اعصابی بیماری پارکنسن – جدید تحقیق کی روشنی میں

اعصابی بیماری پارکنسن – جدید تحقیق کی روشنی میں
(فرخ سلطان محمود)

اعصابی بیماری پارکنسن کے علاج کی دریافت کے لئے ماہرین کئی سال سے سرگرم عمل ہیں۔ یہ بیماری عام طور پر معمر افراد کو اپنا نشانہ بناتی ہے اور یہ مرض رفتہ رفتہ قوت مدافعت کو کم کرتا ہے جس کے نتیجے میں مریض کو اپنے اعصاب میں اکڑاؤ اور کپکپاہٹ کی شکایت ہوجاتی ہے۔ اس کے علاج کے لئے مریض کی دماغی کیفیت پر کئے جانے والے تجرِبات بہت مفید رہے ہیں۔ پارکنسن کی سب سے نمایاں علامت مریض کے ہاتھ پاؤں کی کپکپاہٹ ہے جس کی وجہ سے اس کے لئے پانی کا گلاس چھلکائے بغیر پکڑنا یا اخبار کا پڑھنا بھی مشکل ہوجاتا ہے جبکہ اعصاب کا اکڑجانابھی اس مرض کی ایک اور علامت ہے۔ اس بیماری کے علاج کے لئے ابتدائی تحقیق 255 مریضوں پر شروع کی گئی تھی اور ان کے دو گروپ بنائے گئے تھے۔ ان میں سے ایک گروپ کو عام ادویات دی گئیں جبکہ دوسرے گروپ کو دماغ پر کیے جانے والے تجرِبات کے ایک عمل سے گزارا گیا۔ مشاہدے کے مطابق دوسرے گروپ کے مریضوں نے علاج کے نتیجے میں بہت واضح بہتری حاصل کی۔ امریکی ریاست ایلی نوائے کے ویٹرنز ایڈمنسٹریشن ہاسپٹل کے ماہرین کی نگرانی میں ہونے والے اِن تجرِبات میں بڑی عمر کے افراد کو شامل کیا گیا تھا اور 25 فیصد افراد کی عمریں ستر سال سے زیادہ تھیں۔ اس مطالعے سے معلوم ہوا کہ جن افراد کو دماغی تجرِبے کے عمل سے گزارا گیاتھا ان میں پارکنسن کے خلاف قوّت مدافعت ان افراد کی نسبت زیادہ تھی جو دوسرے گروپ میں شامل تھے۔ امریکن ایسوسی ایشن آف نیورولوجیکل سرجنز کے مطابق اب تک دنیا بھر میں 35 ہزار سے زائد افراد پر یہ تجرِبات کیے جا چکے ہیں جن سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ پارکنسن کے علاج کے لئے دماغی عمل کے نتیجے میں اچھے اور برے دونوں طرح کے اثرات واقع ہوسکتے ہیں۔ یہ مطالعہ جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع کیا گیا ہے۔
٭ ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ہمارے سارے جسم کو جتنی توانائی کی ضرورت ہوتی ہے اُس توانائی کا پانچواں حصہ یعنی بیس فیصد صرف دماغ کو چاہئے ہوتا ہے تاکہ وہ اپنا کام کرسکے۔ جس کی ایک وجہ یہ ہے کہ دماغ اپنے کام میں انسان کے سونے کے دوران بھی قریباً اُسی طرح مصروف رہتا ہے جس طرح وہ انسان کے جاگنے کے دوران اپنا کردار ادا کرتا ہے۔ امریکہ کی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کا خیال ہے کہ دماغ کو ملنے والی کُل توانائی کا دو تہائی اعصاب یا نیورانز کو بجلی کے سگنل بھیجنے میں مدد کرنے پر خرچ ہوتا ہے اور یہ کام اس قدر ضروری ہے کہ اگر ایسا نہ کیا جائے تو دماغ کے خلیات مرنا شروع ہوجائیں گے۔ یہ نتیجہ دماغ کا میگنیٹک ریزروننس سپیکٹروسکوپی سکین کرنے کے بعد نکالا گیا ہے جس میں یہ معلوم کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ دماغ کتنی توانائی استعمال کرتا ہے۔ اس تجربے میں ATP یعنی ایڈینوسین ٹرائی فاسفیٹ کے مالیکیول کا جائزہ لیا گیا۔ یہ مالیکیول بنیادی طور پر جسم میں ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے اور جسم کے لئے توانائی کے حصول کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ محققین نے دماغ کے مختلف حصوں میں ATP مالیکیولز کی مقدار میں کمی بیشی کا جائزہ لینے کے نتیجے میں دماغ کی مجموعی کارکردگی کا اندازہ لگایا ہے۔ ایک محقق وائی چَین کا کہنا ہے کہ یہ ٹیکنالوجی کئی عشروں سے موجود تھی تاہم اس کا زیادہ تر استعمال دیگر جسمانی اعضاء میں کیا جاتا رہا ہے لیکن اب پہلی بار اس کا استعمال جانوروں کے دماغ کے لئے کیا گیا ہے اور محققین کا ارادہ ہے کہ بہت جلد اس کا دائرہ انسانوں تک بھی بڑھادیا جائے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے مریض کے دماغ میں کئی قسم کی بیماریوں کا پتہ چلانے میں بھی مدد مل سکتی ہے جن میں الزائمر اور پارکنسن بھی شامل ہیں۔
٭ اٹلی کے طبی ماہرین نے کہا ہے کہ میگانیز دھات کی آلودگی والے ماحول میں رہنے والوں کو دوسروں کی نسبت اعصابی بیماری پارکنسن لاحَق ہونے کے امکانات زیادہ پائے گئے ہیں۔ اٹلی کے ماہرین نے مطالعاتی تحقیق میں اخذ کیا ہے کہ میگانیز دھات کی زیادہ مقدار اعصابی خلیات کے لئے نقصاندہ ہوتی ہے جبکہ عام حالات میں میگانیز بھی دیگر کئی دھاتوں کی طرح معمولی مقدار میں جسم میں موجود ہوتی ہے۔ اس حوالے سے مطالعاتی تحقیق اٹلی کے صوبے بریسکیا میں نو لاکھ رہائشیوں پر کی گئی جس کے دوران اطالوی ماہرین کی ایک ٹیم نے یہ معلوم کیا کہ فولاد بنانے والے کارخانوں کے بالکل قریب رہنے والے طبقات میں پارکنسن بیماری کی شرح دوسروں کی نسبت زیادہ ہے یعنی ہر ایک لاکھ میں سے 492؍ افراد اس بیماری میں مبتلا پائے گئے جبکہ اسی صوبے کے دوسرے علاقوں میں ہر ایک لاکھ میں سے 321؍افراد پارکنسن کے مریض نکلے۔ تاہم ماہرین کے مطابق چونکہ یہ بھی ایک وراثتی بیماری ہے اس لئے اس بیماری کی اصل وجوہات کے تعین کے لئے ابھی مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
٭ علاوہ ازیں طبّی جریدے نیورولوجی میں شائع کی جانے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ گہری نیند میں ٹانگیں ہلانا، کِک مارنا یا سوتے میں رونا دماغی بیماری ’پارکنسن‘ کی ابتدائی علامات ہیں۔ اگر اس طرح کے مریض میں تیزی سے آنکھیں جھپکنے کی عادت موجود ہو تو پارکنسن کی بیماری کے امکانات مزید بڑھ جاتے ہیں۔ مزید بتایا گیا ہے کہ یہ بیماری عموماً پچاس سال کے مردوں میں زیادہ پائی جاتی ہے اور اس کے مریضوں میں اس بیماری کی دیگر واضح علامات اس کے علاوہ ہوتی ہیں۔ طبّی ماہرین نے کہا ہے کہ اگر بچوں میں اس طرح کی علامات زیادہ ہوں تو بارہ سال کی عمر تک اس بیماری کے آثار واضح ہونے لگتے ہیں۔ طبّی ماہرین نے سونے میں باتیں کرنے اور چلنے کی علامات کو بھی پارکنسن کی معمولی علامات میں شامل کیا ہے۔ طبّی ماہرین کے مطابق نیند میں خلل کی تمام علامات کو دُور کرنے کے لئے علاج کرانا ضروری ہے کیونکہ یہ خلل بتدریج دماغی بیماریوں کی طرف لے جاتا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں