اصحاب احمدؑ اور قبولیت دعا

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24 اور 25؍اپریل 2003ء کے دو مختلف مضامین (مرتبہ: مکرم شکیل ناصر صاحب اور مکرم عطاء الوحید باجوہ صاحب) میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بعض اصحاب کی دعاؤں کی قبولیت کے واقعات پیش کئے گئے ہیں۔
حضرت مولانا غلام رسول راجیکی صاحبؓ فرماتے ہیں کہ ایک بارمَیں دعوت الی اللہ کے لئے سفر پر تھا کہ میرا لڑکا مبشر احمد بعمر چار پانچ سال بخار میں مبتلا ہوگیا اور بخار کو آتے ہوئے 29؍روز گزر گئے تو آنکھیں متورم ہوکر پیپ پڑگئی اور ڈاکٹروں نے مایوسی کا اظہار کردیا۔ دفتر نے بذریعہ تار مجھے اطلاع دی تو مَیں قادیان آیا۔ بچہ کی حالت دیکھی تو بہت بے چین ہوا اور فوراً وضو کرکے ایک عریضہ حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ کی خدمت میں دعا کے لئے لکھا اور خود ایک کوٹھڑی میں دروازہ بند کرکے دعا میں مصروف ہوگیا۔ خدا تعالیٰ کے فضل سے مجھے اضطراری حالت میسر آگئی اور محسوس ہونے لگا کہ دعا قبول ہوگئی ہے۔ آدھ پون گھنٹہ بعد باہر نکل کر بچہ کو دیکھا تو اُس کا بخار اُترا ہوا تھا۔ معمولی سی دوائی کے استعمال سے چند دنوں میں بچہ کی آنکھیں بھی صاف ہوگئیں۔
آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ جن دنوں مَیں لاہور میں ٹھہرا ہوا تھا تو میاں فیروزالدین صاحب احمدی سخت پریشانیوں میں مبتلا ہوگئے۔ اُن کی ہمشیرہ نے خواب میں دیکھا کہ اگر وہ مجھ سے دعا کرائیں تو جملہ مصائب خدا تعالیٰ کے فضل سے دُور ہوجائیں گے۔ چنانچہ انہوں نے مجھے دعا کی تحریک کی۔ مَیں نے وعدہ کیا کہ جب دعا کا کوئی خاص موقعہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے میسر آئے گا تو مَیں انشاء اللہ دعا کروں گا۔ ایک دفعہ اُن کے واسطے مجھے دعا کی خاص تحریک ہوئی تو پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ اُن کی بیوی بعارضہ جنون بیمار ہے، مالی پریشانیاں ہیں اور اولاد نرینہ کے لئے دعا کریں۔ مَیں نے دعا کی اور قلبی تحریک کی بناء پر اطلاع دے دی کہ تینوں مقاصد اللہ تعالیٰ پورا فرمادے گا چنانچہ اُن کی بیوی کی بیماری ہفتہ عشرہ میں دُور ہوگئی، بیکاری بھی اتنے ہی عرصہ میں جاتی رہی اور ایک سال کے اندر اللہ تعالیٰ نے لڑکا عبدالحمید بھی دیدیا جو کہ اب صاحب اولاد ہے۔
آپؓ فرماتے ہیں کہ منشی اللہ دتہ صاحب سیکرٹری جماعت موضع پریم کوٹ کی شادی کو تیس سال ہوچکے تھے لیکن کوئی اولاد نہ تھی۔ مَیں نے اُن کو کہا کہ دوسری شادی کرلیں۔ بعض دوستوں نے کہا کہ وہ تو بوڑھے ہوچکے ہیں۔ مَیں نے عرض کیا کہ حضرت زکریاؑ کو بڑھاپے کی حالت میں حضرت یحییٰ ؑ جیسا فرزند مل گیا، پھر خدا تعالیٰ سے نااُمیدی کیوں؟ چنانچہ مَیں نے اُن سے شادی کے لئے اصرار کیا۔ وہ کہنے لگے کہ اس عمر میں رشتہ کون دے گا۔ مَیں نے کہا کہ آپ عزم کرلیں، اللہ تعالیٰ سامان پیدا فرمادے گا۔ چنانچہ 1943ء کے جلسہ سالانہ پر وہ قادیان آئے تو مجھے ملے ۔ اُن کے ساتھ اُن کی جوان بیوی اور ایک خوبصورت بچہ بھی تھا۔ اس کے بعد خدا کے فضل سے اَور بھی اولاد ہوئی۔
حضرت مولانا محمد ابراہیم بقاپوری صاحبؓ فرماتے ہیں کہ میری کتاب ’’حیات بقاپوری‘‘ کا انگریزی ترجمہ مکرم ماسٹر محمد علی صاحب نے کیا تو بعض نے رائے دی کہ اس پر نظرثانی مکرم پروفیسر اخوند عبدالقادر صاحب سے کروالوں تو بہتر ہے۔ اتفاق سے اُسی شام پروفیسر صاحب میرے مکان پر آئے اور فرمایا کہ میرے بیٹے نے بی۔اے کا امتحان دینا ہے، اُس کی اعلیٰ کامیابی کے لئے دعا کریں۔ مَیں نے جان لیا کہ یہ تقریب اللہ تعالیٰ نے میری کتاب کی نظرثانی کے لئے پیدا فرمائی ہے اور وہ لڑکے کو بھی کامیاب فرمائے گا۔ مَیں نے اُن سے دعا کا وعدہ کیا اور کہا کہ میرا بھی ایک کام ہے۔ دو دن بعد آئیں۔ چنانچہ دو دن بعد وہ آئے تو مَیں نے اللہ تعالیٰ کی اطلاع اُنہیں دی کہ لڑکا اعلیٰ نمبروں پر پاس ہوجائے گا۔ وہ خوشی سے میری کتاب لے گئے اور نظر ثانی کردی۔ بعد میں اُن کا لڑکا بھی شاندار نمبر لے کر اوّل آیا۔
پھر فرماتے ہیں کہ نیروبی سے عزیز قاضی لئیق احمد کا امتحان میں کامیابی کے لئے خط آیا تو مَیں نے دعا کے بعد خوشخبری لکھ دی کہ اعلیٰ نمبروں میں کامیاب ہوگا۔ نتیجہ کے بعد اُس کا خط ملا کہ اُس نے دو سال کا کورس ایک سال میں کیا تھا اور امتحان کے دوران انفلوئنزا کی وجہ سے بیمار بھی رہا لیکن خوشخبری کے مطابق امتحان میں کامیاب ہوگیا۔
آپؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک صبح مَیں مکرم ظہور احمد صاحب باجوہ کے مکان پر گیا تو وہاں چودھری حمیداللہ خانصاحب نے دعا کی درخواست کی کہ انہوں نے L.L.Bکا امتحان دیا ہے۔ مَیں نے دعا کی تو القاء ہوا کہ ’’اگر وہ تمہارے مکان پر آجائے تو کامیاب ہوگیا‘‘۔ یہ اطلاع انہیں بھجوائی گئی تو وہ دو تین دفعہ میرے مکان پر آئے۔ جب نتیجہ نکلا تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے کامیاب رہے۔
مکرم حافظ عبدالرحمن بٹالوی صاحب بیان کرتے ہیں کہ جب یونیورسٹی کے امتحان شروع ہوتے تو حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ بلاناغہ صبح کے وقت تشریف لاتے اور لڑکوں کی معیت میں دعا کرکے اُنہیں ہال میں داخل کرتے۔ ایک روز بعد میں مَیں نے عرض کیا کہ میری بیٹی نے بھی F.A. فلاسفی کا امتحان دینا ہے، دعا کریں۔ آپؓ کچھ جواب دیئے بغیر میرے ساتھ ہولئے اور ہائی سکول کے برآمدہ میں پہنچ کر خاص رقّت کے ساتھ لمبی دعا کی اور فرمایا کہ بچی کامیاب ہوجائے گی۔ چنانچہ وہ ضلع گورداسپور میں اوّل آئی۔
مکرم عبدالمجید صاحب بیان کرتے ہیں کہ میٹرک کا امتحان دینے سے قبل مَیں ایسی ذہنی پریشانیوں میں مبتلا تھا کہ ہمت جواب دے رہی تھی۔ حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ کو میرے حالات کا علم تھا۔ آپؓ کے ہمت دلانے پر مَیں نے لیٹ فیس کے ساتھ داخلہ بھیج دیا۔ آپؓ نے فرمایا کہ پہلا پرچہ ہوجائے تو مجھے بتانا اور یہ کہ کسی فکر کے بغیر امتحان دیتے جاؤ۔ جب پہلا پرچہ ہوا تو مَیں نے نہایت مایوسی کے لہجہ میں جاکر بتایا کہ صرف دو چار نمبر کا پرچہ کرسکا ہوں۔ آپؓ مسکرائے اور فرمایا کہ مَیں نے تمہارے لئے خاص دعا کی ہے اور مجھے بتایا گیا ہے کہ ’’مجید کو کہو کہ پرچوں پر رول نمبر تو لکھ آئے، باقی ذمہ داری ہم لے لیں گے‘‘۔ نیز فرمایا کہ جب تک نتیجہ نہ نکلے اس بات کا کسی سے ذکر نہ کریں۔ حقیقت یہ ہے کہ میرے تمام پرچے نہایت ہی خراب ہوئے اور کسی میں بھی کامیابی کی امید نہیں تھی لیکن جب نتیجہ نکلا تو مَیں 444 نمبر لے کر سیکنڈ ڈویژن میں کامیاب تھا۔
حضرت ماسٹر عبدالرحمن صاحب جالندھری نومسلم فرماتے ہیں کہ 1899ء میں F.A.کا امتحان دینے کا ارادہ کیا تو چھ ماہ میں نصاب کی بعض کتب کی تیاری کرلی لیکن نواحمدی ہونے کی وجہ سے اور عربی کا کوئی استاد نہ ہونے کی وجہ سے بہت مشکل تھی۔ مَیں نے گریہ و زاری سے دعا کی کہ مجھے پرچہ خواب میں دکھادے۔ چنانچہ مجھے پرچہ دکھادیا گیا جو مَیں نے ازبر کرلیا اور صبح اُٹھ کر بعض دوستوں کو بھی بتادیا۔ امتحان کے بعد پھر کامیابی کی دعا کرنے لگا تو آوازآئی: ’’محمد خان افضل خاں نتیجہ امتحان‘‘۔ پھر دوسری مرتبہ الہام ہوا: ’’سبع معلقہ‘‘۔ مَیں نے حضرت مسیح موعودؑ سے ان الہامات کا ذکر کیا تو آپؑ نے فرمایا کہ ’’تم پاس ہوجاؤگے مگر زیرتجویز رہ کر پاس ہوگے…‘‘۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور مَیں زیرتجویز رہ کر پاس ہوا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں