ایک مرکز رہا۔ اس دوسرے زمانہ میں خلافتِ روحانیہ منتقل ہو کر علماء اور صوفیاء کرام کے حصہ میں آگئی اور امارت زمینیہ بغداد، دہلی، قرطبہ، قسطنطنیہ، قاہرہ وغیرہ میں قائم ہوگئی۔
خلافتِ راشدہ کے دَور کی چند مثالیں ملاحظہ کریں۔ ارونگ واشنگٹن لکھتا ہے: ’’جائے حیرت ہے کہ مدینہ کی مسجد میں چند ایسے بوڑھے عرب جمع ہیں جو چند سال قبل بھگوڑوں کی حالت میں اپنے وطن مکّہ سے آئے تھے وہ اب قیصر و کسریٰ کی سلطنتوں کی قسمت کا فیصلہ کررہے ہیں‘‘۔
٭ جنگ یرموک کے وقت ایک نوجوان کو شوقِ شہادت پیدا ہوا اور اُس نے حضرت ابوعبید بن جراحؓ سالارِ لشکر کے پاس آکر کہا: جب میں سرکارِ دوعالم سے ملاقات کروں تو آپ کی طرف سے حضور کو میں کیا پیغام پہنچاؤں؟ قائد لشکر نے بچہ کو یہ ایمان افروز جواب دیا :

’’پورے ہوئے ، جو وعدے کئے تھے حضورؐ نے ‘‘

٭ محاصرۂ دمشق کے وقت جب مسیحی مندوب سپہ سالار لشکر اسلام حضرت ابوعبیدہؓ کے خیمہ میں صلح کی بات چیت کرنے آتے ہیں تو وہ سخت متعجب ہو کر کہتے ہیں ’’قیصر و کسریٰ کی سلطنتوں کو ہلانے والے جرنیل کا لباس اور خیمہ بالکل سادہ ہیں۔‘‘
٭ یزدجردؔ شاہ ایران ورطۂ حیرت میں غرق ہوا جب اُس نے دیکھا کہ ’’عرب سفارت کے اراکین اس کے سامنے فرش پر بیٹھ کر بے خوف باتیں کرنے لگے۔‘‘ اور جب اس متکبر بادشاہ نے حقارت سے عربوں پر ’’مٹی کے بورے لاد دیئے‘‘ اور یہ کہہ کر رخصت کیا کہ ’’تمہارے افسروں کی قبریں قادسیہ کی زمین میں بنیں گی اور یہ مٹی اس کی خبر دیتی ہے۔‘‘ اس حقیر پیغام اور مٹی کے بوروں سے مومنین نے اپنے ایمان سے بشارت لی اور خوش ہو کر بولے کہ ’’یہ مٹی سرزمین ایران کی فتح کی بشارت ہے۔‘‘
٭ سیف اللہ خالدؔ میدانِ جنگ میں شجاعت کے جوہر دکھاتے ہیں اور تھک سے گئے ہیں۔ اُس وقت برہنہ جسم لڑنے والے نامور مسلم سپاہی ضرار بن ازور کہتے ہیں ’’خالد! ذرا آرام کرلو‘‘۔ آپؓ جواباً فرماتے ہیں: ہاں، ضرور! مگر آرام یہاں نہیں، بہشت میں ہوگا۔
٭ فاتح شمالی افریقہ جنرل عقبہؔ نے سمندر میں گھوڑا ڈال دیا اور ایٹلانٹک بحر ظلمات کے پانیوں نے ان کے زین تک پہنچ کر اس سپہ سالار لشکر اسلام کے پاؤں کو بوسہ دیا۔ بہادر مسلم کی آنکھ آسمان کی طرف اٹھی، دل ایمان سے بھرپور تھا اور رسول اللہ کے روضہ مبارک میں پہنچا اور لب کشا ہوکر اللہ کو مخاطب کیا اور کہا: ’’اے خدا! اگر یہ پانی میرے راستہ میں روک نہ ہوتے تو میں تیرے دین کے عَلَم کو اس وقت اور آگے لے جاتا۔‘‘
٭ یہی عقبہؔ تھے کہ جب انہوں نے تیونس میں شہر قیروان کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کیا تو جنگل کو سانپوں اور درندوں سے پُرپایا۔ تب وحشی باشندگانِ جنگل کو مخاطب کرکے کہا: ’’سنو! محمدؐ رسول اللہ کے صحابہ یہاں چھاؤنی ڈالنا چاہتے ہیں تم نکل جاؤ۔‘‘ اس آواز میں کیا رُعب تھا، کیا جادو تھا، کیا خاص بات تھی کہ درندے اور سانپ اپنے بچوں کو مُنہ میں دبا دبا کر جنگل سے نکل گئے۔
٭ طارقؔ نے سپین کی سرزمین پر جھنڈا گاڑ کر بحری سواری کے سامان جلوا دیئے۔ اکثر نوجوانوں نے جوشِ ایمان سے کہا ’’اگر مریں گے تو جامِ شہادت پئیں گے اور اگر جیتیں گے تو فتح کا تاج پہنیں گے‘‘۔
٭ مَردوں کے علاوہ عورتوں اور لڑکیوں میں بھی یہی جوشِ ایمان تھا۔ نوعمر خولہ ، ضرار ابن اَزور کی بہن تھیں۔ ایک موقعہ پر مسلمان عورتیں قید ہو گئیں۔ اُن کے پاس ہتھیار نہ تھے۔ مسیحی لشکر کا سردار پطرس خولہ پر عاشق ہوگیا۔ بے بس قیدیوں میں سے بہادر خولہ نے ساتھی عورتوں سے کہا کہ ’’ہم مجاہدین اسلام کی لڑکیاں، محمدؐ رسول اللہ کی پیرو ہیں اور کیا اب ہم ان وحشیوں اور بت پرستوں کی لونڈیاں اور معشوقہ بنیں! وہ موت بہتر ہے‘‘۔ خولہ کی تائید عفیرہؔ نے کی اور خیمہ کی چوبوں کو ہتھیار بناکر ان دونوں لڑکیوں کی قیادت میں عورتیں صف بند ہو کر دائرہ میں کھڑی ہوگئیں اور جو آگے بڑھا اسے موت کے گھاٹ اتارا۔
یہ حالت دیکھ کر پطرس خود آیا اور اظہارِ محبت کرتے ہوئے عزت و عظمت کا لالچ دینے لگا۔ خولہ بولیں:’’اے کافر بُت پرست! کیا تُو محمد رسول اللہ ﷺ کی ماننے والیوں سے اظہار تعشق کرتا ہے۔ آتجھے واصل جہنم کروں‘‘۔ اسی اثناء میں آواز آئی: ’’خالد ضرار‘‘۔ اور یہ آواز ہی مسیحی فرار کے لئے کافی تھی۔
٭ ملک شام کی لڑائیوں میں ایک اَور جگہ حضرت خالدؓ نے ان دونوں بہادر لڑکیوں کو عورتوں کی پلٹنوں کا کمان افسر مقرر کیا اور حکم دیا کہ بھاگنے والے مسلمانوں کو گنہ گار اور مرتد کہہ کر میدان جنگ میں واپس کریں اور ضرورت کے وقت اپنی حفاظت خود کریں۔ ان بہادر خواتین نے اس حکم کی تعمیل ایسی مستعدی سے کی کہ تاریخ اس پر شاہد ہے۔
٭ آبان ایک نوعمر سپاہی تھے اور ٹامس مسیحی لشکر کا دمشق میں سردار تھا۔ مؤخرالذکر نے زہر میں بجھے ہوئے تیر سے آبان کو زخمی کرکے شہید کر دیا۔ آبان اور اس کی بیوی نئے دولہا دلہن تھے۔ دلہن میدان کے دوسرے حصہ سے بھاگ کر میاں کو دیکھنے آئی مگر اُس کے آنے سے قبل اس کا محبوب خاوند واصل بحق ہوگیا۔ اس پر بیوی نے شہید کی لاش پر جھک کر کہا: ’’میرے محبوب! ہم کو خدا نے جدا کرنے کے لئے اکٹھا کیا تھا۔ میں تمہیں ملنے کے لئے آتی ہوں۔ اب اس جسم کو تیرے بعد کوئی نہیں چھوئے گا۔ یہ اب خدا کے سپرد ہے۔‘‘ اس کے بعد خاوند کا تیر کمان سنبھالا اور پہلے دشمن کے علمبردار کو پیوندِ خاک کیا اور اس کے بعد ٹامس کی آنکھ میں تیر مار کر اسے ایسا سخت زخمی کیا کہ وہ لڑائی کے قابل نہ رہا اور آخر مارا گیا۔ اور اس کے بعد شربت شہادت پی کر اپنے شہید دولہا سے جاملی ہوں گی۔
٭ خلافتِ راشدہ کے زمانہ میں ہی خداوند تعالیٰ نے مسلمانوں کو افلاس سے نکال کر تموّل بخشا اور زمین کے خزائن کا مالک بنایا اور اس قدر کہ حضرت عمرؓ نے ہزاروں قصبات آباد کئے اور رُخِ زَر پر لَااِلٰہَ اِلَّا اللہ کا سکّہ نقش ہوا اور بیت المال کی باقاعدہ بنیاد پڑی اور ایران کی فتح پر 900 اونٹ مال غنیمت سے لدے ہوئے مدینہ منورہ میں پہنچے اور60 ہزار فاتحین قادسیہ میں سے ہر ایک کو 1200 درہم ملے اور علاوہ دوسرے اموال کے اکیلے سیّدنا علیؓ کے حصہ میں کسریٰ کے ایک خاص غالیچہ کا جو ٹکڑا آیا اس سے آپؓ کو 8ہزار درہم ملے۔
خلافت ثانیہ میں حضرت عباسؓ کو 2لاکھ درہم سالانہ وظیفہ ملتا تھا۔ بدری صحابہ کو پانچ پانچ ہزار، صاحبزادگان حسینؓ و حسنؓ میں سے ہر ایک کو اسی قدر۔ امّہات المومنین میں سے ہر ایک کو دس ہزار اور حضرت عائشہ صدیقہ کو 12ہزار درہم سالانہ ملتے تھے۔ باوجود اس قدر دولت کے یہ لوگ دل کے غریب، فیاض اور دین کے پابند تھے۔
ان علوم و فنون کے علاوہ جن کی شہادت معروف علوم اور اعلیٰ عمارتیں دہلی و غرناطہ و قرطبہ میں اور عربی عبارتیں انگلستان کے محلّات پر (کرسٹل پیلس برائٹن وغیرہ) پیش کرتی ہیں۔ مسلمان سپاہی فنون جنگ اور میدان جنگ میں اپنی سادگی کے باوجود دماغی لحاظ سے بھی ممتاز تھا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ کہیں 40 صندوقوں میں جانباز سپاہی بند کر دیئے جاتے ہیں اور جب مال غنیمت سمجھ کر دشمن ان کو قلعہ میں لے جاتا ہے تو صندوق توڑ کر موقعہ شناس بہادر باہر نکل پڑتے ہیں اور اللہ اکبر کہہ کر قلعہ کے دروازے کھول دیتے ہیں۔ کہیں مسیحی کا بھیس بدل کر تدبیر سے دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں۔ کہیں ایسی ہوشیاری و کرتب دوزی سے کام لیتے ہیں جیسے حلب کا محاصرہ تھا۔ فصیل کا توڑنا یا اس پر چڑھنا محال ہورہا تھا۔ تب سردار لشکر اسلام نے تمام سپاہ کو مخاطب کرکے تدبیر پوچھی اور خواہش ظاہر کی کہ کوئی صاحبِ تدبیر بہادر اس شہر پناہ کو تسخیر کرے۔ اس پر ایک جری قد آور جسیم و شہزور عرب نے اپنے تئیں پیش کیا اور سات مددگار طلب کئے۔ رضاکاروں کی کہاں کمی تھی۔ آٹھوں مجاہدین روانہ ہوئے۔ بکریوں کی کھالیں اوڑھ لیں، منہ میں سوکھی روٹی پکڑ لی۔ چاروں ہاتھ پاؤں پر اس طرح چلتے گئے اور روٹی کی ایسی آواز نکالی کہ مسیحی پہرہ دار سمجھے کتّے جارہے ہیں۔ دیوار کے پاس پہنچ کر لیڈر بیٹھ گیا اور ساتوں بہادروں کو اوپر نیچے اپنے کندھوں پر بٹھا لیا اور ایک ایک کرکے پہلے ساتوں اور بعد میں آٹھواں کھڑا ہوگیا۔ اس طرح اوپر کا جوان دیوار پر چڑھ گیا۔ پہلے عمامہ پھینکا، پھر ایک ایک نے عمامے کو جوڑا اور اوپر کھینچ لیا گیا۔ پہلے پہرہ داروں کو زیر کیا اور شہر کے دروازے کھول دیئے۔ فتح کا آغاز ہوا۔
یہ ہے نقشہ زمانہ خلافت کا اور اس کے بعد کا۔ جس کی نسبت ایک دشمنِ اسلام مؤرخ کہتا ہے ’’جائے حیرت ہے کہ جو شخص بھی ایک دفعہ اسلام لایا خواہ وہ شمشیر کے ذریعہ ہی لایا ہو جو کہ اسلام کا خاص حربہ تھا۔ وہ پھر ایسا ایمان دار ہوا کہ اس نے اپنے نئے مذہب کے لئے ہر طرح قربانی کی اور مرتد نہیں ہوا۔‘‘ (تاریخ اس کی بہت مثالیں پیش کرتی ہے) ۔
خدا نے ہم کو وعدہ دیا ہے کہ کُل ادیان پر دین غالب ہوگا۔ خلافت پھر سے ہم میں موجود ہے۔ تاریخ کا وہ زمانہ عود کر رہا ہے جو فتوحات میں بے نظیر تھا۔ ضرورت ہے کہ ایمان کی نعمت سے مالامال ہونے کے بعد تنظیم کی برکت سے ایثار کرتے ہوئے زمانہ خلافت کا ہر مرد اور ہر عورت اور ہر نوجوان نمونہ بن جائیں۔ اور فرطِ محبت سے تجربہ کی بِنا پر ہم یہی کہتے ہیں ؎

ہے عدو کے ہاتھ میں تیغ و سناں تیر و تفنگ
ہاتھ میں اپنے بجز تیرِ دعا کچھ بھی نہیں
مطلع مغرب سے چمکا نیّر نصف النہار
آنکھ کھولو منکرو اب بھی گیا کچھ بھی نہیں

اور درج ذیل شعر جو مسیح موعود کی آمد اور خوشخبری اور ایک بار پھر سے مایوسی میں آس اور ناامیدی میں امید کی جھلک پر دال ہے :

باغ مرجھایا ہوا تھا گر گئے تھے سب ثمر
میں خدا کا فضل لایا پھر ہوئے پیدا ثمار

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں