اسپرین کا استعمال احتیاط طلب ہے – جدید تحقیق کی روشنی میں

اسپرین کا استعمال احتیاط طلب ہے – جدید تحقیق کی روشنی میں
(ناصر محمود پاشا)

بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اسپرین خون کو پتلا کرتی ہے اس لئے عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کا باقاعدہ استعمال دل، دماغ اور دیگر اعضائے رئیسہ کی شریانوں‌کے مسائل سے محفوظ رکھتا ہے- اس حوالہ سے جدید تحقیق کی روشنی میں چند رپورٹس پیش ہیں جن سے کم از کم یہ علم ہوجائے گا کہ دوا کے استعمال کا فیصلہ خود کرنے کی بجائے اپنے ڈاکٹر پر چھوڑنا چاہئے-
٭ برطانوی اخبار ٹیلی گراف نے سائنسدانوں کی تحقیق کے حوالے سے کہا ہے کہ ایسے صحت مند لوگ جو عارضہ قلب سے بچاؤ کے لئے اسپرین کا استعمال کرتے ہیں ممکن ہے کہ وہ اپنے لئے مزید نقصان کررہے ہیں۔ لاکھوں لوگ جس میں صحت مند لوگ بھی شامل ہیں وہ اس یقین سے دوائی استعمال کرتے ہیں کہ یہ انہیں صحت مند رکھے گی، لیکن تحقیق سے یہ بات واضح ہوئی ہے کہ اس دوائی کو بلاناغہ استعمال کرنے سے بھی عارضہ قلب کے خطرات کم نہیں ہوتے بلکہ اندرونی خون کے بہاؤ میں اضافے سے خطرات مزید دوگنا ہوجاتے ہیں۔ تحقیق سے بات سامنے آئی ہے کہ ہارٹ اٹیک کے خطرے سے بچنے کے لئے ڈاکٹرز اس دوا کو استعمال کرنے کا مشورہ ضرور دیتے ہیں لیکن اس سے خطرات میں کمی واقع نہیں ہوتی۔ یہ تحقیق سکاٹ لینڈ میں کی گئی ہے اور اس کے نتائج بارسلونا میں ہونے والی یورپین سوسائٹی آف کارڈیالوجی کی کانگریس میں پیش کئے گئے ہیں۔ جس میں کہا گیا ہے کہ ڈاکٹروں کو عام لوگوں کو صرف حفاظتی اقدامات کے طور پر اس دوا کو تجویز نہیں کرنا چاہئے۔ یہ تحقیق29 ہزار مرد خواتین پر کی گئی جن کی عمریں 50سے 75 برس کے درمیان تھیں۔
٭ برطانوی ماہرین نے کہا ہے کہ جو لوگ واضح طور پر امراض قلب میں مبتلا نہیں ہیں، اُنہیں چاہئے کہ دل کے دورے اور فالج کے حملے سے بچنے کے لئے اسپرین کا استعمال نہ کریں لیکن جو لوگ امراض قلب میں مبتلا ہیں یا اُنہیں دل کا دورہ پڑ چکا ہے یا فالج سے متأثرہ ہیں، اُنہیں مستقبل میں اسی قسم کے مسائل سے بچانے کے لئے اسپرین کی کم خوراک تجویز کی جانی چاہئے۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ 2005ء سے 2008ء تک کے طبّی جائزوں میں ابتدائی حفاظت کے لئے اسپرین دیئے جانے پر کوئی اعتراض نہیں کیا گیا تھا تاہم 2009ء میں 95ہزار مریضوں پر مشتمل چھ طبّی تجربات کی روشنی میں اُن مریضوں میں اسپرین کے استعمال کی حمایت نہیں کی گئی کیونکہ اسپرین کے استعمال سے بعض مریضوں کی آنتوں کے اندر خون کا رساؤ شروع ہوسکتا ہے۔
٭ دل کے دورے سے بچنے کے حوالے سے اسپرین دوا پر کافی تحقیقی کام کیا جاچکا ہے جو آج بھی جاری ہے۔ اگرچہ دل کے دورے کو دُور رکھنے کے لئے اسپرین کا روزانہ استعمال ایک معیاری علاج بن چکا ہے جبکہ حال ہی میں مکمل ہونے والی ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ دل پر اسپرین کے تحفظاتی اثرات زیادہ تر مردوں پر کارگر ہوتے ہیں۔ اسی طرح بعض تجربات کے مطابق اسپرین سے دل کے دورے کا خطرہ پچاس فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔ لیکن دوسری طرف بعض تجربات سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ اسپرین اور کسی ڈمی ٹیبلٹ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ نئی تحقیقات میں ڈاکٹروں نے اس حوالے سے کی جانے والی 23 سابقہ تحقیقات کے نتائج کا جائزہ لیا۔ پھر انہوں نے یہ تجزیہ بھی کیا کہ اسپرین کے فوائد سے مستفید ہونے والے مریضوں میں مردوں اور عورتوں کا تناسب کتنا تھا۔ وینکوور، کینیڈا کی برٹش کولمبیا یونیورسٹی کی تحقیقی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر ڈان سَن کا کہنا ہے کہ گزشتہ کی جانے والی تمام تحقیقات کے تجزیے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ صرف مردوں پر ہی اسپرین کے فوائد کارگر ہوتے ہیں جبکہ خواتین مریضوں پر یہ دوا مفید ثابت ہونے میں عمومی طور پر ناکام رہی ہے۔ اورا سپرین کے استعمال سے مردوں کے مقابلے میں خواتین کے لئے دل کے دورے کے امکانات میں کوئی واضح کمی سامنے نہیں آئی ہے۔
٭ لندن میں طبی ماہرین نے کہا ہے کہ اسپرین شراب نوشی اور درد دور کرنے والی ادویات کے مضر اثرات سے جگر کو تحفظ فراہم کرتا ہے ۔یونیورسٹی آف یالے کے طبی ماہرین کی اس تحقیق کو ’’جرنل آف کلینکل انوسٹی گیشن‘‘ نے شائع کیا ہے۔ان ماہرین نے جگر کی بیماری پر اسپرین کے استعمال کے تجربات چوہوں پر کئے جس میں چوہوں کے اندر جگر کی سوزش اور دیگر بیماریوں میں قابو پانے میں مدد ملی۔ طبی ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ اسپرین کی کیمیکل ردعمل کی وجہ سے جگر کا تحفظ ممکن ہے مگر دوسری جانب برٹش لیور ٹرسٹ نے کہا ہے کہ ان تجربات کے نتائج ابھی انسانوں پر نہیں کئے گئے اس لئے اس بارے میں کوئی حتمی رائے نہیں دی جا سکتی جبکہ تحقیق کرنے والے ماہرین نے تواقع ظاہر کی ہے کہ پیراسیٹامول اور شراب کی وجہ سے جگر کی سوزش کو اسپرین کی خوراک سے دور کرنا ممکن ہے۔
٭ ایک تحقیق کے بعد بتایا گیا ہے کہ ایک برس کے دوران کم از کم ایک بار اسپرین یا آئی بروفین جیسی دوائیں استعمال کرنے والے افراد خود کو معدے کے سرطان سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ اس تحقیق میں تین لاکھ سے زائد افراد شامل کئے گئے تھے اور تحقیق کا یہ سلسلہ سات برس تک جاری رہا۔ گذشتہ ایک سال کے دوران اسپرین لینے والے افراد میں یہ دوائی نہ لینے والے افراد کے مقابلے میں معدے کے درمیانی یا نچلے حصے میں کینسر لاحق ہونے کے امکانات 36 فیصد کم رہے۔نیز جن افراد نے جلن مٹانے والی کسی قسم کی ادویات مثلاً آئی بروفین کا استعمال کیا تھا، ان میں کینسر کا خدشہ 32 فیصد کم رہا۔ بلکہ یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ جن لوگوں نے جتنی زیادہ یہ ادویات لیں اتنا ہی زیادہ یہ افراد اس مرض سے بچے رہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ معدے کے بالائی حصے اور غذائی نالی کے سرطان کے لئے یہ دوائیں قابل عمل نہیں ہیں۔ رپورٹ کے آخر میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ چونکہ قبل ازیں کی جانے والی تحقیقات کے نتائج حالیہ نتائج سے برعکس تھے اس لئے دونوں مطالعاتی جائزوں کو ملانے سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ اسپرین اور آئی بروفین جیسی ادویات معدے اور غذائی نالی کے قریباً تمام قسم کے کینسرز کے خلاف معاون ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں