اسلام پرصلیبی یلغار اور حضرت مسیح محمدیؑ اور آپؑ کے غلاموں کی طرف سے کامیاب دفاع

(مطبوعہ انصارالدین یوکے مارچ و اپریل + مئی وجون + جولائی و اگست 2021ء)

(مکرم فضل الٰہی انوری صاحب)

اگر آج سے صرف ڈیڑھ سو سال قبل کی عالمی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو جہاں مسلمانوں کی مادی اور سیاسی قوت میں بتدریج انحطاط واقع ہونے کا پتہ لگتا ہے، وہاں اسلام دشمن طاقتوں کی اسلام دشمنی میں مسلسل ترقی سامنے آ جاتی ہے۔ یہ وہ وقت تھا جب اُس وقت کی سب سے بڑی اسلامی حکومت، دولت عثمانیہ، اپنی اندرونی سازشوں کی وجہ سے دم توڑ رہی تھی یعنی اس کے اندر ایسے کچے دھاگے پیدا ہو چکے تھے جو غداری کی سرشت رکھنے والے اور وقت پر ٹوٹنے والے تھے۔دوسری طرف برصغیر پر سات سو سال سے قائم رہنے والی مغلیہ سلطنت برطانوی یلغار کے سامنے بے بس ہو کراپنا سب کچھ کھو چکی تھی۔
مسلمان حکومتوں کے اسی انحطاط کا نتیجہ تھا کہ صلیبی عقائد کے علمبردار جن کی مذہبی سرگرمیاں اب تک اپنے علاقوں تک محدود تھیں،مسلمانوں کو لقمہ ٔ تر سمجھتے ہوئے آہستہ آہستہ ان کی طرف بڑھنے اور ہر قسم کے اوچھے ہتھیاروں سے لیس ہوکر ان کے دین کو صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے منصوبے باندھنے لگ گئے ۔ لیکن جماعت احمدیہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ اسلام پر جب بھی دنیا کے کسی کونے سے یلغار ہوئی تو حضرت بانی ٔ سلسلہ علیہ السلام اورآپ ؑ کے غلاموں کے سواکسی کو توفیق نہ ہوئی کہ وہ اس کا مقابلہ کر سکے۔چنانچہ جب امریکہ کاعیسائی مناد ڈاکٹرجان ہنری بیروز(Dr. John Henry Barrows) امریکہ سے ہندوستان پہنچا تھا کہ تا وہ برصغیر کے مسلمانوں کو عیسائیت کی گود میں لانے کے لئے زمین تیار کرے بلکہ اس نے یہاں تک اعلان کر دیا تھا کہ عیسائیت کے مصنوعی خدا کے پرستار عنقریب مسلمانوں کے مقامات مقدسہ میں داخل ہو کر ان پرقبضہ کرلیں گے۔
یہ شخص یعنی ڈاکٹر جان ہنری بیروز جس نے پہلی عالمی مذہبی پارلیمنٹ کے صدر کے طور پر اپنا تعارف کرایا، وہ 1897 ء میں ہندوستان پہنچا اور وہاں عیسائی حکومتوں بالخصوص برطانوی حکومت کے مادی اور سیاسی تفوق کی آڑ لے کراس نے پہلے تو یہ اعلان کیا کہ:
’’آسمانی بادشاہت پورے کرّہ ارض پر محیط ہوتی جا رہی ہے۔ آج دنیا بھر میں اخلاقی اور فوجی طاقت ،علم و فضل،صنعت و حرفت اور تمام تر تجارت اُن اقوام کے ہاتھ میں ہے جو آسمانی ابوت اور انسانی اخوت کی مسیحی تعلیم پر ایمان رکھتے ہوئے یسوع مسیح کو اپنا نجات دہندہ تسلیم کرتی ہیں۔ ‘‘

پھرعیسائی حکومتوں کی مادی چکا چوند سے متاثر ہونے والے اسلامی ممالک کے یورپی تہذیب و تمدن کے اپنانے کے رجحان کو عیسوی عقائد کی برتری پر محمول کرتے ہوئے اس نے یہ نہایت اشتعال انگیزاعلان کیا کہ:
’’اب مَیں اسلامی ممالک میں عیسائیت کی روز افزوں ترقی کا ذکر کرتا ہوں جس کے نتیجے میں صلیب کی چمکار ایک طرف لبنان پر جلوہ افروز ہے تو دوسری طرف کوہ فارس کی چوٹیاں اور باسفورس کا پانی اس کی ضیاء پاشیوں سے منورہو رہا ہے۔ یہ صورت حال اُس آنے والے انقلاب کا پیش خیمہ ہے کہ جب قاہرہ،دمشق اور طہران کے شہر خداوند یسوع مسیح کے خدام سے آباد نظر آئیں گے اور صلیب کی چمکار صحرائے عرب کو چیرتی ہوئی مکہ اور مدینہ تک پہنچ جائے گی۔اُس وقت خداوند یسوع مسیح اپنے شاگردوں کے ساتھ مکہ کے شہر اور خاص طور پر کعبہ کے حرم میں داخل ہوگا اور بالآخر وہاں حق و صداقت کی منادی ہوگی۔‘‘
(Christianity, The World Religion by John Henry Barrows, D.D; 1896-97)
ڈاکٹر بیروز نے برصغیر میں اپنے دو سالہ عرصۂ قیام میں متعدد لیکچر دئے جن سے صاف پتہ لگتا ہے کہ وہ اپنی اِس خطرناک مہم کو امریکہ سے ہی اپنے ساتھ لے کر چلا تھا ۔ پھر یہ بھی یادرہے کہ وہ کوئی معمولی پادری نہیں تھا بلکہ دینیات کی سب سے بڑی ڈگری کا حامل یعنی Doctor of Divinity تھا۔اسی طرح وہ دنیا کی سب سے پہلی مذہبی پارلیمنٹ (World’s First Parliament of Religions) کا صدر تھا۔گویا یوں سمجھئے کہ صلیبی طاقتیں اپنی اجتماعی قوت کے ساتھ اسلام کو صفحۂ ہستی سے نابود کرنے کی غرض سے برصغیر میں پہنچ چکی تھیں۔پھر وہ اسلام کا اس قدر دشمن تھا کہ امریکہ سے ہندوستان تک سفر کرتے ہوئے اسے سوائے اسلام کے اَور کوئی مذہب نظر نہ آیا جس کووہ اپنی صلیبی ہوس گیری کا نشانہ بناتا۔ اور باوجود اس کے کہ خودہندوستان کے اندر دو بڑے مذاہب یعنی ہندو مت اور بدھ مت موجود تھے جن کے پیرو مسلمانوں سے کہیں بڑھ کر تھے اور ہیں، لیکن اس نے اپنے لیکچروں میں ان مذہبوں یا ان کے پیروؤں کا نام تک نہیں لیا۔ جس سے پتہ لگتا ہے کہ صلیبی طاقتوں کے ا س علمبردار کا واحد نشانہ اسلام تھا۔


ڈاکٹر بیروز نے اپنے لیکچروں کا آغاز 1897ء میں سرزمین ہند سے کیا۔ یہ بعینہٖ وہ وقت تھا جب حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے وجود میں ظاہر ہونے والا کاسر صلیب آنحضرتﷺ کے روحانی فرزند کی حیثیت سے دنیا میں توحید کے حق میں رونما ہونے والی ایک بہت بڑی تبدیلی کے واقع ہونے کے بارے میں یہ اعلان فرما رہا تھا کہ:
’’آخر توحید کی فتح ہے۔غیر معبود ہلاک ہوں گے۔اور جھوٹے خدا اپنی خدائی کے دعوے سے منقطع کئے جائیں گے۔مریم کی معبودانہ زندگی پر مَوت آئے گی اور نیز اس کا بیٹا بھی اب ضرور مرے گا… نئی زمین اور نیا آسمان ہوگا ۔اب وہ دن نزدیک آتے ہیں کہ سچائی کا آفتاب مغرب کی طرف سے چڑھے گا اور یورپ کو سچے خدا کا پتہ لگے گا۔… قریب ہے کہ سب ملتیں ہلاک ہوں گی مگر اسلام اور سارے حربے ٹوٹ جائیں گے مگر اسلام کا آسمانی حربہ کہ وہ نہ ٹوٹے گا،نہ کند ہوگا جب تک دجالیت کو پاش پاش نہ کر دے۔‘‘ (اشتہار 14؍ جنوری1897ء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کاخدائی وعدوں پر مبنی یہ اعلان کس قدر حقیت افروز تھا اور اس کے مقابلے میں ڈاکٹر بیروز کے بیمار ذہن کی پیداوار وہ اعلان جس کا پہلے ذکر کیا گیا ہے ،کس قدرکھوکھلا اور صدا بہ صحرا ثابت ہوا، آئندہ آنے والے پچاس سا ٹھ سالوں کے اندر ہی اس کا پتہ چل گیا۔چنانچہ اس کے جلد بعد ایک تو یہ ہوا کہ انگلستان کے چودہ نامور پادریوں نے”Has The Church Failed?” کہ ’’کیا چرچ ناکام ہو چکا ہے؟‘‘کے نام سے ایک کتاب لکھی جس میں انہوں نے واقعات کی روشنی میں علاوہ دیگر باتوں کے لکھا کہ:
’’ یورپ اور امریکہ کے مردوں اور عورتوں کا ایک بڑا حصہ اب عیسائی نہیں رہا۔ اور شاید یہ کہنا بھی صحیح ہوگا کہ ان کی اکثریت ایسی ہو چکی ہے کہ وہ اب چرچ پر ایمان نہیں رکھتی۔‘‘ (کتاب مذکور۔ صفحہ 125)
اسی طرح ہالینڈ کے مختلف شہروں کے پانچ اخبارات نے زیر عنوان’’اسلامی ہلال یورپ کے افق پر‘‘میں یورپ میں اسلام کے نفوذ اور عیسائیت سے بیزاری کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا کہ لکھا:
’’یورپ کا نوجوان طبقہ عیسائیت سے بیزار ہو رہا ہے اور اس کے نتیجے میں وہ کسی بھی دوسری چیز کو قبول کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے۔دوسری طرف اسلام یورپ میں اتحاد کا علم لئے ہوئے ہے اور یہ نوجوان اُدھر مائل ہو رہے ہیں۔ اس بہاؤ کو روکنے کے لئے اور اس تبلیغ کے اثرات کو تھامنے کے لئے جس کا سب سے طاقتور انجن جماعت احمدیہ ہے ،ہمیں ان کی راہ میں ایک مضبوط ستون گاڑنا ہوگا۔‘‘
اسی عرصہ کے لگ بھگ انگلستان میں منعقد ہونے والی ایک عیسائی مشنری کانفرنس میں لارڈ بشپ آف گلوسسٹر نے بھی اسی قسم کے فکر کا اظہار کِیا۔چنانچہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذاتی معلومات کی بِنا پر حاصل ہونے والے تجربہ کو مندرجہ ذیل الفاظ میں بیان کرتا ہے:


’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ ہندوستان میں ہماری مملکت کے اندر بلکہ خود جزائر برطانیہ میں ایک نئی قسم کا اسلام دیکھنے میں آرہا ہے۔اس نئے اسلام نے ان فرسودہ تصورات اورعقائد کو جڑوں سے اکھیڑ پھینکا ہے جن کی وجہ سے اسلام دنیا کی نظروں میں حقیر سمجھا جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہم میں سے بعض اس کی طرف مائل بھی ہو رہے ہیں۔‘‘
تاہم برصغیر کے اندر ابھرنے والی صورتحال اس سے مختلف تھی۔ وہاں انگریز کی عملداری کے ساتھ ہی یورپ کے پادری دھڑا دھڑ ہندوستان پہنچنا شروع ہو گئے تھے اور مسیح کی صلیبی مَوت کا نقارہ بجا بجا کراوراس کو گناہوں کی معافی کا واحد ذریعہ قرار دے کر اپنے مذہب کی برتری کا ڈھنڈھورا پیٹنے لگے تھے۔ عجیب تر یہ کہ ان عیسائی پادریوں کا بھی سب سے بڑا نشانہ مسلمان ہی تھے۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ مسلمان حضرت مسیحؑ کے بارے میںوہی عقیدہ رکھتے تھے جو موجودہ عیسائیت کا ہے یعنی یہ کہ آپؑ (حضرت مسیح ) دوہزار سال قبل آسمان پر چلے گئے تھے اور وہاں اب تک اپنے مادی جسم کے ساتھ زندہ موجود ہیں۔چنانچہ عیسائی پادری مسلمانوں کے اسی (غلط) عقیدہ کو بنیاد بنا کر اہل اسلام پر اپنے دین کی برتری کا پرچار کرنے لگے اور کہنے لگے کہ مسیحیت کا بانی (یعنی حضرت مسیحؑ) اسلام کے بانی (حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم) سے نعوذ باللہ افضل ہے کیونکہ وہ (حضرت مسیحؑ) اب تک آسمان پر زندہ ہے جبکہ حضرت محمدرسول اللہ ؐ وفات پا چکے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہزاروں ہزار پڑھے لکھے مسلمان اسلام چھوڑ کر عیسائیت کی گود میں جا پڑے ۔
اُس وقت حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام ہی تھے جنہوں نے اِ ن پادریوں کے سامنے بند باندھا یعنی آپؑ نے انہیں ایک توان کی اپنی مذہبی کتب سے یہ ثابت کرکے دکھا دیا کہ وہ مسیح جس کی مزعومہ صلیبی مَوت کو وہ گناہوں کی معافی کا ذریعہ قرار دے رہے ہیں، صلیب پر مرا ہی نہیں۔ دوسری طرف تاریخی دلائل کی روشنی میں یہ ہیجان آمیز اعلان فرمایا کہ جس مسیح کے آسمان پرزندہ ہونے کو تم پیغمبر اسلام ﷺ پر افضل ہونے کی دلیل قراردے رہے ہو،وہ تو آج سے دوہزارسال قبل فوت ہو کر کشمیر میں دفن ہوچکا ہے ۔ ساتھ ہی آپ نے یہ اعلان بھی فرمایا کہ اگراس کے باوجود تم عیسائیت کو اسلام کے مقابلے میں افضل سمجھتے ہو توآؤ اور میرے ساتھ مباحثہ کر لو۔
اس اعلان کے نتیجہ میں 1893ء میں امرتسر کے مقام پر حضرت بانی ٔ سلسلہ علیہ السلام اورعیسائیوں کے مابین پندرہ دنوں تک ایک مناظرہ ہوتا رہاجس میں عیسائیوں نے ایسی منہ کی کھائی کہ وہ خود اپنے لوگوں کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہے۔ تاہم اس مناظرہ کی تان حضرت اقدسؑ کے ایک ایسے اعلان پر ٹوٹی جس نے عیسائیوں کے مناظریعنی عبداللہ آتھم کے چھکے چھڑا دئے۔ ہوا یوں کہ اس مناظرہ کے آخر پر حضرت بانی ٔ سلسلہؑ نے اسلام سے مرتدہونے والے اس پادری ( عبداللہ آتھم) کے بارے میں جب یہ جلالی اعلان فرمایا کہ:
’’آج رات جو مجھ پر کھلا، وہ یہ ہے کہ جبکہ مَیں نے بہت تضرّع اور ابتہال سے جناب الٰہی میں دعا کی کہ تُواِس امر میں فیصلہ کر۔ اور ہم عاجز بندے ہیں، تیرے فیصلہ کے سوا کچھ نہیں کر سکتے تو اس نے مجھے یہ نشان بشارت کے طور پر دیا ہے کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمداً جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا رہا ہے، وہ اِنہیں دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی 15 ماہ تک ہاویہ میں گرایا جاوے گا اور اس کو سخت ذلّت پہنچے گی، بشرطیکہ حق کی طرف رجوع نہ کرے۔اور جو شخص سچ پر ہے اور سچے خدا کو مانتا ہے، اس کی اس سے عزت ظاہر ہوگی۔‘‘
تو عیسائیوں کا یہ مناظر جو پورے پندرہ دن بڑے جوش و خروش کے ساتھ آپؑ کے مقابل پراپنا زور خطابت دکھاتا رہا، اس پر عین مجلس مناظرہ میں لرزہ طاری ہو گیا ، اس کی زبان باہر نکل آئی اوراس کا چہرہ زرد ہو گیا۔ وہ بیٹھا ہوا تھا کہ گھبرا کر اٹھا مگر اٹھتے ہی زمین پر گر پڑا۔ اور پھر دو آدمیوں نے اس کی بغلوں میں ہاتھ ڈال کر اسے دوبارہ کرسی پر بٹھایا۔ اس کی یہ حالت دیکھ کر عیسائیوں پر کیا گزری ہوگی! اس کا اندازہ ہرشخص کر سکتا ہے ۔

حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام
حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام

یہ پہلا اثر تھا جو حضرت بانیٔ سلسلہؑ کی اس پیشگوئی کا عبداللہ آتھم پر ہوا۔ تاہم اس پیشگوئی کاجومستقل اثرعیسائیوں کے اِس بیباک مناظرپر پڑا، وہ بھی عیسائیوں کے لئے ایک بہت بڑے سانحہ سے کم نہ تھا۔واقعات بتاتے ہیں کہ وہ (عبداللہ آتھم) اس کے بعدپورے پندرہ ماہ تک نہایت اذیتناک صورت حال سے دوچار رہا۔ اس کا دن کا چین اور راتوں کی نیند حرام ہو گئی۔ چنانچہ وہ بڑ بڑاتا اورپاگلوں کی طرح ایک جگہ سے دوسری جگہ بھاگ بھاگ کر جاتا رہا۔ دوسری طرف اِس دوران اس کی قلم اور زبان اسلام کے خلاف ہر قسم کی بدزبانی اور ہرزہ سرائی سے رُکی رہی۔یوں معلو م ہوتا تھا جیسے وہ پہلے والا عبداللہ آتھم ہی نہیں۔ اس کی یہی حالت خدا تعالیٰ کے نزدیک رجوع الی الحق کے مترادف سمجھی گئی جس کی خبر آسمان کے خدا نے حضرت بانی ٔ سلسلہ علیہ السلام کوبذریعہ الہام دے دی۔ غرض عبداللہ آتھم مَوت سے تو بچ رہا تاہم عیسائیوں پر کھل گیا کہ اسلام کے اس جری پہلوان (حضرت بانی ٔ سلسلہ علیہ السلام)سے مقابلہ آسان نہیں۔
…………………………
پھر جب لاہورکا لاٹ پادری، بشپ لیفرائے، 1900ء میں حضرت مسیح کی تمام انبیا، بشمول نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و سلم پر فضیلت اور معصومیت کا ڈھنڈھورا پیٹنے لگ گیا تھا تواُس وقت بھی عام مسلمانوں کے علما ء کی غیرت جوش میں نہ آئی۔ اور اُس وقت بھی اِس دشمنِ اسلام کواگرکسی نے للکارا تو وہ حضرت بانی ٔ سلسلہ علیہ السلام ہی تھے جنہوں نے اسے آڑے ہاتھوں لیا اوراسے ایسا دندان شکن جواب دیا کہ بشپ موصوف کولینے کے دینے پڑ گئے۔ چنانچہ آپؑ نے اسے منجملہ دیگر امور کے لکھا کہ:
اگر آپ واقعہ میں سنجیدہ ہیں اور چاہتے ہیں کہ حق ظاہر ہو تو آپ مسلمانوں کے ساتھ اس موضوع پر پبلک مباحثہ کرنے کے لئے تیار ہو جائیں کہ یسوع مسیح اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و سلم، دونوں میں سے کونسا نبی علمی ، اخلاقی ،عملی ،ایمانی، عرفانی اور علم لَدُنی کے اعتبارسے افضل اور برتر ہے ۔یعنی صرف ارتکاب معصیت سے محفوظ رہنا ہی موجب فضیلت نہ قرار دیا جائے بلکہ کسبِ خیر کے نقطہ ٔ نظرسے بھی دیکھا جائے کہ دونوں میں سے کس نبی میں کیا کیا نیکیاں پائی جاتی تھیں اور کون کونسے اخلاقی کمالات ان سے ظہور میں آئے۔

(خلاصہ)
آپ کے اس اشتہار کی مطبوعہ کاپیاں بشپ موصوف کے 25؍ مئی والے لیکچر کے دن بڑی کثرت سے لوگوں میں تقسیم کی گئیں۔ چونکہ اس نے مسلمانوں کو خاص طورپر دعوت دی تھی لہٰذا مسلمان بڑی کثرت سے ا س کا یہ لیکچر سننے کے لئے آئے۔ اب وہ انتظار کرنے لگے کہ وہ (بشپ لفرائے) اس دعوت مقابلہ کا کیا جواب دیتا ہے۔ مگر وہ یہ دیکھ کر سخت حیران ہوئے کہ اس نے اپنے تمام لیکچر کے دوران اس اشتہار میں اٹھائے گئے نکات کے بار ے میں ایک لفظ بھی نہ کہا۔ اور جب لیکچر کے اختتام پر مسلمانو ں نے اسے اس پر تبصرہ کرنے کو کہاتو وہ کوئی جواب دئے بغیر صرف یہ کہہ کرپنڈال سے چلا گیا کہ ان نکات کا اسے پہلی بار علم ہوا ہے۔
اس کے بعد اس پر ایسا رعب طاری ہوا کہ اس نے بالکل چپ سادھ لی ۔اس پر مسلمانوں نے اسے خط پر خط لکھنے شروع کر دئے۔ مگر باوجود ان کے بار بار اکسانے اور غیرت دلانے کے اُس نے حضرت بانیٔ سلسلہؑ کے مقابل پر آنے کی جرأت نہ کی۔ اس پر اردو اور انگریزی اخبارات نے بھی بشپ موصوف کوآڑے ہاتھوں لیا۔ چنانچہ ذیل میں الہ آبادؔ سے نکلنے والے ایک انگریزی اخبار کی بشپ سے خط و کتابت اور اس کے جواب میں اس کے پیش کردہ عذر ہائے لنگ کی کیفیت بیان کی جاتی ہے۔ اخبار مذکور نے پہلے تو اسے یہ لکھاکہ :
’’ جس کثرت سے یہ خطوط آ رہے ہیں،اس سے مسلمانوں کی مجوزہ مباحثہ سے بے انتہا دلچسپی اور خواہش کا پتہ لگتا ہے۔‘‘
مگربشپ موصوف بدستور خاموش رہا۔ پھر ا خبارکے مزید غیرت دلانے پر اس نے شملہ سے 12؍ جون 1900ء کو اس مضمون کا ایک مراسلہ بھیجا کہ وہ (حضرت) مرزا صاحب کا یہ چیلنج اس لئے قبول نہیں کر سکتا کہ :
’’ مرزا صاحب اپنے آپ کو مسیح کہتے ہیں اور یہ وہ مقدّس نام ہے جس کی طرف ہم عیسائی اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں۔ اور مرزا صاحب اس نام کو اپنے لئے استعمال کرکے اس نام کی ہتک اور ہماری دلآزاری کا موجب ہوئے ہیں۔ لہٰذا کیونکر ممکن ہے کہ مَیں ایسے شخص سے دوستانہ رنگ میں ملوں یا ان سے گفتگو کے لئے تیار ہو جاؤں؟ ‘‘
اس عذر لنگ کا معقولیت سے بعید ہونا ظاہر و باہر تھا ۔چنانچہ اخبار مذکور نے بشپ موصوف کو جواباً لکھا کہ:
1۔ آپ نے اس بِنا پر (حضرت) مرزا غلام احمد صاحب کے ساتھ مباحثہ کرنے سے معذوری ظاہر کی ہے کہ وہ اپنے آپ کو اُس نام سے پکارتے ہیںجسے عیسائی اپنا خدا سمجھتے ہیں۔تاہم یہ وجہ انجیلی تعلیم کے خلاف ہے کیونکہ وہ کہتی ہے اپنے دشمن سے بھی پیار کرو۔
2۔ (حضرت) مرزا صاحب نے قطعاً اپنے آپ کو وہ مسیح قرار نہیں دیا جسے آپ اپنا ربّ یا خدا سمجھتے ہیں۔ وہ تو اپنے آپ کو ان کا مثیل کہتے ہیںاسی طرح جیسے یوحنا (یحيٰ) نبی نے کہا تھا کہ میں ایلیا نبی کا مثیل ہوں۔ اگر اس سے ایلیا نبی کی تحقیر نہیں ہوئی تو حضرت یسوع مسیح کی کیسے تحقیر ہو گئی؟
3۔ تمام مسلمان بشمول حضرت مرزا صاحب حضرت مسیحؑ کو ایک بزرگ اور سچا نبی سمجھتے ہیں۔ جبکہ کروڑہا لوگ دنیا میں ایسے بھی ہیںجو انہیں نبی تو کجا،ایک سچا انسان بھی نہیں سمجھتے۔تو کیا یہ درست ہوگا کہ عیسائی ان سب سے نفرت کرنے لگ جائیں اور ان سے بات کرنا بھی گوارا نہ کریں ؟ (خلاصہ)
یہ تبصرہ اخبار مذکور کے 12؍ جولائی کے پرچہ میں شائع ہوا ۔اس کے جواب میں بشپ موصوف نے صرف اتنا لکھا کہ :
’’مَیں اس سے قبل جو جواب دے چکا ہوں،اس میں مزید کسی قسم کی ترمیم یا اضافہ کی ضرورت نہیں سمجھتا۔‘‘
مگر باوجود اس کے کہ دو اَور انگریزی اخبار ات، ’’دی انڈین ٹیلیگراف‘‘ اور ’’دی سپیکٹیٹر‘‘ نے بشپ لفرائے کو نہایت غیرت دلانے والے الفاظ میں حضرت بانیٔ سلسلہ علیہ السلام کا یہ نہایت معقولیت پر مبنی چیلنج قبول کرنے کیلئے کہا مگر بشپ موصوف ٹس سے مس نہ ہوا۔ تاہم اس تمام کارروائی کا ایک یہ نتیجہ ضرور نکلا کہ بشپ لفرائے کو پھر کبھی پبلک میں آنے اور مسلمانوں کو یوں للکارنے کی جرأت نہ ہوئی۔
عیسوی یلغارکے مقابل پر یہ اسلام کی اتنی بڑی فتح تھی کہ اُس وقت اسلام کا درد رکھنے والے علماء اس کااقرار کئے بغیر نہ رہ سکے۔ چنانچہ ذیل میں مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کے ترجمۂ قرآن میں سے ایک اقتباس پیش کیا جاتا ہے جس میں عیسائیت کے اِس علمبردار کو نصیب ہونے والی اُس رسوائی کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ لکھتے ہیں:
’’اسی زمانہ میں پادری لفرائے پادریوں کی ایک بہت بڑی جماعت لے کر اور حلف اُ ٹھا کر ولایت سے چلا تھا کہ تھوڑے عرصہ میں تمام ہندوستان کو عیسائی بنالوں گا۔ ولایت کے انگریزوں سے روپیہ کی بہت بڑی مدد اور آئندہ کی مدد کے مسلسل وعدوں کا اقرار لے کر ہندوستان میں داخل ہوتے ہی اس نے بڑا تلاطم برپا کیا۔۔۔۔۔۔حضرت عیسیٰ کے آسمان پر بجسم خاکی زندہ موجود ہونے اور دوسرے انبیاء کے زمین میں مدفون ہونے کا حملہ عوام کے لئے اُس کے خیال میں کارگر ہوا۔ تب مولوی غلام احمد قادیانی کھڑے ہو گئے اور لفرائے اور اس کی جماعت سے کہا کہ عیسیٰ جس کا تم نام لیتے ہو، دوسرے انسانوں کی طرح فوت ہو کر دفن ہو چکے ہیں۔ اور جس عیسیٰ کے آنے کی خبر ہے وہ مَیں ہوں۔ پس اگر تم سعادت مند ہو تو مجھ کو قبول کرلو۔ اس ترکیب سے اس نے لفرائے کو اس قدر تنگ کیا کہ اسے اپنا پیچھا چھڑا نا مشکل ہو گیا۔ اس ترکیب سے اس نے ہندستان سے لے کر ولایت تک کے پادریوں کو شکست دے دی۔‘‘
(دیباچہ ترجمۂ قرآن ازمولوی اشرف علی تھانوی ۔صفحہ30۔ مرتب و ناشر مولوی نورمحمد قادری نقشبندی ،مالک اصح المطابع وکاخانہ ٔ تجارت کتب آرام باغ۔ کراچی)
…………………………
حضرت بانی ٔ سلسلہ علیہ السلام کی بر وقت مداخلت سے یہ پادری لیفرائے والا معاملہ بھی یہیں ختم ہو گیا مگر اس کے چند سال بعد امریکہ کاایک پادری جان الیگزنڈر ڈوئی نامی دین محمدی کو تمام دنیا سے مٹا دینے اوراسلام کی صف لپیٹنے کا ناپاک عزم لے کر اٹھا اور ’’ایلیا ثانی‘‘ ہونے کا دعویٰ کر کے لوگوں میں یہ مشہور کرنے لگا کہ خدا نے اسے یہ منادی کرنے کے لئے بھیجا ہے کہ پچیس برس کے اندر اندر یسوع مسیح آسمان سے اتر آئے گا۔ اس نے تھوڑے ہی عرصہ میں ملک میں اتنی شہرت حاصل کر لی کہ آن کی آن میںہزاروں لوگ اس کے مرید بن گئے۔ اپنی اسی شہرت کو دیکھتے ہوئے اس نے شمالی امریکہ کے شہرشکاگوکے قریب ایک شہر آباد کیا اور اس کا نام ’زائن سٹی‘(Zion City) رکھ کر اعلان کِیا کہ:
’’میرا کام یہ ہے کہ مَیںمشرق اور مغرب اور شمال اور جنوب سے لوگوں کو جمع کروں اور مسیحیوں کو اس شہراور دوسرے شہروں میں آباد کروں،یہانتک کہ وہ دن آجائے کہ مذہب محمدی دنیا سے مٹایا جائے۔‘‘

ڈوئی اور اُس کے شہر میں بننے والی احمدیہ مسجد فتح عظیم

پھرجو ں جوںاس کی شہرت بڑھتی چلی گئی، اسلام سے اس کی عداوت اور نفرت بھی ترقی کرتی چلی گئی اور وہ زیادہ سے زیادہ شدید لفظوں میں اپنے بغض و عناد کا اظہار کرتا چلا گیا، یہانتک کہ اس نے اپنے اخبار ’’لیوز آف ہیلنگ‘‘ (Leaves of Healing) کے 19؍ دسمبر1903ء کے پرچہ میں لکھا:
’’مَیں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ وہ دن جلد آوے کہ اسلام دنیا سے نابود ہوجاوے۔ اے خدا!تو ایسا ہی کر۔اے خدا!اسلام کو ہلاک کردے۔‘‘
اس کے ان اخبارات کے اوراق کسی نہ کسی طرح ہندوستان میں بھی پہنچ گئے۔ چنانچہ جب ان کا علم حضرت بانی ٔ سلسلہ علیہ السلام کو ہوا،توآپ کو بڑا دکھ پہنچا۔ آپ نے دیکھا کہ تثلیث کے پھیلانے اور اسلام کو نابود کرنے کا جس قسم کا جوش اس کے اندر پایا جاتا ہے،ایسا جوش ان صدہا کتب میں بھی نہیں جو یورپ اور ہندوستان کے پادریوں نے لکھیں۔ پھرسب سے زیادہ دکھ دینے والی بات یہ تھی کہ اس شخص نے حضرت سید النبیین، اصدق الصادقین اور خیر المرسلین صلی اللہ علیہ و سلم کو کاذب اور مفتری کے خطابات دے کرآپ کی پاک اور مطہر ذات کو اپنی خباثت اور فحش کلمات کا نشانہ بنانا شروع کر دیا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ جب اُس کی شوخی انتہا تک پہنچ گئی تو مَیں نے انگریزی میں ایک چٹھی اُس کی طرف روانہ کی اور مباہلہ کے لئے اُس سے درخواست کی تا خداتعالیٰ ہم دونوں میں سے جو جھوٹا ہے،اُس کو سچے کی زندگی میں ہلاک کردے۔
آپؑ نے اِس جھوٹے مدعی نبوت کے نام اپنے خط میں یہ بھی لکھا کہ جس مسیح کے دوبارہ آنے کے بارے میں تم دنیا میں یہ اعلان کر رہے ہو کہ وہ اب جلد آسمان سے نازل ہونے والا ہے،وہ تو آج سے دو ہزار سال قبل فوت ہو کرسرینگر کشمیر، محلہ خانیار میں دفن ہوا پڑ ا ہے۔البتہ خدا نے اس کی آمد ثانی کو میرے وجود میں پورا کیا ہے۔ چنانچہ مَیں خدا کی طرف سے مسیح موعود بنا کر بھیجا گیا ہوں، تاکہ مَیں اسلام کی عظمت کو دنیا میں قائم کروں۔ اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ خدا نے میرے سپرد تو دین اسلام کی سربلندی کا کام کیا ہو اور تمہیں اُسے مٹانے کے لئے بھیجا ہو۔پس اگر تُو اپنے آپ کو سچا سمجھتا ہے ،تو تمہیں سارے مسلمانوں کو ختم کرنے کی ضرورت نہیں، تم ایک جماعت کے لیڈر ہو اور میرے بھی یہاں بہت سے پیرو ہیں۔ پس اس بات کا فیصلہ کہ خدا کی طرف سے کون ہے ،اس طرح ہو سکتا ہے کہ تُو میرے ساتھ مباہلہ کرلے، یعنی ہم دونوں اپنی اپنی جگہ خدا سے دعا کریں کہ ہم میں سے جو جھوٹا ہے، وہ سچے کی زندگی میں ہلاک ہو جائے۔

مقبرہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام

اس مضمون کی لکھی جانے والی دو چٹھیاں اُسے بھیجنے کے علاوہ آپ نے امریکہ کے بعض نامی اخباروں کو بھی اس کی نقول بھجوا دیں۔
چنانچہ آپ نے اپنی کتاب ’’حقیقۃ الوحی‘‘ میں کم از کم 32 ؍ ایسے اخبار ات کے نام درج فرمائے ہیں جنہوں نے مجمل یا مفصل طور پر آپ کی ڈوئی کو دی جانے والی دعوت مباہلہ کا ذکر کیا۔ نیز فرمایا ہے کہ یہ تو وہ اخبار ہیں جو ہم تک پہنچے ہیں۔ اس کثرت سے معلوم ہوتا ہے کہ سینکڑوں اخباروں میں یہ ذکر ہوا ہوگا۔
اب امریکہ کے لوگ بھی اور اخبارات بھی اس انتظار میں تھے کہ دیکھتے ہیں، ڈوئی اس چیلنج کا کیا جواب دیتا ہے۔مگر جب اس بات پر کچھ عرصہ گزر گیا اور ڈوئی کے اندرنہ اخباری تبصروں سے کوئی حرکت پیدا ہوئی، اور نہ اس نے حضرت بانی ٔ سلسلہؑ کی چٹھیوں کا کوئی جواب دیا تو آپ نے اپنا وہی مضمونِ مباہلہ بعض اہم اضافوں کے ساتھ امریکہ اور یورپ کے اخبارات میں دوبارہ ارسال فرمایاجس میںآپ نے تحریر فرمایا کہ:
’’آج تک ڈوئی نے میری درخواستِ مباہلہ کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اس لئے مَیں آج کی تاریخ سے جو 23؍اگست 1903ء ہے،اسے پورے سات ماہ کی مہلت دیتا ہوں۔ اگر وہ اِس مدت میں میرے مقابلہ پر آ گیا تو جلد تر دنیا دیکھ لے گی کہ اس مقابلہ کا کیا انجام ہوگا۔مَیں عمر میں ستّر برس کے قریب ہوں اور ڈوئی جیسا کہ وہ بیان کرتا ہے، پچاس برس کا جوان ہے۔ لیکن مَیں نے اپنی بڑی عمر کی کچھ پرواہ نہیں کی کیونکہ اِس مباہلہ کا فیصلہ عمروں کی حکومت سے نہیں ہوگا بلکہ خدا جو احکم الحاکمین ہے، وہ اس کا فیصلہ کرے گا۔‘‘
آپ کے اس خط کا بھی امریکہ کے اخبارات میں خوب خوب چرچا ہوا۔
ڈوئی نے جب دیکھا کہ اس کے لئے اب کوئی چارۂ کار باقی نہیں رہا اور اس کا یوں خاموش رہنا بھی اس کی ذلّت اور رسوائی کا موجب بن رہا ہے، تو چاروناچار وہ کچھ نہ کچھ کہنے پر مجبور ہو گیا۔ چنانچہ پہلے تو اُس نے اپنے اخبار26؍ دسمبر 1903ء میں نہایت متکبرانہ اور حقارت آمیز لہجے میں یوں ہرزہ سرائی کی:
’’لوگ مجھے بعض اوقات کہتے ہیں کہ تم فلاں بات کا جواب کیوں نہیں دیتے؟ جواب!۔ کیا تم خیال کرتے ہو کہ مَیں ان کیڑوں مکوڑوں کا جواب دوں گا کہ اگر اپنا پاؤں ان پر رکھوں،تو ایک دم میں انہیں کچل ڈالوں۔‘‘
پھر 27؍ دسمبر 1903ء کے پرچہ میں اس سے بھی زیادہ بیباکی اورشوخی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس نے تحریر کیا:
’’ہندوستان میں ایک بیوقوف محمدی مسیح ہے جو مجھے بار بار لکھتا ہے کہ یسوع مسیح کی قبر کشمیر میں ہے۔… اور بہتان لگاتا ہے کہ مسیح ہندستان میں فوت ہوئے۔ حالانکہ خداوند مسیح تو بیت عنیاہ کے مقام پر آسمان پر اٹھائے گئے تھے، جہاں پر وہ اپنے سماوی جسم کے ساتھ موجود ہیں۔‘‘
اس طرح ڈوئی نے اگرچہ مباہلہ کو اس کی اصل صورت میں تو قبول نہ کیا ،مگر بالواسطہ طور پروہ خدا کے مامور کے مقابل پر میدان مبارزت میں آ گیا ۔چنانچہ آسمان کے فرشتے اسے کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھنے لگے۔اس کی پہلی تقریب تو یہ پیدا ہوئی کہ اخبار ’’نیویارک ورلڈ‘‘ نے اس کے باپ جان مرے ڈوئی کی اس کے ساتھ کی گئی وہ خط وکتابت شائع کر دی جس میں اُس نے اِسے اپنا بیٹا تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ دوسرے لفظوں میں اس پر ولدالحرام ہونے کا الزام لگایا تھا۔ ڈوئی اس کا دفاع نہ کر سکا۔ بلکہ اسے 25؍ ستمبر 1904ء کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ وہ ڈوئی کا بیٹا نہیں ہے لہٰذا اس کے نام کے ساتھ آئندہ ’’ڈوئی‘‘ کا لفظ استعمال نہ کیا جائے۔ اس سے صورت حال مزید خراب ہو گئی اور لوگ اسے پہلے سے بھی زیادہ حقارت اور استنکارکی نظروں سے دیکھنے لگے۔
(بحوالہ رسالہ ’’انڈی پنڈنٹ ‘‘، 19؍اپریل 1906ء)
ڈوئی کا اپنی ناجائز ولادت کے متعلق اتنا بیباکانہ اعتراف نہ صرف اس کی اخلاقی مَوت ثابت ہوا، بلکہ وہ اپنی رہی عزت اور قدر ومنزلت کو بھی اپنے متبعین کی نظروں میں کھو بیٹھا۔ مگر ابھی اس کی قسمت میں اس سے بھی زیادہ ذلّت اور رسوائی لکھی ہوئی تھی اور خدا کی قہری تقدیر کے نوشتے بڑی تیزی کے ساتھ اسے اس کے مقدر انجام کی طرف لاتے چلے جارہے تھے۔ اس کی تقریب یوں پیدا ہوئی کہ اس نے اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کی غرض سے شہر زائن میں ایک عظیم الشان جلسہ کا انعقاد کیا۔ مگریہی جلسہ ا س کی مٹتی ہوئی شہرت کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ چنانچہ جو منظر اُس وقت دیکھنے میں آیا، اس کی تصویر کشی ایک سوانح نگار نے حسب ذیل الفاظ میں کی ہے:
’’ڈوئی اپنا لباس فاخرہ زیب تن کر کے ہال میں داخل ہوا اور اپنی مخصوص شاہانہ نشست پر جا بیٹھا۔ تمام سامعین کی نظریں اُس کی طرف لگی ہوئی تھیں۔ چنانچہ اس نے اپنا خطا ب شروع کیا۔ اس روزوہ اپنی فصاحت کے عروج پر تھا۔ وعظ کے بعد’ عشائے ربانی‘ کی تقریب تھی۔ وہ بھی ختم ہوئی۔ اب ڈوئی کو صرف چند اختتامی الفاظ کہہ کر اس تقریب کو ختم کرنا تھا ۔وہ یہ الفاظ کہنے ہی والا تھا کہ اچانک اس نے اپنا دایاں بازو زور سے جھٹکا، جیسے کوئی گندہ کیڑا اُ سے چمٹ گیا ہو۔ پھر وہ اپنے ہاتھ کو زور زور سے کرسی کے بازو پر مارنے لگا۔ لوگ اس کی یہ غیرمعمولی حرکت دیکھ کر حیران سے ہوگئے۔ اِدھرڈوئی کا رنگ اچانک زرد پڑنے لگا۔ وہ گرنے ہی والا تھا کہ اس کے دو مرید اسے سہارا دے کر گھسیٹتے ہوئے ہال سے باہر لے گئے‘‘ ۔
اب ڈوئی خدا کی قہری تجلی کا نشانہ بن چکا تھا اور یہ قہری تجلی اس پر فالج کی صورت میں گری تھی۔ابھی وہ اس سے جانبر نہ ہوا تھا کہ 19؍ دسمبر 1905ء کو اس پر دوسری بار فالج کا حملہ ہواجس کے نتیجے میں اس کی رہی سہی طاقت بھی جواب دے گئی۔ اس کی اس حالت کے پیش نظر ڈاکٹرو ں نے اسے کسی گرم علاقے میں جانے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ پہلے اسے میکسیکو لے جایا گیامگر جب وہاں بھی اسے آرام نہ آیاتو اسے جزیرہ جمائیکا لے جایا گیا۔
ادھرجونہی ڈوئی نے اپنے ’زائن سٹی‘ (Zion) سے باہر قدم رکھا، اس کی اندرون خانہ سیاہ کاریوں پر سے پردہ اٹھنے لگا۔ ایک تو وہ پرلے درجے کا شرابی نکلا حالانکہ وہ اپنے مریدوں کو شراب نوشی سے منع کرتا تھا اور اس کے شہر میں بسنے کے لئے ایک شرط شراب سے قطعی طور پر پرہیز بھی تھی۔ پھر اس کے کئی لڑکیوں سے ناجائز تعلقات ثابت ہوئے، جنہیں وہ بڑی بڑی رقمیں بطور معاوضہ دیا کرتا تھا۔ علاوہ ازیں مالی حسابات میں بھی وہ کئی قسم کی بدعنوانیوں کا مرتکب پایا گیا اور لاکھوں کا غبن اس کے لین دین میں ثابت ہوا۔
ان جملہ انکشافات کا نتیجہ یہ نکلا کہ خود اس کے اپنے مرید اس سے سخت بد ظن اور متنفّر ہوگئے۔ چنانچہ جن لوگوں کو وہ اپنے کاروبار کے انتظام و انصرام کے لئے بطور نائبین پیچھے چھوڑ گیا تھا، انہوں نے اسے ٹیلیگرام دیا کہ تمہاری قیادت ختم ہوتی ہے اور تمہاری جگہ والِوا (ڈوئی کا ایک معتمد رفیق کار) کو مقرر کیا جاتا ہے۔ ساتھ ہی اسے وارننگ دی گئی کہ اگر تو نے اس انتظام میں مداخلت کی تو تمہاری ساری اندرونی سیاہ کاریوں اور بدعنوانیوں کا پردہ چاک کر دیا جائے گا۔
ڈوئی کے دن اب گنے جا چکے تھے۔اس کی بیوی اور اس کا لڑکا تو پہلے ہی اس کا ساتھ چھوڑ چکے تھے۔ اب اس کے مرید بھی اس سے متنفر ہو گئے تھے۔ جو باقی رہ گئے تھے، وہ اس کے شہر ’صیحون‘ (Zion)سے باہر قدم رکھنے کے ساتھ ہی اس سے الگ ہوگئے۔ چنانچہ جب وہ کچھ عرصہ کے بعد اپنے ہی بسائے ہوئے شہر میں واپس لوٹا تو اس کے استقبال کے لئے کوئی بھی موجود نہ تھا۔ واپس پہنچ کر اب وہ کلیۃً چند ایک تنخواہ دار سیا ہ فام ملازموں کے رحم و کرم پر تھا۔ چنانچہ اس حالت میں کئی ماہ تک مبتلا رہنے کے بعدبالآخر، جیسا کہ حضرت بانی ٔ سلسلہ عالیہ احمدیہ نے اس کے بارہ میں پیشگوئی فرمائی تھی، وہ بڑی حسرت، دکھ اور نامرادی کے ساتھ 9؍مارچ 1907ء کو اس دنیا سے کُوچ کرگیا۔

برصغیر کے اندراورپھرامریکہ میں اسلام کی تائید میں ظاہر ہونے والے ان زبردست واقعات کے بعدعیسائی پادریوں کو مسلمانوں کے خلاف یوں پبلک میں آنے اور انہیں للکارنے کی جرأت تونہ ہوئی ۔تاہم انہوں نے اب اپنا طریقۂ واردات بدل لیا۔ اور یہ سلسلہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات کے بعد سے اب تک چلا آتا ہے۔لیکن ایسے موقعوں پرجہاں عام مسلمانوں کے بڑے بڑے علماء ان کاسامنے کرنے سے گھبراتے ہیں،وہاںحضرت مسیح محمدی کے غلام ہی ان پادریوں کا ناطقہ بند کرنے کی توفیق پاتے ہیں۔ چنانچہ اس سلسلہ کا ایک واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ کس طرح جب عیسائیوں کے ایک بہت بڑے اجتماع کے موقع پر ایک عیسائی پادری نے قرآن کریم کے رو سے حضرت مسیح علیہ السلام کی دوسرے تمام انبیاء پر فضیلت بیان کرکے مسلمانوں کو اس کا جواب دینے کے لئے پکارا تو صرف مسیح محمدی کے ایک غلام کو اس پادری کا منہ بند کرنے اور یوں اسلام کی لاج رکھنے کی توفیق حاصل ہوئی۔ اس معرکہ کی روئیداد جیسا کہ حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ نے بیان فرمائی ہے، حسب ذیل ہے۔آپ فرماتے ہیں:
’’1909ء کی بات ہے کہ خاکسار حضرت خلیفۃ المسیح الاو ل رضی اللہ تعالیٰ و ارضاہ کے ارشاد کے ماتحت لاہور میں مقیم تھا۔ ان دنوں لاہور میں گاہے گاہے مختلف مذاہب کی طرف سے جلسے کئے جاتے جن میں اشتہارات کے ذریعہ دیگر اہلِ مذاہب کو بلایا جاتا۔ دوسرے اسلامی فرقوں کے علماء میں سے تو بہت کم اس طرف توجہ کرتے لیکن ہم احمدی جب بھی عیسائیوں یا آریوں کی طرف سے دعوت دی جاتی، ان جلسوں اور مناظروں میں شمولیت اختیار کرتے۔ 1909ء میں مَیں ابھی نیا نیا لاہور پہنچا تھا کہ عیسائیوں کی طرف سے ایک بڑا پوسٹر شائع کیا گیا جس میں ایک مرتد عیسائی غلام مسیح (اس کا پہلا نام غلام محمد تھا)، نے مسلمانوں کو بحث کے لئے چیلنج دیا تھا اور لکھا تھا کہ وہ قرآن کریم کے ذریعہ حضرت مسیح علیہ السلام کی فضیلت تمام انبیاء پر ثابت کرے گا اور مسلمانوں کویہ بھی بتایا جائے گا کہ وہ غلام محمد سے غلام مسیح کیسے بنا۔‘‘
فرماتے ہیں: اس جلسہ کا انتظام نیلا گنبد (لاہور)کے پاس ایک بہت بڑے ہال میں کیا گیا تھا۔ اس کی بہت بڑے پیمانے پر تشہیر کی گئی اور مسلمانوں کو چیلنج دیا گیا کہ اگر ان کا کوئی عالم ہمارے پادری صاحب کی تقریر کے بعد اس کے فضیلتِ مسیح پر دیے ہوئے دلائل کاجواب دینا چاہے تو اسے اجازت ہوگی۔ چنانچہ اس مذہبی دنگل کو دیکھنے کے لئے مسلمانوں کی ایک کثیر تعداد بھی اپنے علماء کو لے کر پہنچی ہوئی تھی۔ اس لیکچر کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کی صدارت لاہور کے بڑے بشپ نے کی جس کے ساتھ دیگر بہت سے انگریز پادری بھی دائیں بائیں کرسیوں پر بیٹھے ہوئے تھے۔ گویا دجال کا پورا لشکر یہ نظارہ دیکھنے کے لئے بنفس نفیس وہاں موجود تھا۔ آگے فرماتے ہیں:
’’پادری غلام مسیح نے تقریر شروع کر تے ہوئے تمہید میں کہا کہ مَیں فضیلتِ مسیح برہمہ انبیاء از روئے قرآن بیان کروں گا۔جو علماء اسلام میرے لیکچر کی تردید میں کچھ کہیں وہ اس بات کی پابندی کریں کہ تردید از روئے قرآن ہو۔ جو حوالہ یا آیت وہ قرآن کریم کے علاوہ پیش کریں گے، وہ قابلِ قبول نہ ہوگی۔‘‘
پادری مذکور نے اپنی تقریر میں فضیلتِ مسیحؑ از روئے قرآن کے ثبوت میں جو دلائل دئے، ان کا خلاصہ حسب ذیل تھا:
(1) مسیحؑ کے سوا کوئی اَور نبی بن باپ پیدا نہیں ہوا۔ یہ فضیلت صرف مسیحؑ کو حاصل ہے۔ بے شک آدمؑ کی پیدائش بھی بن باپ ہوئی مگر عَصیٰ آدَمُ رَبَّہ‘ فَغَویٰ کے رُو سے وہ گنہگار اور گمراہ ثابت ہوتے ہیں، لہٰذا ان کا مقابلہ معصوم مسیح ؑ سے نہیں کیا جا سکتا۔
(2) مسیحؑ کو قرآن میں غَُلَاماً زَکِیَّا کہا گیا ہے یعنی پاک اور زکی بچہ۔ یہ خصوصیت بھی کسی اَور نبی کے حق میں بیان نہیں کی گئی۔
(3) تمام انبیاء میں سے صرف مسیحؑ کی والدہ کا نام قرآن کریم میں مذکور ہے اور کسی نبی کی والدہ کا ذکر قرآن میں نہیں۔
(4) مسیحؑ کو اللہ تعالیٰ نے خود توریت ، انجیل اور کتاب سکھا ئی (اس تعلق میں پادری غلام مسیح کا اشارہ سورۃ آلِ عمرانکی آیت 49 کی طرف تھا جہاں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ یُعَلّمُہُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَالتَّورٰۃَ وَالْاِنْجِیْل)
(5) مسیح کوقرآن کریم میں کَلِمَۃُاللّٰہ کا خطاب دیا گیا ہے۔ یہ خطاب بھی مسیحؑ کے سوا کسی اَورنبی کو نہیں دیا گیا۔

فرماتے ہیں،پادری موصوف کی اس تقریر کا جواب دینے کے لئے جو علمائے اسلام سٹیج پر آئے ،انہوں نے اپنے دلائل قرآن کریم سے دینے کی بجائے توریت اور انجیل کی عبارات پڑھ پڑھ کر اپنا وقت ختم کیا۔ ان علماء میں مولوی محمد حسین بٹالوی اور مولوی ثناء اللہ امرتسری جیسے جبہ پوش مولوی بھی تھے اور یہ وہ تھے جن کی ساری عمر حضرت بانی ٔ سلسلہ علیہ السلام کی مخالفت میں گزری مگراسلام سے مرتد ہونے والے ایک پادری کے سامنے ان کی کوئی پیش نہ گئی۔ ان کے علاوہ مولوی محمد ابراہیم صاحب وکیل لاہور اور دیگر نامور علماء اہل اسلام نے بھی پادری موصوف کے دلائل توڑنے میں اپنا سارا زور صرف کر دیا مگر ان کی ہر تقریر کے بعد پادری غلام مسیح اٹھ کر کہہ دیتا کہ میری مطلوبہ شرط کے مطابق جواب نہیں آیا۔ چنانچہ اس نے بار بار اٹھ کر علمائے اسلام کی اس کمزوری کو واضح کیا اور اپنے دلائل کی برتری ثابت کرتے ہوئے ہر بار یہ نعرہ لگایا کہ علماء کے میرے دلائل کو توڑ نہ سکنے سے صاف ظاہر ہے کہ قرآن کی رو سے مسیحؑ کی فضیلت سب انبیاء پر ثابت ہے۔ اس سے اہلِ اسلام کی بہت خفت ہوئی۔ اُدھر عیسائی تھے کہ فخر اور خوشی سے پھولے نہ سما رہے تھے۔
حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ جو اس جلسہ میں بعض دیگر احمدی احباب کے ہمراہ سٹیج کے قریب ہی بیٹھے تھے (آپ کی عمر اس وقت بمشکل تیس سال کی ہوگی یعنی آپ عمر کے لحاظ سے مذکورہ بالا علماء میں سب سے چھوٹے تھے) فرماتے ہیں کہ اچانک صدرمجلس نے میرا نام پکارا۔ آپؓ حیران ہوئے کہ میرا نام کس نے پیش کیا ہے۔ مگر فرماتے ہیں کہ میرے مکرم دوست خدا بخش صاحب (مرحوم و مغفور) نے جوقریب ہی بیٹھے تھے، میرا نام خود ہی لکھ کر بھجوا دیاتھا۔
اب جونہی آپ خدا کا نام لے کر اٹھے تو ایک عجیب منظر دیکھنے میں آیا۔ ایک تو آپ عمر کے لحاظ سے دیگر سب علماء سے چھوٹے تھے، دوسرے آپ نہ جبہ پوش تھے نہ کسی اَور قسم کا فاخرہ لباس زیب تن کئے ہوئے تھے۔ لہٰذا انہیں سٹیج کی طرف آتا دیکھ کر مسلمانوں کے اندرزبردست بے چینی پیدا ہوئی۔ چنانچہ آپ جونہی سٹیج کی طرف بڑھے تو بہت سے غیر احمدی علماء آپ کے گرد گھیرا ڈال کر کھڑے ہوگئے اوربڑی حقارت سے کہنے لگے کہ تم نے سٹیج پر جا کر کیا بولنا ہے؟ اپنا وقت ہمیں دے دو۔ آپ نے ان سے کہا کہ دوسرے علماء جو اَب تک بولتے رہے ہیں وہ، آپ سے بڑے اور علم میں بھی آپ سے بڑھ کر تھے، انہوں نے کیا کر لیا ہے جو آپ کر سکیں گے؟
اب یہاں ایک لطیفہ ہو گیا۔چنانچہ فرماتے ہیں:
’’ جس وقت اُن علماء کے ساتھ میری تکرار ہو رہی تھی تو صاحب صدر نے خیال کیا کہ اس شخص کا بولنا ہمارے لئے اَور بھی مفید ہوگا۔ چنانچہ اس نے اونچی آواز سے دوبارہ میرا نام پکارا اور سٹیج پر بلایا۔ مَیں جب سٹیج پر کھڑا ہوا تو میری وضع اور لباس دیکھ کر لوگوں نے مجھے جبہ پوش علماء کے مقابل پر بہت ہی حقیر خیال کیا اور سمجھا کہ اس آخری تقریر سے اسلام کی اَور بھی رسوائی ہوگی اور بہت سے مسلمان مرتد ہو جائیں گے۔‘‘
مگر خدا کو یہی منظور تھا کہ اِس موقع پر اُس کے مامور کے ایک غلام کے ذریعے اسلام کی برتری ظاہر ہو اور مسیحیت کے علمبرداروں کا منہ کالا ہو۔ چنانچہ آپؓ فرماتے ہیں کہ مَیں نے سب سے پہلے بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھا اور پھر پادری غلام مسیح کی ایک ایک دلیل کو لے کر جواب دینے لگا۔
آپؓ کے جوابات اتنے مدلّل، مضبوط اور غلام مسیح کے پیش کردہ معیار کے عین مطابق تھے کہ جونہی آپ ایک دلیل ختم کرتے،ہال جس میں اکثریت مسلمانوں کی تھی، خوشی کے نعروں سے گونج اٹھتا۔ ذیل میں آپ کے جوابات کا خلاصہ درج کِیا جاتا ہے۔ آپؓ نے فرمایا:
پہلی دلیل پادری غلام مسیح نے فضیلتِ مسیحؑ کے حق میں یہ دی ہے کہ وہ بغیر باپ پیدا ہوئے تو اس کے جواب میں عرض ہے کہ:
اوّل: قرآن کریم نے بغیر باپ پیدائش کو کہیں بھی وجہ فضیلت قرار نہیں دیا۔ اگر ہے توقرآن کریم سے اس کا ثبوت پیش کیا جائے۔
دوم: جو امر باعثِ فضیلت ہوتا ہے، وہ مقامِ مذمّت نہیں ہو سکتا مگر قرآن کریم بتاتا ہے کہ حضرت مریم ؑکو اس کی وجہ سے موردِ سب و شتم ٹھہرایا گیا ، جیسا کہ فرماتا ہے وَعَلیٰ مَرْیَمَ بُہْتَاناً عَظِیْمًا۔ پس یہ کیا فضیلت ہوئی کہ پیدا ہوتے ہی ماں بیٹا دونوں لوگوں کے نزدیک باعثِ مذمّت بن گئے۔
سوم: حضرت مسیحؑ کو بن باپ پیدا ہونے میں حضرت آدم علیہ السلام کا مثیل قرار دیا گیا ہے، جیسا کہ فرمایا: اِنَّ مَثَلَ عِیْسیٰ عِنْدَاللّٰہ کَمَثَلِ آدَم۔ اس مماثلت میں حضرت آدمؑ کا پلہ بھاری نکلتا ہے کیونکہ ایک تو وہ بغیر ماں اور باپ پیدا ہوئے (یعنی خلق کئے گئے)، دوسرے ان پر اس وجہ سے کوئی الزام نہیں لگا۔
چہارم: پادری صاحب کا یہ کہنا کہ ’حضرت آدمؑ فَعَصیٰ آدَمُ رَبَّہٗ فَغَویٰ کے رُو سے گنہگار اور گمراہ ٹھہرے‘ اس لئے غلط ہے کہ قرآن کریم نے ہی دوسرے مقام پر فرمایا ہے: فَنَسِیَ وَ َلمْ نَجِدْ لَہ‘ عَزْمًا یعنی حضرت آدم ؑ سے بھول ہوئی، اس میں ان کا ارادہ شامل نہیں تھا۔ دوسرے ان کی شان یہ ہے کہ ان کے بارے میں قرآن کریم میں لکھا ہے کہ فرشتوں کو کہا گیا کہ انہیں سجدہ کرواور انہوں نے سجدہ کیا ۔لیکن مسیحؑ معصوم ہو کر بھی اس علوّ مَرتَبَت کو نہ پہنچ سکا بلکہ انجیل کی رُو سے چالیس دن تک شیطان ان کے پیچھے پڑا رہا کہ وہ اسے سجدہ کریں۔ پس پادری صاحب خود موازنہ کر لیں کہ وہ ہستی افضل ہے جسے فرشتے سجدہ کریں یا وہ جس کو شیطان کہے کہ مجھے سجدہ کر۔ اور اگر یہ کہا جائے کہ قرآن کریم کی رُو سے آدم گنہگار ہے تو قرآن کریم نے ہی حضرت مسیحؑ کو حضرت آدمؑ کا مثیل قرار دیا ہے جیسا کہ فرمایا: اِنَّ مَثَلَ عِیسٰی عِندَ اللّٰہِ کَمَثَلِ آدَمَ۔ اس لئے اگر آدم گناہگار ہے تو مسیحؑ بھی گنہگار ہے۔
جونہی آپ نے اپنا جواب ختم کِیا، حاضرین نے جن کی اکثریت اہل اسلام پر مشتمل تھی ،ایک فلک شگاف نعرۂ تکبیر بلند کیا۔
آگے فرمایا:دوسری دلیل پادری صاحب نے فضیلتِ مسیح کے حق میں یہ دی ہے کہ مسیح کی روح القدس سے تائید کی گئی جو کسی اَور نبی کے متعلق ثابت نہیں تو جواباً عرض ہے کہ:
اوّل: حضرت مسیحؑ کو تو روح القدس کی تائید حاصل ہوئی جو ایک فرشتہ تھا مگر حضرت آدمؑ کے اندر خود اللہ کی روح پھونکی گئی، جیسا کہ فرمایا:
فَاِذَا سَوَّیْتُہ‘ وَ نَفَختُ فِیْہ مِنْ رُّوْحِی فَقَعُوا لَہ‘ سَاجِدِیْنَ
یعنی ’جب میں اسے بنالوں اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اسے سجدہ کرتے ہوئے گر جاؤ‘۔ اور پھر ان کے اندر خدا کی روح پھونکے جانے کی وجہ سے ہی فرشتوں کو حکم ہوا کہ ان کو سجدہ کریں اور سجدہ کرنے کے معنی اس کے سوا کچھ نہیں کہ وہ سارے کے سارے آپ کی تائید پر کمر بستہ ہو جائیں۔ غرض حضرت مسیحؑ کو تو صرف ایک فرشتہ کی تائید حاصل تھی مگر حضرت آدمؑ کو سب فرشتوں کی تائید حاصل ہوئی۔ اس اعتبار سے حضرت آدمؑ حضرت مسیح ؑ سے افضل ٹھہرے۔
دوم: اگر رُوح القد س (جو ایک فرشتہ ہے) کی تائید حاصل ہونا باعثِ فضیلت ہے تو پادری صاحب صحابہ رسول ﷺ کے بارے میں کیا کہیں گے جن کے متعلق قرآن کریم نے فرمایا ہے کہ انہیں رُوحٌ منَ اللّٰہ کی تائید حاصل تھی، جیسا کہ آیت اُوْلٰئِکَ کَتَبَ فِی قُلُوبِھِمُ اْلِایْمَانَ وَ اَیَّدَھُمْ بِرُوحٍ مِنْہ سے ظاہر ہے۔ پھر وہ وجہ فضیلت جو آنحضرت ﷺ کے متبعین کو حاصل ہے ،خود آپ ﷺ کا صاحبِ فضیلت ہونا بدرجہ اولیٰ ثابت کرتی ہے کیونکہ تابع کو جو کمال حاصل ہوتا ہے وہ متبوع کے کمال کی بدولت ہی ہوتا ہے۔
تیسری دلیل پادری صاحب نے حضرت مسیح کی وجہ فضیلت کی یہ بیان کی تھی کہ انہیں قرآن کریم میں ’’غُلَاماً زَکِیَّا‘‘ یعنی ’’پاک لڑکا ‘‘ ہونے کا خطاب دیا گیا ہے۔ اس کے بارے میں فرمایا کہ قرآن کریم ہمارے آنحضرت ﷺ کو ’’مُزَکَّی‘‘ یعنی ’’پاک کرنے والے‘‘ کا خطاب دیتاہے، جیسا کہ قرآن کریم میں مختلف مقامات پر آپؐ کے بارے میں یُزَکّیْھِمْ (وہ پاک کرتا ہے) کے الفاظ آئے ہیں۔اب پادری صاحب خود غور فرما لیں کہ وہ افضل ہوتا ہے جوخود پاک ہو یا وہ جس کی صحبت اور قوت قدسیہ سے دوسرے لوگ پاک اور مطہر بنیں۔
یہاں آپ نے دلیل کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ دراصل حضرت مسیح کے بارے میں ’’زَکِیّا‘‘ کا لفظ خاص طور پر اس لئے آیا ہے کہ حضرت مریم ؑپر حضرت مسیحؑ کی پیدائش کے بارے میں جو الزام عائد کیا گیا تھا (وَعَلیٰ مَرْیَمَ بُہْتَاناً عَظِیْمًا) اس الزام کی تردید ضروری تھی، ورنہ ہر نبی ہی بچپن میں اور جوانی میں زکی اور پاک ہوتا ہے۔
چوتھی دلیل حضرت مسیح کی فضیلت کی پادری صاحب کے نزدیک یہ تھی کہ آپ کی والدہ کا نام قرآن کریم میں مذکور ہے۔اس کے بارے میں آپ نے ایک تو یہ فرمایا کہ اگر پادری صاحب کے اس معیار کو تسلیم کیا جائے تو کیا وہ سارے لوگ اور دشمنانِ انبیاء جن کے نام قرآن کریم میں آتے ہیں، فضیلت مآب سمجھے جائیں گے!۔
دوسرے، قرآن کریم کا ایک مقصد اُن قصص اور واقعات کی حقیقت بیان کرنا ہے جن کے بارے میں صُحْفِ سابقہکے اندر اختلاف پایا جاتا ہے۔ چونکہ حضرت مریمؑ اور ابن ِمریمؑ کے بارے میں یہود اور نصاریٰ میں بہت اختلاف پائے جاتے تھے، اس لئے ان کا نام لے کر اصل حقیقت واضح کی گئی۔ دیگر انبیاء کی اُمہات کا نام لینے کی اس لئے ضرورت نہ تھی کہ ان کے بارے میں اس قسم کا کوئی اختلاف سابقہ صحیفوں میں نہیں پایا جاتا۔
حضرت مسیحؑ کے حق میں دی گئی پادری موصوف کی پانچویں دلیل کہ انہیں قرآن کریم کے رُو سے کتاب اور حکمت نیزتوریت اور انجیل سکھائی گئی، کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ :
اوّل: حضرت مسیحؑ کو جو تعلیم اور حکمت سکھائی گئی وہ مختص القوم اور مختص الزمان تھی کیونکہ قرآن کریم کے نزدیک آپ صرف بنی اسرائیل کے لئے نبی بنا کر بھیجے گئے تھے، جیسا کہ فرمایا: وَرََسُوْلاً اِلیٰ بَنِی اِسْرَائِیْل۔ مگر آنحضرت ﷺ کو جو تعلیم دی گئی یعنی قرآن مجید، وہ عالمگیر تھی کیونکہ آپ ’’رَحْمَۃُ لّلْعَالِمِیْن‘‘ تھے۔ پس وہ نبی جسے ایک جامع اور عالمگیر تعلیم سکھائی گئی، اس سے زیادہ افضل ٹھہرا جسے صرف ایک قوم کی طرف بھیجا گیا۔
دوم: حضرت مسیحؑ کے بارے میں تو یہ آتا ہے کہ انہیں کتاب (توریت) اور حکمت سکھائی گئی مگر آنحضرت ﷺ کے بارے میں قرآن کریم فرماتا ہے کہ وہ دوسروں کو کتاب اور حکمت سکھانے والے تھے جیسا کہ فرمایا: وَ یُعَلّمُھُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَۃَ۔ ظاہر ہے کہ سکھانے والا یعنی (معلم)، سیکھنے والے کی نسبت زیادہ بہتر اور افضل ہوتا ہے۔
فضیلتِ مسیحؑ کے بارے میں دی گئی پادری صاحب کی چٹھی دلیل کہ انہیں قرآن کریم میں کَلَمَۃُ اللّٰہ کہا گیا ہے، کے جواب میں آپ نے فرمایا کہ اگر مسیحؑ کو کَلمۃ اللّٰہ ہونے کی وجہ سے کوئی خصوصیت حاصل ہے تو ان کی اس خصوصیت میں کائنات کا ہر ذرہ شریک ہے کیونکہ فرمایا: لَوْ کَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لّکَلِمَاتِ رَبّی۔ غرض قرآن کریم کے نزدیک کائنات کی ہر شے کَلِمَۃُ اللّٰہ ہے۔ پس یہ کوئی وجہ فضیلت نہیں۔
آپ کے ہر جواب پر اہل اسلام جو پہلے ہی تحسین و آفرین کے نعروں سے آپ کی داد دے رہے تھے، آپ کے تقریر ختم کرنے پر باہرنکل آئے اور پچاس ساٹھ جوشیلے مسلمان نوجوانوں نے آپ کو کندھوں پر اٹھا لیااور بار بار جَزَاکُمُ اللّٰہ، جَزَاکُمُ اللّٰہ کہنے لگے۔ جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ آپ احمدی ہیں تو سب کہنے لگے کہ آخر احمدی بھی تو ہمارے بھائی ہیں۔ ان کے جوابات نے تو آج اسلام کی لاج رکھ لی ہے۔
ادھرپادری غلام مسیح جب حضرت مسیح محمدی کے اس غلام کے جواب میں تردید اً تو کچھ نہ کہہ سکا تو صرف اتنا کہا کہ اس مجیب نے اَور رنگ میں جوابات دیئے ہیں۔ گویا خدا نے اس مرتد کو بالکل لاجواب کر دیا اور اس طرح پرخدا کے مامورکی یہ پیشگوئی بڑے جلال سے پوری ہوئی کہ
’’میرے فرقہ کے لوگ اس قدر علم اور معرفت میں کمال حاصل کریں گے کہ اپنی سچائی کے نور اور اپنے دلائل اور نشا نوں کے رُو سے سب کا منہ بند کردیں گے۔‘‘ (تجلیات الٰہیہ،روحانی خزائن جلد20۔صفحہ 409)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے غلاموں کے ہاتھ پر اسلام کی تائید میں اور عیسائیوں کو لاجواب کردینے والے اس قسم کے واقعات نہ صرف برصغیر میں بلکہ ساری دنیا میں ظاہر ہو رہے تھے۔چنانچہ ذیل میں مکرم الحاج بابو عبدالکریم احمدی کا بیان کردہ ایک واقعہ بیان کِیا جاتا ہے کہ جب وہ اپنی فوجی ملازمت کے دوران ایک بار مصر میں تھے تو کس طرح انہوں نے بعض مصری مسلمانوں کو ایک امریکن پادری کے دام تزویر میں گرنے سے بچا لیا۔ چنانچہ آپ فرماتے ہیں:
’’مجھے معلوم ہوا کہ وہاں امریکن مشن کے پادری نے بہت سے مصری مسلمانوں کو عیسائی بنانے کے لئے تیار کیا ہوا ہے۔ میں پادری صاحب کے پاس گیا۔ وہ 75 سال کے بوڑھے تھے۔ میں نے ان سے کہا: میں عیسائی ہونا چاہتا ہوں۔ اُس نے کہا، بہت اچھا۔
مَیں نے دریافت کِیاکہ کیا کچھ اَور لوگ بھی عیسائی ہونے والے ہیں؟ اُس نے کہا، ہاں۔ چنانچہ اس نے بہت سے قبطی مسلمانوں کی فہرست مجھے دکھائی جو پندرہ روز بعد بپتسمہ لینے والے تھے۔ پادری صاحب نے کہا کہ آپ بھی ان کے ساتھ بپتسمہ لے لیں۔
مَیں نے خواہش کی کہ وہ مجھے ان سے ملوا د یں تو ان کی مہربانی ہوگی۔ چنانچہ انہوں نے دو روز بعد ٹی پارٹی پر ان کو دعوت دی اور مجھے بھی بلایا ۔ وہاں پادری صاحب نے میری طرف مخاطب ہو کر ان سے کہا، یہ ہندوستان کے رہنے والے ہیں اور فوج میں اچھا عہدہ رکھتے ہیں۔ یہ بھی آپ کے ساتھ خداوند یسوع مسیح پر ایمان لائیں گے۔
اس کے بعد مَیں نے ان قطبی مسلمانوں سے مصافحہ کیا اور اپنی نوٹ بک میں ان سب کے نام اور پتے لکھ لئے۔‘‘
بابو صاحب فرماتے ہیں، ان سے فارغ ہو کرمَیں نے قادیان حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کو دعا کے لئے لکھا اور خود بھی دعا کرتا رہا کہ اے پیارے خدا تعالیٰ! ان کو اسلام پر قائم رکھنا۔
آپ اس سلسلے میں ہونے والی تائید ایزدی کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ میرے دل میں ڈالا گیا کہ ان سب مصریوں کی دعوت کرو۔ چنانچہ مَیں نے ان کو شام کے کھانے پر بلایا اور ایک ہوٹل میں اس دعوت کا انتظام کیا۔ کھانے سے فارغ ہو کر مَیں نے ان سے دریافت کیا کہ چند روز بعد ہم عیسائی ہو جائیں گے اور ہم اور ہمارے عزیز سب مسلمان ہیں ۔ کیا آپ نے پادری صاحب سے دریافت کیا ہے کہ عیسائیت میں کیا امتیازی خوبی ہے جو اسلام میں نہیں تا عیسائی ہونے کے بعد ہم اپنے مسلمان بھائیوں کو بتا سکیں کہ اس خوبی کی وجہ سے ہم عیسائی ہوئے ہیں۔سب نے کہا ، نہیں۔ میں نے تجویز پیش کی کہ بپتسمہ لینے سے پہلے ہم اپنا ایک نمائند ہ چن لیں جو پادری صاحب سے صرف یہ سوال کرے ۔ اس کا تسلی بخش جواب مل جائے تو پھر ہم عیسائی ہو جائیں گے۔ سب نے اتفاق رائے سے مجھے اپنا نمائندہ چن لیا اوراپنے میں سے ایک صاحب کو مقرر کیا کہ وہ پادری صاحب کے سامنے میرا نام پیش کرے گا۔‘‘
فرماتے ہیں،اب جب جلسہ ہوا اور بہت سے لوگ جمع تھے جو زیادہ تر عیسائی تھے، تو اس مصری دوست نے پادری صاحب سے کہا کہ ہمارا نمائندہ آپ سے ایک سوال کرنا چاہتا ہے۔ پادری صاحب نے دریافت کیا ، وہ کون ہیں؟ مصری دوست نے خاکسار کا نام پیش کر دیا۔ اس کے بعد خاکسار اور پادری صاحب کے درمیان جو گفتگو ہوئی اور جس کے نتیجے میں پادری موصوف کی دجل و تلبیس سے تیار کی ہوئی وہ ساری عمارت دھڑام سے زمین پر آرہی، ایک دلچسپ روئیداد ہے جو مسٹر احمدی کی زبانی سننے کے لائق ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
’’میں کھڑا ہو گیا۔ پادری صاحب نے خیال کیا ہوگا کہ اِس نے تو کہا تھا ، مَیں عیسائی ہونا چاہتا ہوں، اس لئے اس سے کسی خطرناک سوال کا امکان نہیں ہوسکتا۔ چنانچہ انہوں نے کہا: آپ سوال کریں ۔ میں نے کہا: پادری صاحب! ہم سب مسلمان ہیں اور ہمارے عزیز و اقارب بھی مسلمان ہیں۔ وہ ہم سے دریافت کریں گے کہ ہم عیسائی کیوں ہوئے۔ ان کو جواب دینے کے لئے ہم آپ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ ہمیں عیسائیت کی کوئی ایسی امتیازی خوبی بتا ئیں جو اسلام میں نہ ہو تاکہ ہم بتا سکیں کہ اس خوبی کی وجہ سے ہم عیسائی ہوئے ہیں۔
پادری صاحب کہنے لگے، میرے بچے! اِس وقت آپ عیسائیت کے محل کے دروازے کے باہر کھڑے ہیں،جب آپ اندر داخل ہو جائیں گے تو آپ کو سب خوبیوں کا پتہ لگ جائے گا۔
میں نے کہا: پادری صاحب! مجھے آپ سے اتفاق ہے مگر آپ تو محل کے اندر ہیں، آپ ہمیں کوئی ایک امتیازی خوبی بتا دیں تا کہ ہم محل کے اندر داخل ہو کر اس کی تصدیق کر سکیں۔ پادری صاحب کچھ دیر تک خاموش رہے۔ پھر بولے:

“Well my boy! you will get faith in Christianity.”
یعنی ’میرے بیٹے! آپ کو عیسائیت میں داخل ہو کر سچا ایمان نصیب ہو جائے گا‘ ۔

فرماتے ہیں: پادری صاحب کے یہ جواب دینے پر مَیں مصری احباب سے مخاطب ہوااور ان سے کہا: ’’بھائیو۔۔۔۔۔ پادری صاحب فرماتے ہیں کہ اگر ہم عیسائی ہوجائیں تو ہم کو ایمان نصیب ہوگا۔ اسلام میں تو ہمیں علم ہے کہ اگر غیر مسلم کلمہ لاالٰہ الا اللّٰہ محمد رسولُ اللّٰہ پڑھ لے اور اس کو دل سے مان لے تووہ مومن ہو جاتا ہے، یعنی اس کو ایمان نصیب ہو جاتا ہے۔ آگے وہ اس ایمان کو اعمالِ صالحہ سے ترقی دیتا رہتا ہے ۔پھر مَیں پادری صاحب سے دوبارہ مخاطب ہوا ۔
’’مَیں نے پادری صاحب سے دریافت کیا کہ عیسائیت میں جو ایمان ہمیں نصیب ہو گا، کیا وہ اُ س سے زیادہ قیمتی ہو گا جو ہمیں اسلام پر ہوتے ہوئے حاصل ہے۔ پادری صاحب نے فرمایا: ’ہاں! ہاں! بہت قیمتی ایمان ہو گا ‘۔
مَیں نے کہا: ’پادری صاحب! کیا مَیں اس کو Test کر سکتا ہوں یعنی آزما سکتا ہوں۔ پادری صاحب کہنے لگے، کیسے آزماؤگے؟
مَیں نے کہا ، خداوند یسوع مسیح نے انجیل میں فرمایا ہے کہ اگر تم میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو تو تم وہ معجزات دکھا سکتے ہو جو مَیں نے دکھائے ہیں۔ پادری صاحب! آپ خود پادری ہیں، آپ کے باپ دادا بھی پادری تھے۔ آپ کی عمر 75 سال ہے، آپ نے بہت سے غیر عیسائیوں کو عیسائی بنایا ہے۔ آپ کے پاس تو ایمان کا خزانہ موجود ہے۔ لیکن اگر مَیں آپ سے کہوں کہ آپ اپنی ایمانی قوت سے دریائے نیل کو خشک کردیں تو اس سے مصر میں تباہی ہو گی اور اگر کہوں کہ آپ اپنی ایمانی قوت سے سامنے والے پہاڑ میں زلزلہ برپا کر دیں تو اس سے بھی مصر میں تباہی ہوگی۔ پھر مَیں نے اپنی جیب سے ایک نوٹ بک نکالی اور پادری صاحب کی میز پر رکھ دی۔ مَیں نے کہا، پادری صاحب! مسمریزم جاننے والے اس سے زیادہ کرتب دکھاتے ہیں، مگر مَیں آپ سے عرض کرتا ہوں کہ آپ اپنی ایمانی قوت سے اس نوٹ بک کو جو آپ کی میز پر مَیں نے رکھی ہے، پانچ منٹ تک dance کروادیں اس سے ہم سمجھ لیں گے کہ واقعی آپ کے اندر رائی کے دانہ کے برابر ایمان ہے اور ہم سب عیسائی ہو جائیں گے۔‘‘
فرماتے ہیں، اس تمام گفتگو کو جو میرے اور پادری صاحب کے درمیان ہوئی لوگوں نے بڑی دلچسپی سے سنا اور سب منتظر تھے کہ پادری صاحب اس کا کیا جواب دیتے ہیں۔ پادری صاحب کھڑے ہوئے اور کہنے لگے:

“Well my boy! I am still trying to achieve the faith.”

یعنی ’ میرے بچے! میں ابھی اس ایمان کو حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہوں‘

فرماتے ہیں: پادری صاحب کے اِس جواب کو سن کر مَیں دوبارہ کھڑا ہوگیا اور اب مصری احباب سے مخاطب کر کے مَیں نے کہا:
’’بھائیو! پادری صاحب مرنے کے قریب ہیں مگر ابھی تک ان کو رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان نصیب نہیں۔ گویا پکّے بے ایمان ہیں اور جن کو انہوں نے عیسائی بنایا، ان کو بھی پکّا بے ایمان بنایا ہے۔ جب ان کا اپنا یہ حال ہے کہ 75 سال کی عمر تک رائی کے دانہ کے برابر ایمان نصیب نہیں ہو اتو ہمارا کیا حال ہو گا۔ اس سے تو ہم کو ہمارا مذہب اسلام ہی مبارک ہو اور مَیں نے زور سے کہا: یعیش الاسلام یعنی اسلام زندہ باد، چلو چلیں۔ ہم باز آئے بے ایمان ہونے سے۔
مَیں باہر چل پڑا اور میرے ساتھ سب مصری مسلمان بھی اس جلسہ سے باہر آگئے۔ ایک ہوٹل میں پہنچ کر مَیں نے ان سب کو چائے پلائی اور انہیں تاکید کی کہ پادریوں کے جال میں نہ پھنسیں۔
اس کے بعد بھی مَیں ان کو ملتا رہا اور لٹریچر دیتا رہا اور خدا تعالیٰ کے فضل سے وہ سب کے سب اسلام پر قائم رہے۔ فالحمدلِلّٰہِ عَلیٰ ذٰلِک‘‘
جب یورپ کے عیسائی مناد مشرقی اورمغربی افریقہ کی نوآبادیات میں پہنچ کراور اپنے ہم مذہب آقا ئے حکومت کی سرپرستی سے فائدہ اٹھا کر سکول اور ہسپتال کھول رہے تھے اوران کی آڑ میں وہاں کے صدیوں سے بسنے والے مسلمانوں کی اولادوں کو عیسا ئی بنا رہے تھے۔ واقعہ یہ ہے کہ جب یورپی حکومتیں اس براعظم کی پسماندہ قوموں کو پامال کرتی ہوئی اس کے مشرقی اور مغربی حصوں پر قابض ہو گئیں تو ساتھ ہی یورپ کے عیسائی پادری بھی اپنے لاؤ لشکر سمیت وہاں پہنچ گئے اوروہاں سکول اور ہسپتال جاری کرکے تعلیمی اور طبی سہولیات بہم پہنچانے لگے۔ ان کا یہ پروگرام بظاہر کتنا ہی اچھا تھا مگر اس کے درپردہ ان کا وہ مقصد کام کر رہا تھا جو اِن ممالک میں عیسائیت کے نفوذ سے تعلق رکھتا ہے۔ اوروہ جلد ہی کھل کر سامنے آگیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ جو بچے بھی ان کے سکولوں سے فارغ ہوکر نکلے ، پکے عیسائی بن کر نکلے۔چنانچہ دیکھتے ہی دیکھتے ان افریقی ممالک کا تعلیم یافتہ طبقہ تمام کا تمام عیسائی ہوگیا۔ اپنی اس رفتار ترقی کو دیکھتے ہوئے عیسائی تنظیمیں برّاعظم افریقہ کو جلدتر عیسائیت کی آغوش میں لے لینے کے سہانے خواب دیکھنے لگیں۔
اُن کی اس گمراہ کن مہم کے سامنے بھی اگرکسی نے بند باندھا تو وہ مسیح محمدی کے غلام ہی تھے۔چنانچہ مغربی اور مشرقی افریقہ میں، جہاں عیسائی ترقیات پر ترقیات کرتے جا رہے تھے، جماعت کے مبلغین بھی پہنچے اور انہوں نے بھی وہاں عیسائی تنظیموں کے مقابل پر اپنے سکول اور ہسپتال کھولنے شروع کر دیے۔اور جہاں ضروری سمجھا،وہاں اسلام کا دفاع بھی کیا۔ ان کی انہی سرفروشانہ کوششوں کا نتیجہ تھا کہ ان ممالک میں عیسائیت کی صف لپیٹی جانے لگی یا کم از کم یہ ہوا کہ ان کی ترقی کی وہ رفتار رک گئی جس کی بنا پر وہ سمجھتے تھے کہ وہ جلد ہی سارے برّاعظم افریقہ کو عیسائی بنالیں گے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا اعتراف وہاں کے بڑے بڑے پادریوں نے کیا۔ چنانچہ اس سلسلہ میں ذیل میں خود عیسائی محققین کی آراء پیش کی جاتی ہیں جن میں انہوں نے براعظم میں موجود عیسائی مشنوں کی ناکامی پر سے بر ملا پردہ اٹھایا ہے۔ مثلاً آرچ بشپ آف ایسٹ افریقہ، دی موسٹ ریورنڈ لیزڈ بیچرتی نے ’’ٹانگا نیکا سٹینڈرڈ‘‘ کی 23؍ دسمبر 1961ء کی اشاعت میں لکھا:
’’دنیا کی آبادی تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے۔ اگرچہ چرچ کو نئے ممبر اب بھی مل رہے ہیں تاہم دنیا کی آبادی میں ان کا تناسب گر رہا ہے۔چرچ کے لیے اس کے سواکوئی چارہ نہیں رہا کہ وہ یہ حقیقت کو تسلیم کرلے کہ عیسائیت بڑی تیزی کے ساتھ تنزل کی طرف جا رہی ہے۔‘‘
پھرگولڈ کوسٹ (غانا) یونیورسٹی کے پروفیسر ولیم سن (Wlliamson)نے اپنی کتاب ’’ Christ Or Mohammad‘‘ یعنی ’’مسیح کامیاب ہے یا محمد‘‘ میں لکھا: ’’غانا کے شمالی حصے میں رومن کیتھولک کے سوا عیسائیوں کے تمام فرقوں نے محمد ؐکے پیروؤں کے لیے میدان خالی کر دیا ہے …یہ خوش کن توقع کہ گولڈ کوسٹ جلد ہی عیسائی ہو جائے گا، اب معرض خطر میں ہے اور یہ خطرہ ہمارے خیال کی وسعتوں سے کہیں بڑھ کر ہے کیونکہ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک خاصی تعداد احمدیت کی طرف کھنچی چلی جا رہی ہے۔ یقینا یہ صورت عیسائیت کے لیے کھلا چیلنج ہے اور یہ فیصلہ ابھی باقی ہے کہ آئندہ افریقہ میں ہلال کا غلبہ ہوگا یا صلیب کا۔‘‘

اسی طرح نائیجیریا سے نکلنے والے ایک اخبار’’Nigerian Daily‘‘ نے اپنی 4؍جنوری 1963ء کی اشاعت میں اس حقیقت کا اعتراف کرتے ہوئے لکھا:
’’کافی عرصہ سے محسوس کیا جا رہا ہے کہ عیسائیت اپنی موجودہ شکل و صورت میں افریقہ کے اندر اپنی بقا کی تمام امیدیں کھوتی جا رہی ہے۔ اور اسلام کی بے نظیر ترقی عیسائی ترقی کی راہ میں ایک بہت بڑا درد سر بنتی جا رہی ہے۔ چرچ کے لیے اب ایک ہی راستہ کھلا ہے کہ وہ اپنی موجودہ شکل و صورت میں تبدیلی پیدا کرے۔ بصورت دیگراسے ہر طرف سے مَوت ہی مَوت درپیش ہے۔‘‘
مضمون کی طرف واپس لَوٹتے ہوئے یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ جب حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام اور آپ کے غلاموں کی کامیاب مدافعت کے نتیجے میں عیسائی پادریوں نے دیکھا کہ وہ مباحثات اور مناظرات کے میدان میں مسلسل شکست کا سامنا کر رہے ہیں تو انہوں نے اپنے طریقہ ہائے واردات میں بہت کچھ تبدیلی پیدا کرلی۔ چنانچہ اکثر دیکھا گیا کہ جونہی عیسائیوں کو معلوم ہوتا کہ ان کا مد مقابل جماعت احمدیہ سے تعلق رکھتا ہے، وہ یہ کہہ کر کہ ہمیں احمدیوں سے بحث کرنے سے منع کِیا گیا ہے، گفتگو کرنے سے گریز کرلیتے۔
عالمی سطح پربالخصوص یورپی ممالک میں البتہ اسلام کے حق میں ایک خوشگوار تبدیلی دیکھنے میں آئی۔ اور وہ یہ ہے کہ یورپ میں اسلام اور مسلمانوں کو نفرت اور استنکار کی نگاہوں سے دیکھنے کی بجائے خیرسگالی کے جذ بات کے ساتھ دیکھا جانے لگا۔ چنانچہ راقم الحروف جسے 1964ء سے لے کر 1976ء تک دو بار بطور مبلغ سلسلہ جرمنی میں کام کرنے کا موقع ملا ہے ،اس امر کا چشم دید گواہ ہے۔ کئی بار ایسا ہوا کہ جرمنی کی عیسائی تنظیموں کے سربراہ اپنے لوگوں کو لے کر مسجد نور فرانکفورٹ میں آئے تاکہ انہیں اسلام کے بارے میں کچھ بتایا جائے۔ یوں بھی ہوا کہ خاکسار کو گرجاؤں میں جاکران کے ممبران کواسلام سے روشناس کرانے کی دعوت دی گئی۔گویاوہی پادری جسے ازمنہ ماضیہ میں اسلام کا نام تک سننا گوارا نہ تھا،آج اسلام کو ایک مذہب کے طور پر تسلیم کرتے ہوئے اس میں دلچسپی لے رہا تھا اور یہ بات صرف ایک ملک تک محدود نہیں تھی بلکہ ان تمام یورپی ممالک میں جہاں جہاں بھی ہمارے مشن قائم ہوئے ،اسی قسم کی مذہبی رواداری کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ اسی طرح یورپی ممالک کا انشراح صدر کے ساتھ جماعت احمدیہ اور یورپ میں کام کرنے والی دیگر مسلمان تنظیموں کومساجد بنانے کی اجازت دینا بھی ان کے دین اسلام کے بارے میں بدلے ہوئے خیالات کا آئینہ دار ہے۔
چرچ کی اسلام کے حق میں بدلی ہوئی اِس پالیسی کا سہرا ویٹیکن (رومن کیتھولک عیسائیوں کاعالمی مرکزاور پوپ کی جائے سکونت) کی 1962ء تا 1965ء منعقد ہونے والی دوسری عالمی کونسل کی اُس قرارداد کے سر بھی باندھا جانا چاہیے جس میں غالباً پہلی بار کسی چرچ کی طرف سے مسلمانوں کے ساتھ دوستی اور خیرسگالی کا ہاتھ بڑھانے کی کوشش کی گئی تھی۔ اُس قرار داد کے الفاظ یہ ہیں:
’’چرچ مسلمانوں کو بھی بڑی عزت اور احترام کی نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ وہ خدائے واحد جو آسمانوں اور زمین کا خدا اور حیّ وقیو م، رحیم اور قادر مطلق خدا ہے، کی ہی عبادت کرتے ہیں۔ …حضرت مسیح کو اگرچہ وہ خدا تسلیم نہیں کرتے تاہم اس کی کنواری والدہ مریم کو بڑی عزت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اسی طرح حضرت ابراہیم جن کے ساتھ اسلام پورے انشراح کے ساتھ عقیدت رکھتا ہے، اسے بھی نبی تسلیم کرتے ہیں۔ علاوہ ازیں وہ قیامت کے بھی قائل ہیں۔ وہ اخلاقی زندگی کو بڑی وقعت دیتے اور دعا، صدقہ اور صیام کو اپنی عبادات کا حصہ سمجھتے ہیں۔۔۔۔۔ چونکہ عیسائیوں اور مسلمانوں کے درمیان صدیوں تک جنگ و جدال کا سلسلہ رہا ہے،اس لیے یہ مشاورتی کونسل تمام لوگوں سے ماضی کو بھلادینے اور پورے خلوص کے ساتھ باہمی مفاہمت کی اپیل کرتی ہے۔‘‘
تاہم گزشتہ تیس سالوں کے دوران دنیا کے سیاسی حالات نے پھرکچھ اس طرح پلٹا کھایاہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں عیسائی دنیا کے خیالات بالکل بدل کر رہ گئے ہیں۔ اس سلسلے میں سوویٹ یونین کا خاتمہ اور امریکہ کا واحد عالمی طاقت بن کر دنیا کے صفحے پر نمودار ہونا خاص اہمیت رکھتا ہے۔ مگر اسباب کچھ بھی ہوں،اس حقیقت سے انکار نہیں کِیا جاسکتا کہ اِس وقت صلیبی فتنہ نے پھر سے سر اُٹھانا شروع کر دیا ہے اوریورپی عیسائی اقوام کے اندراسلام کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی مہم بڑی شدت سے پیدا ہوکراسلام اور مسلمانوں کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ چنانچہ گزشتہ صدی کے آخری سالوں میں سلمان رشدی کا اسلام کے خلاف پیدا کیا ہوا فتنہ جس کو یورپی حکومتوں کی پوری حمایت حاصل ہے، بعض یورپی اخبارات کا اسلام اور اسلام کے مقدس بانی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں قابل اعتراض اور اشتعال انگیز تصویروں اور مضامین کا شائع کرنا،بعض یورپی ممالک کا اسلامی پردہ پراور مسجدوں کے میناروں کی تعمیر پر پابندیاں عائد کرنا، اس مہم کا کھلا کھلا ثبوت ہیں۔

مسجد اقصیٰ فلسطین کا ایک قدیم منظر

تاہم عیسائی دنیا کی طرف سے اسلام کے خلاف اٹھنے والی اس نئی فتنہ انگیزی سے تعلق رکھنے والا سب سے خطرناک فتنہ جس نے عرب مسلمانوں کے دل چھلنی کرکے رکھ دیے، وہ ہے جوابھی چند سال پہلے ایک مصری عیسائی پادری زکریا بطرس نے پیدا کیا۔(یہ مصری عیسائی پادری قبرص سے نشر ہونے والے ایک عیسائی چینل ’’الحیاۃ‘‘ کا بانی مبانی ہے) اس نے اپنی اس اسلام دشمن مہم کاآغازایک نہایت ہی بھونڈے طریق سے کِیا۔ یعنی اس نے اہل اسلام کے ان عقائد کی بنیاد پر کِیا جو مسلمانوں میں ہمیشہ نزاع اور تفرقہ کا باعث بنے رہے ہیں اور جن کا قرآن کریم کی بنیادی تعلیم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔مثلاً قرآن کریم میں ناسخ و منسوخ کا مسئلہ، قتل مرتدکا مسئلہ ،وغیرہ۔چنانچہ اس پادری نے مختلف اسلامی فرقوں کے آپس میں اختلافی مسائل کوپیش کر کے پہلے تو ان کا مذاق اڑایا اور پھر ان کی بنیاد پر شکوک و شبہات کو ہوا دے کر بعض ایسے عربوں کے خیالات کو اپنے موقف کی تائید میں پیش کِیا جو اسلام چھوڑ کر عیسائیت اختیار کر چکے تھے۔ عرب مسلمانوں میں سے بعض نے اس کے ان اعتراضات کا جواب دینے کوشش بھی کی مگر علم کے فقدان اور اختلافی مسائل کی بحث میں مہارت کی کمی کے باعث وہ اپنے موقف کو مضبوط کرنے کی بجائے اسے اَور زیادہ کمزور کرنے کا باعث بن گئے۔اِدھر یہ پادری تھا کہ مسلمان علماء کی کتابوں اوران کی لکھی ہوئی قرآنی تفاسیرمیں سے حوالے نکال نکال کر دکھاتا اوربڑے زور سے کہتا چلا گیا کہ مسلمانوں میں سے اگرکوئی ہے تو میرے سامنے آئے اورمیرے سوالوں کا جواب دے۔ وہ تو اپنا گلا پھاڑ پھاڑ کرمصر کی الازھر یونیورسٹی کے علماء کوبھی اپنے مقابلہ پر بلا رہا تھا مگر انہوں نے یہ کہہ کرمقابلہ پر آنے سے انکار کر دیا کہ ہم ایسے پادری کو منہ لگانے کے لیے تیار نہیں۔ دوسری طرف یہ نتیجہ نکلا کہ بعض عرب نوجوان اس پادری کے اس زہریلے پراپیگنڈا سے متأثر ہو کراسلام سے بیزار ہونے لگ گئے ۔
اس موقع پر مَیں ایک بار پھرپاکستان کے اُن مسلمانوں سے جو ملک عزیز کے اندراحمدیوں کو غیرمسلم قرار دینے کے بعد اب ان کی جانوں سے بھی کھیلنے لگ گئے ہیں، پوچھتا ہوں کہ ان کے علماء کہاں تھے جب ابھی دس سال قبل یہ دشمن اسلام اپنے چینل پر اسلام پر پھبتیاں اڑارہا تھا اور جس کی گمراہ کن مہم کے نتیجے میں بعض کمزور طبع عرب مسلمان اسلام چھوڑ کر عیسائیت کی آغوش میں چلے گئے تھے۔ کیا پاکستان کے علماء کی غیرت صرف یہاں تک محدود ہے کہ وہ اپنے ہی ملک کے اُن کلمہ گوؤوں کوتہِ تیغ کردیں جو اُن کے خیال باطل میں دل سے توحید باری تعالیٰ اور رسالتَ محمدیہ کا اقرار نہیں کرتے؟ کیا انہیں دوسرے ملکوں کے اپنے اُن دینی بھائیوں سے کوئی غرض نہیں جو ایک عیسائی پادری کے گمراہ کن پراپیگنڈا سے متأثر ہوکر اپنا دین چھوڑتے جا رہے ہیں؟
مگرعین اُ س وقت جب یہ پادری (زکریا بطرس) اسلام دشمنی پر مبنی اپنا یہ پروگرام بعنوان اسئلہ عن الایمان اپنے خصوصی چینل ’’الحیاۃ‘‘ پر نشر کررہا تھا اور دوسری طرف عرب دنیا کی سب سے بڑی اسلامی یونیورسٹی(جامعہ الازھر) کے چوٹی کے علماء نے بھی اس کا جواب دینے سے انکار کر دیا تو ہمارے عرب احمدی بھائی جو اس ساری صورت حال کا بنظر غور مطالعہ کر رہے تھے، ان کے دل درد سے بے چین ہو گئے۔ چنانچہ اردن کے ایک احمدی دوست مکرم طٰہ قزق صاحب نے لندن میں مقیم اپنے پیارے امام (حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ) کی خدمت میں لکھا کہ اب جماعت کو آگے آنا چاہیے اور اس کام کا بیڑا اٹھانا چاہیے۔اسی طرح ایک مصری احمدی مکرم عمرو عبدالغفار صاحب نے لکھا کہ عیسائیوں کی طرف سے اٹھنے والا یہ نیا فتنہ اپنے عروج کو پہنچ گیا ہے اور متعدد عرب علاقوں کے مسلمان عیسائی ہونے شروع ہو گئے ہیں۔انہوں نے یہ تجویز پیش کی کہ اس پادری کے محض شرارت اور دھوکے پر مبنی پروگرام کا جواب دینے کے لیے جما عت کی طرف سے ایک لائیو پروگرام شروع کِیا جائے۔ اس پر حضرت امام جماعت احمدیہ کی منظوری سے ایک مصری احمدی مکرم مصطفی ثابت صاحب جنہوں نے اندازاً 1955ء میں بیعت کی تھی اور وہ بائبل کا بھی گہرا مطالعہ رکھتے تھے۔ اسی طرح وہ ایک اعلیٰ درجہ کے مصنف بھی تھے اور کئی بارقادیان اور ربوہ کے جلسہ ہائے سالانہ میں بھی شمولیت اختیار کر چکے تھے ، اسی طرح انہیں جماعت کی طرف سے شائع ہونے والی تفسیرالقرآن انگریزی کی پانچ جلدوں میں سے پہلی جلد کا عربی میں ترجمہ کرنے کی بھی سعادت نصیب ہو چکی تھی،انہیں ارشاد ہوا کہ وہ فوراً کبابیر (حیفا) کی جماعت کے امیرمکرم محمد شریف عودہ صاحب سے مل کر اس کام کو شروع کر دیں۔ مکرم مصطفی ثابت صاحب اُس وقت اپنی ملازمت کے سلسلہ میں کینیڈا میں تھے، مگر اپنے آقا کا حکم ملنے پر وہ فوراً کبابیر (فلسطین) پہنچے اور خدا کا نام لے کر اس کام کو شروع کر دیا ۔

مکرم مصطفی ثابت صاحب نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے علم کلام سے لیس ہوکرتھوڑے ہی عرصہ میں تیس قسطوں پر مشتمل ایک ویڈیو پروگرام اجوبہ عن الایمان کے عنوان سے تیار کر لیا اور پھر اسے جماعت کے نشریاتی ادارہ MTA پر قسط وارنشر کرنا شروع کر دیا۔ چونکہ یہ پروگرام تحریری صورت میں تیار کیا گیا تھا اس لیے حضور انور نے فرمایا کہ اسے ویب سائٹ پر بھی ڈال دیا جائے تاکہ وہ لوگ بھی فائدہ اٹھا لیں جن کے پاس ایم ٹی اے کی نشریات دیکھنے کی سہولت موجود نہیں۔ اس کا ایک نتیجہ یہ ہوا کہ کئی ایک عرب اخبارات اور رسالوں نے بھی انہیں شائع کرنا شروع کر دیا۔ بلکہ کئی عرب چینل بھی اس میں دلچسپی لینے لگ گئے۔


اس دوران مکرم مصطفی ثابت صاحب نے تیس مزید اقساط پر مشتمل اس پروگرام کی دوسری سیریز بھی تیار کر لی اور جونہی پہلی سیریز کی نشریات اپنے اختتام کو پہنچیں، ایم ٹی اے کے چینل پر الحوارالمباشر کے نام سے نشر ہونے والے Live پروگرام میں دوسری سیریز کی نشریات بھی شروع ہو گئیں اور ساتھ ساتھ پہلی کھیپ کے تیس پروگرام بھی ایک ایک کر کے مکررنشر کرنے شروع کر دیے گئے ۔
ایم ٹی اے کی ان عربی نشریات کا مثبت نتیجہ یہ نکلا کہ انہیں سن کر اسلام کا درد رکھنے والے وہ غیرت مند عرب جن کے دل اسلام دشمن پادری زکریا بطرس کی تعلّیاں سُن سُن کر چھلنی ہو چکے تھے ، خوشی سے اچھلنے اور اپنے سروں کو اونچا کر کے عیسائی معترضین کی آنکھوں سے آنکھیں ملا نے لگے۔ اس کا پتہ اُن آراء سے چلتا ہے جن کا اظہار انہوں نے احمدیہ چینل الحوار المباشر کے منتظمین سے بذریعہ ٹیلیفون اورخطوط کیا۔ چنانچہ ان میں سے بعض آراء بطور نمونہ پیش ہیں :
سب سے پہلے سعودی عرب کی رہنے والی ایک خاتون اُمّ مُحَمَّد کا ذکر کِیا جاتا ہے اور بتایا جاتا ہے کہ عیسائی چینل کو دیکھ دیکھ کراس کا دل کس قدر زخمی ہو چکا تھا اوروہ دعاؤں میں لگ گئی تھی کہ خدا خود ہی ایسے لوگ پیدا فرما دے جو اس عیسائی چینل کا جواب دیں ۔اور پھرجب جماعت کے چینل پر اس عیسائی پراپیگنڈے کا جواب آنا شروع ہو ا تو اس کا دل کس قدر خوشیوں سے بھر گیا۔ چنانچہ اس نے اپنے دلی جذبات کا اظہار کرتے ہوئے لکھا: ’’مَیں پانچ ماہ کے زائد عرصہ سے عیسائی چینل ’’الحیاۃ‘‘ کودیکھ رہی تھی اور نہایت پریشان تھی کہ کیا عالم اسلام میں کوئی ایک بھی ایسا عالم نہیں جو اس پادری کو جواب دے سکے۔مَیں نے کئی اسلامی اداروں اور شیوخ سے رابطہ کِیا مگر بعض تو صرف جواب دینے کا وعدہ کر کے خاموش ہو گئے مگر اکثر نے یہی کہا کہ تم ایسے چینل دیکھتی کیوں ہو۔اس صورت حال میں میرے سامنے ایک ہی راستہ رہ گیا تھا کہ مَیں اپنے خدا سے اس بارے میں دعا کروں۔ چنانچہ مَیں تہجد کی نماز میں رو رو کر خدا کے حضور دعا کیا کرتی تھی کہ اے خدا! تو خود ہی ایسے لوگ کھڑے کر دے جو اس عیسائی چینل کا منہ توڑ جواب دے سکیں۔الحمدللہ کہ آج میرے خدا نے میری تہجد کی دعائیں سن لی ہیں اور مَیں نے چینل پر آپ کے روشن چہرے دیکھ لیے ہیں۔چونکہ ضرر رساں چیز میں بھی کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہوتا ہے،اس پادری کے اسلام پر حملوں کا کم از کم یہ فائدہ تو ہوا کہ مجھے آپ جیسے نیک لوگوں کو دیکھنے کا موقع مل گیا۔اللہ آپ کے ساتھ ہو!۔‘‘
دوسرے نمبر پرالجزائر کے ایک دوست عبدالرزاق قماش کا ذکر کیا جاتاہے کہ اس نے ایک طرف اپنے علماء کی بے حسی کا رونا روتے ہوئے اور دوسری طرف جماعت احمدیہ کی کوشش کو سراہتے ہوئے کس قدرخوشی سے لکھاکہ ’’نہایت افسوس کی بات ہے کہ اس پادری( زکریا بطرس) کو کمزور مسلمانوں کی عقل اور دماغ میں فساد بھرنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی ہے۔اس سے زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس کی بدزبانیوں کا جواب دینے کے لیے مسلمان علماء میدان سے غائب نظر آتے ہیں۔اس دشمن اسلام کی کارروائی کے جو خطرناک نتائج سامنے آ رہے ہیں، ان میں ایک یہ ہے کہ میرا اپنا بھائی اس کے زیر اثر آ گیا۔ تاہم بفضلہ تعالیٰ مَیں نے عیسائیت کے رد میں احمدیت کے طرز فکر کو استعمال کرتے ہوئے اس کو سمجھانا شروع کِیا اور الحمدللہ کہ مَیں اس پادری کے پھیلائے ہوئے زہرناک خیالات کو اس سے دُور کرنے میں کامیاب ہو گیا ۔ مگر سوچتا ہوں کہ کیا ہر بھٹکنے والے نوجوان کو کوئی ایسا سمجھانے والا مل سکے گا ۔‘‘

اسی طرح مصر کے ایک دوست الحاج ابراہیم نے جماعت کی طرف سے جاری ہونے والے اس پروگرام پر اپنی خوشنودی کا اظہارجن خوبصورت الفاظ میں کِیا،وہ بھی سننے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے جماعت کے منتظمین کے نام اپنے خط میں لکھا : ’’آپ نے یہ خوبصورت پروگرام جاری کرکے مسلمانوں کا جھنڈا کل عالم میں بلند کر دیا ہے۔ ہم نے اپنی طرف سے لاکھ کوشش کی کہ اسلام کے دفاع کے لیے کوئی سامنے آئے لیکن آپ کے سوا کوئی نہ آیا۔مَیں آپ کا اور اس پروگرام کے شروع کرنے والوں کا شکر گزار ہوں۔‘‘
ایک اَور مصری دوست، جن کا نام عبدالحی محمد فتحی ہے، نے جماعتی چینل کو سننے کے بعد مندرجہ ذیل الفاظ میں اس کے منتظمین کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے تحریرکیا: ’’ مَیں اس چینل کے منتظمین کو مبارکباد پیش کرتا ہوں جو نائل سیٹ(Nile Sat) پر اسلام کا دفاع اور زکریا بطرس کے افتراؤں کا جواب دے رہے ہیں اور اس کام میں اپنے خاص اسلوب بیان سے سب پر سبقت لے گئے ہیں۔میرے ایک دوست نے جو اس پروگرام کا عاشق ہے،مجھے اس کے بارے میں بتایااور جب مَیں نے یہ دیکھنا شروع کِیا تو خود بھی اس کی طرف کھنچتا چلا گیا۔‘‘
پھرایک اَور مصری دوست ابراہیم خلیل علی صاحب ہیں جو اس دشمن اسلام زکریا بطرس کے افتراؤں بھرے اعتراضات سن سن کر دل ہی دل میں کڑھ رہے تھے اور جب انہیںجماعت کی طرف سے ہونے والی کامیاب دفاعی کوشش کا پتہ چلا تو انہیں اِس قدر راحت ہوئی کہ اسے اپنے سینوں کے زخموں کی شفا قرار دیتے ہوئے جماعت کے نام اپنے خط میں لکھا کہ ’’مَیں زکریا بطرس کے پروگرام دیکھتا تھا اور نہایت درجہ پسپائی کا شکار ہوجاتا تھا۔ اب آپ کے پروگرام ہمارے سینوں کے زخموں کی شفا لے کر آئے ہیں۔ حق یہ ہے کہ جب تاریکی پھیل جائے تو تب انسان کو نور کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے اور جب انسان دکھ اور آلام کے لمبے دَورمیں سے گزرے تب اسے راحت اور سکون کی صحیح قدر ہوتی ہے۔ ‘‘
بالکل اسی قسم کے جذبات کا اظہار ایک اَور مصری دوست حمدی فوزی السید نے کِیا۔چنانچہ انہوں نے لکھا کہ مفید معلومات پر مبنی پروگرام پیش کرنے پر مَیں آپ کا شکر گزار ہوں۔اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین جزا عطا فرمائے۔آپ لوگوں نے ہمارے رسول کریم ﷺ کا دفاع کر کے ہمارے سینوں کو ٹھنڈا کر دیا ہے۔
ایک اَور عرب دوست مکرم ایھاب خیری تھامی نے لکھا: ’’مَیں ’’الحیاۃ‘‘ ( زکریا بطرس عیسائی کاجاری کردہ چینل) باقاعدہ دیکھتا تھااور اس کے جواب کے لیے اِدھر اُدھر سے مواد اکٹھا کر رہا تھا کہ ایک ہفتہ قبل (یہ مئی 2007ء کی بات ہے) مَیں نے جماعت احمدیہ کا چینل دیکھا تو میری باچھیں کھل گئیں۔مَیں نے آپ کو اسلام کے دفاع میں منفرد پایاہے فبارک اللّہ لکم۔‘‘
مکرم مصطفی ثابت صاحب کے اسلام کے حق میں اس دفاعی پروگرام پر خوشنودی کا اظہار کرنے والے عرب دوست تو بے شمار ہیں مگرذیل میں تین اَور ایسے دوستوں کی آراء پر اکتفا کیا جاتا ہے جو صاحب علم ہونے کے علاوہ معاشرتی لحاظ سے بھی اپنے علاقہ میں اچھا مقام رکھتے ہیں۔
پہلے اردن کے بہت بڑے عالمِ دین عادل ابو مزحیہ ہیں۔ انہوں نے تحریر فرما یا کہ ’’جب زکریا بطرس نے اسلام اور آنحضرتﷺ پر اعتراضات اور بدزبانی کا سلسلہ شروع کیا تو ہم سوچنے لگ گئے کہ ہمیں بھی اس کاجواب دینا چاہیے۔ مگر خیال کیا کہ اس کے لیے بعض دوسرے علماء اور ایک بہت بڑے بجٹ کی ضرورت ہوگی۔ ابھی ہم اس سوچ بچارہی میں تھے کہ جماعت احمدیہ نے اس کے ردّ میں پروگرام شروع کر دیا۔ اسے دیکھ کر پہلے تو ہم نے کہا کہ یہ کل کے بچے ہیں، بھلا یہ اُ س منجھے ہوئے پادری کا کیا جواب دے سکیں گے ۔مگر جب ہم نے جوابات سنے تو ہمیں یہ یقین ہونا شروع ہو گیا کہ ان لوگوں کی تائید میں ضرورکوئی خدائی ہاتھ کام کر رہا ہے۔اس چیز نے ہمیں جماعت کی طرف مائل کرنا شروع کردیا۔‘‘
دوسرے عرب دوست محمد عبدالرؤف ہیں جو مصر کے بلدیہ العریش کے ناظم الامور ہیں،انہو ں نے لکھا : ’’ ایک روز میرے ایک دوست نے بتایا کہ ایک پادری ٹی۔وی پر آنحضرت ﷺ کی شان میں گستا خی کرتا اور گالیاںدیتا ہے۔مجھے یہ سن کر بہت دکھ ہوا۔ایک روز مختلف چینل تلاش کرتے ہوئے جب ایم ۔ٹی ۔اے پر مصطفی ثابت کو مَیں نے اس پادری کے اعتراضوں کا جواب دیتے ہوئے دیکھا تو میری آنکھیں کھل گئیں۔مَیں دعائیں کِیا کرتا تھا کہ مَوت سے قبل مَیں دین کی نصرت کا فریضہ سرانجام دینے والوں کو دیکھ لوں۔ آپ لوگ یقیناً دین اسلام اور مسلمانوں کے لیے آسمانی مدد بن کر آئے ہیں۔‘‘
تیسرے صاحب الازہر یونیورسٹی کے اساتذہ سے تعلق رکھنے والے شیخ عبدالسلام محمد ہیں جو خود بھی بائبل کے علوم کے ماہر ہیں،لکھتے ہیں: ’’مَیں اس کامیاب پروگرام پر آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔اللہ تعالیٰ آپ کو خوشیاں دکھائے اور بہت عزت دے۔ہمارے بچوں نے جب سے یہ پروگرام دیکھنا شروع کیا ہے، وہ خوشی اور فخر سے ایک بار پھر مسکرانے لگے ہیں۔‘‘
اسلام کا درد رکھنے والے عرب مسلمانوں کی یہ آراء بتلارہی ہیں کہ اکیسویں صدی میں اٹھنے والے اس دشمن اسلام زکریا بطرس نے کس قدر فتنہ برپا کیا تھا اور مسلمانوں کا دل کتنا دُکھایا تھا بلکہ اس نے انہیں اسلام سے برگشتہ کرنے کا کس قدر خطرناک منصوبہ بنایا تھا۔ اور اگراس کا جواب دینے کے لیے آج کاسر صلیب کے غلام نہ ہوتے تو مسلمانوں کو کس قدر سبکی اٹھانی پڑتی۔
…………………………
یہاں اگر کوئی یہ خیال کرے کہ جماعت احمدیہ کے چینل ’’الحوار المباشر‘‘ پر نشر ہونے والے پروگراموں کے دیکھنے والوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ یہ پروگرام کرنے والے کون لوگ ہیں اور اگر انہیں معلوم ہو جاتا کہ یہ وہ لوگ ہیں جن کے عقائد سے خود مسلمانوں کو اختلاف ہے تو وہ ان کی تعریف نہ کرتے تو ان کی غلط فہمی دُور کرنے کے لیے خاکسار بتانا چاہتا ہے کہ یہ معلوم ہونے کے باوجود کہ جماعت احمدیہ اپنے عقائد میں دوسر ے مسلمانوں سے اختلاف رکھتی ہے،عرب دوست یہ دیکھ کر کہ آج اسلام پر آنے والے اس نازک دور میں اسلام کا دفاع کرنے والے یہی لوگ ہیں،وہ اس کی تعریف میں رطب اللسان اور اس کی کامیاب دفاعی مہم پر خوشیوں کے گیت گاتے رہے ۔
مثلاً ایک مصری دوست مکرم عبدالوہاب نے احمدیہ چینل پرکام کرنے والوں کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا: ’’ہمارے علماء جو آپ لوگوں کو دین کی حمایت میں پادری زکریا جیسے خطرناک اژدہا اور مسیح الدجال کا مقابلہ کرتے دیکھ رہے ہیں مگر خود اس فاجر کو جواب دینے سے قاصر ہیں،کاش وہ آپ کی تکفیر میں وقت ضائع کرنے کی بجائے ،آپ کے نقش قدم پر چلتے اور اس دشمن اسلام کا مقابلہ کرتے۔‘‘
اسی طرح ایک اَور عرب دوست صابر الفیتوری نے احمدیہ چینل کی تعریف میں لکھا: ’’جب اسلام پر حملے اپنی شدت کی انتہا کو پہنچ گئے، تب الحوارالمباشر کے نام سے ایک چینل رونما ہوا جو جماعت احمدیہ کی ملکیت ہے۔یہی وہ چینل ہے جس نے اپنے پروگرام اجوبہ عن الایمان کے ذریعے جہاں ایک طرف بائبل اور انجیل کا محرّف اور مبدّل ہونا ثابت کیا ،وہاں اسلام پر کئے جانے والے تمام اعتراضات اور تمسخر کا ایسامنہ توڑ جوا ب دیا کہ عیسائیوں کے چینل کو خاموش کر دیا۔ یقیناً الحوار المباشر نے گفت و شنید اور دلائل سے کام لے کر وہ کچھ کر دکھایاہے جسے سرانجام دینے کے لیے ہماری تمام دیگر تبلیغی جماعتیں قاصر رہیں۔‘‘
پھر ایک اَور عرب دوست عبدالوہاب دندش صاحب نے احمدیہ چینل کے منتظمین کو مخاطب کرتے ہوئے مصر سے لکھا: ’’میرے بھائیو اور روئے زمین پر سب سے اچھی اور خوبصورت گفتگو کرنے اور پروگرام چلانے والو!اللہ آپ کو لمبی عمر دے اور آپ کی رہنمائی فرمائے۔آپ کے منفرد پروگرام الحوار المباشر نے میرا دل خوشی سے بھر دیا ہے۔ مَیں نے آپ کے بارے میں بہت کچھ پڑھا اور سنا ہے ۔ جب مَیں آپ کی بات کرتا ہوں تو بعض لوگ میری مخالفت کرتے ہیں اور مجھے بھی کافر کہہ دیتے ہیں۔مَیں ان سے کہتا ہوں کہ اگر احمدی واقعۃً اُس مہدی کے پیروکار ہیں جس کی بشارت آنحضرت ﷺ نے دی ہے تو پھر ان کی مخالفت کر کے ہم تو بہت بڑے گھاٹے اور نقصان میں پڑنے والے ہو جائیں گے۔‘‘
ایک اَور مصری دوست السید محمد حسین صاحب کا وہ تبصرہ بھی پڑھنے کے لائق ہے جو انہوں نے 6؍دسمبر 2007ء کو الحوار المباشر میں کام کرنے والوں کوفون کرتے ہوئے کیا۔انہو ں نے کہا: ’’مَیں مصر کے زمیندار طبقے کا ایک عام سا آدمی ہوں مگر مَیں جانتا ہوں کہ عیسائیوں کے مجسم فسق پر مبنی چینل کا جواب دینے کے لیے آپ لوگ ہی آگے آئے اور اسلام کا جھنڈاسر بلند کرکے دکھا دیا۔آپ احمدی کہلائیں یا محمدی ،میرے نزدیک آپ ہی حقیقی مسلمان ہیں۔ اللہ آپ کو اپنے نوروں سے مالا مال کرے۔‘‘
بلکہ جامعۃ الازہر کے ایک پروفیسرعمر الشاعر صاحب نے تو یہ سب کچھ جانتے ہوئے کہ ایم ٹی اے جماعت احمدیہ کا چینل ہے اور جماعت احمدیہ سے ہمارے اختلافات ہیں، بڑے زور سے کہاکہ ہمیں خوشی ہے کہ آخر ایک مسلمان چینل نے زکریا بطرس عیسائی پادری کی ہرزہ سرائیوں کا منہ توڑ جواب دیا ہے اور اس طرح پرقرانی حکم اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکمَۃِ وَالمَوعِظَۃِ الحَسَنَۃِ وَجَادِلھُم بِالّتِی ھِیَ اَحْسَنُ کے تقاضوں کو خوب پورا کِیا ہے۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ آخر مصطفی ثابت صاحب کے جوابات میں وہ کونسی بات تھی جو دوسرے علمائے اسلام کو نہ سوجھی مگر جس نے اس دشمن اسلام پادری کا ناطقہ بند کر کے رکھ دیا،تو اس کا جواب یہ ہے کہ مصطفی ثابت صاحب نے حضرت کاسر صلیب یعنی حضرت بانی ٔ سلسلہ احمدیہ علیہ السلام کے علم لدنی سے بھر پور استفادہ کرنے کے علاوہ آپ کے بیان کردہ اس بنیادی اصول کو سامنے رکھا کہ ہر شخص کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے مذہب کے اعتقادات کی بحث کے وقت صرف اپنے مذہب کی الہامی کتب کو پیش کرے۔اسی طرح اعتراض کرنے والا بھی دوسرے مذہب کے صرف وہ عقائد پیش کرے جو اس مذہب کی الہامی کتب سے ثابت ہوں۔حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی زندگی میں عیسائیوں سے بحث کے وقت اسی اصول کو مدّنظر رکھاتھااور ان پر دلائل کے میدان میں فتح عظیم پائی تھی۔چنانچہ مصطفی ثابت صاحب نے یہی طریق اختیار کیا اور عیسائی پادری کی بیان کردہ عیسائیت کی تعلیم کو بائبل سے ہی غلط ثابت کر کے دکھادیا۔اسی طرح انہوں نے ان تمام اعتراضات کو ماننے سے انکار کر دیاجو اسلام کے مختلف فرقوں کے آپس میںمتناقض بیانات یا ان کی تفاسیر کے اختلاف سے پیدا ہوتے ہیں۔
مکرم مصطفی ثابت صاحب کی پہلی تیس قسطوں پرمشتمل سیریز کے نشر ہونے پر اللہ تعالیٰ نے اس کی پذیرائی کی ایک یہ صورت پیدا فرمائی کہ ان کے ایک مصری غیراحمدی دوست احمد رائف جو مصر میں الزھراء للاعلام العربی کے نام سے اپناایک دارالنشرچلا رہے ہیں،نے ان سے رابطہ کیااور اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ ’’اجوبہ عن الایمان‘‘کے تحت نشرہونے والے ان کے تمام پروگراموں کو کتابی صورت میںاپنے دارالنشر کی طرف سے شائع کرنا چاہتے ہیں۔ پھران کے اجازت دینے پراحمد رائف صاحب نے کتاب کا مقدمہ ایک ایسی شخصیت سے لکھوایا جو اسلامی حلقوں میں عصر حاضر کے ایک مشہور ومعروف اسلامی سکالر تسلیم کئے جاتے ہیں۔ان کا نام ڈاکٹر محمد عمارہ مصطفی ہے اور وہ سو سے زیادہ کتب کے مصنف ہیں۔ انہوں نے چودہ صفحات پر مشتمل اپنے مقدمہ میں علاوہ دیگر امور کے لکھا کہ ’’کتاب کا مؤلف اس کتاب کے ذریعے جنگ کو اس کے حقیقی اور طبیعی میدان میں لے آیا ہے اور جنگ کا رخ اُن عیسوی عقائد کی طرف موڑ دیا ہے جن پر اس پادری اور اس کے ہمنواؤں کا ایمان ہے۔… اس نے نہ صرف یہ کہ ان کے عقیدہ کے اصول توڑ دیے ہیں بلکہ ایسا عقیدہ رکھنے والوں کے فکری دیوالیہ پن کا پردہ بھی چاک کر کے رکھ دیاہے۔نیز ان دشمنان اسلام نے اسلامی نصوص کے استعمال میں جس صریح جھوٹ اور دجل و فریب سے کام لیاہے،اس نے اسے بھی بے نقا ب کر کے دکھا دیا ہے۔‘‘
پھر ڈاکٹر عمارہ صاحب ہی کی کوشش سے یہ کتاب جامعہ الازھر کی خصوصی کمیٹی مجمع البحوث الاسلامیہ میں بھی پیش ہوئی جس کی سفارش پر اور شیخ الازھر کی اجازت سے اس کے رسمی جریدہ صوت الازھر میں بھی قسط وار شائع ہونے لگی۔ بلکہ الازھر والوں نے اس پروگرام کے متن کو اپنی طرف سے رسمی جواب کے طور پر عیسائی معترضین کے سامنے رکھنا شروع کردیا۔
یہاںیہ بات قابل ذکر ہے کہ اگرچہ مصطفی ثابت صاحب نے اجوبہ عن الایمان لکھتے وقت کہیں بھی جماعت احمدیہ کا نام نہیں لیا اور اپنی بحث کو کلیۃً عیسائی عقائد کے ردّ تک محدود رکھا مگر چونکہ یہ پروگرام جماعت کے جاری کردہ لائیو چینل ’’الحوار المباشر‘‘ پر نشر ہو رہا تھا،اس لیے لوگوں کو جلد معلوم ہو گیا کہ اس کتاب کا مؤلف کوئی احمدی ہے۔ ا س پرمسلمانوں کی طرف سے مختلف قسم کی قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں۔ اب اگرچہ زیادہ تر قیاس آرائیاں مثبت انداز میں تھیں مگراِن میں سے اکثر کی تان ڈاکٹرعمارہ کے چودہ صفحات پر مشتمل اس مقدمہ پر ٹوٹتی تھی جس کے متن کا کچھ حصہ بطو رمثال اوپر دیا گیا ہے۔بلکہ ایک شخص نے یہ لکھا کہ ڈاکٹر عمارہ نے شاید مصطفی ثابت کی کتاب کا مقدمہ اس لیے لکھ دیا کہ انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ وہ (مصطفی ثابت صاحب) احمدی ہیںاور یہ کہ اب انہیں ایک بیان کے ذریعہ اپنے اس مقدمہ کو واپس لے لینا چاہیے۔اب جب اجوبہ عن الایمانکی تیس اقساط پر مشتمل دوسری سیریزشائع ہوئی اور اس کا مقدمہ بھی ڈاکٹر محمد عمارہ نے ہی لکھا تو اپنے اس مقدمہ کے آخر پر ڈاکٹر محمد عمارہ نے ایک ایسی بات لکھی جس نے ایسے جملہ معترضین کے منہ بند کر دیے۔انہوں نے لکھا:
’’پہلے حصہ کی اشاعت پر بہت سے لوگوں نے شور مچایا ہے کہ ایسی کتاب کی اس قدر پذیرائی کیوں کی گئی ہے جس کے مؤلف کے مذہب سے جمہور مسلمین کا اختلاف ہے۔اس کے جواب میں ہم سب کو یہ زریں اصول یاد دلاتے ہیں کہ لا تَعرِفِ الحَقَّ بالرِّجال ولٰکن اِعرَفِ الحَقَّ تَعرِفْ اَھْلَہٗ یعنی کسی کی شخصیت کی بِنا پر حق کے حق ہونے کافیصلہ نہ کر بلکہ حق کو دیکھ تو تجھے خود ہی اہل حق کا پتہ لگ جائے گا۔اس کے مطابق ہم اپنے آپ کو ایک کلمہ حق کے سامنے پاتے ہیں ، ہمیں اس کے مذہب سے کوئی سروکار نہیں۔‘‘
اوپر کے صفحات میں جس ادبی شخصیت کے متعلق کہا گیا ہے کہ انہوں نے اجوبہ عن الایمانکی تیس تیس اقساط پر مشتمل دونوں سیریز اپنے دارالنشر سے کتابی صورت میں شائع کیں،اس نے اس سلسلہ میں ایک اَور قدم یہ اٹھایا کہ اس کتاب کے بعض حصوں کو بعض اُن علماء کے سامنے پیش کیا جو یونیورسٹیوں میں تحقیقی مقالہ جات پرڈاکٹریٹ کی اعزازی ڈگریاں تفویض کرتے ہیں۔اُن سب نے انہیں بہت سراہااور وہ اس قدرمتأثر ہوئے کہ وہ کتاب کے مصنف یعنی مصطفی ثابت صاحب کو’’ڈاکٹریٹ ‘‘کی اعزازی ڈگری دینے پر تیار ہو گئے۔ اس ڈگری کی اگرچہ کوئی عالمی حیثیت نہیں ہے تاہم یہ اُس شخص کی علمی اور دینی فضیلت کی ضمانت بن جاتی ہے جسے وہ تفویض کی جائے۔ اس اعزاز کے ملنے پر جناب مصطفی ثابت صاحب کے نام کے ساتھ ’’الدکتور‘‘ کے لفظ کا اضافہ ہونے لگا۔
…………………………

تقدس مآب پوپ بینیڈکٹ

ستمبر 2006ء میں جرمن قومیت رکھنے والے اُس وقت کے پوپ شش دہم XIV Benedikt نے ریگن برگ (Regensburg) کی جرمن یونیورسٹی میں تقریر کرتے ہوئے اسلام اور آنحضرت ﷺ کی ذات مطہرہ پر منجملہ دیگر بہتانات کے، یہ الزام لگایا کہ آپؐ کا لا اکراہ فی الدین کادعویٰ صرف اُس وقت تک تھا جب مسلمان عددی اور عسکری لحاظ سے کمزور تھے۔ لیکن جونہی آپ کو اسلام کے منکروں پرفوجی لحاظ سے برتری حاصل ہو گئی تو آپؐ نے ان کے خلاف اعلان جنگ کر دیا۔ پوپ کی اِس ہرزہ سرائی اورتاریخی حقائق کے سراسر منافی اس بیان کا جواب دینے کی پاکستانی یا عرب علماء میں سے تو کسی کو توفیق نہ ہوئی،یہ صرف جماعت احمدیہ ہی تھی جس نے تین سو صفحات پر مشتمل ایک کتاب لکھ کر پوپ موصوف کی ان غلط بیانیوں کا بھرپور اور مسکت جواب دیااوراسے کئی ہزارکی تعداد میں شائع کرکے جرمنی بھر میں تقسیم کیا ۔ یہ کتاب بزبان جرمن بعد میںGlaube und Vernunft کے نام سےAntwort auf die Regensburger Vorlesung vom Papst Benedikt XVI کے تشریحی عنوان کے تحت 2007ء میں جماعت احمدیہ کے نشریاتی ادارہ Verlag Der Islam کی طرف سے شائع ہوچکی ہے ۔
حیرت ہے کہ جرمنی میں جماعت احمدیہ کی تعمیر شدہ قریباً نصف صد مساجد کو دیکھ کراور ان کے میناروں سے پانچ وقت بلند ہونے والی توحید باری تعالیٰ اور رسالت محمدیہ پر مبنی اذان کی آواز سن کر تو بعض مسلمانوں کی رگِ حمیت فوراً بھڑک اٹھتی ہے اور اُن کا اسلام خطر ے میں پڑ جاتا ہے مگراسی ملک کے اندر ایک دشمنِ اسلام کے منہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ناموس کے خلاف تقریر سن کران کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی؟

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں