افریقہ میں احمدی مبلغین کی قربانیوں اور احمدیت کی ترقیات کا مشاہدہ

(مطبوعہ انصارالدین یوکے جولائی واگست2022ء)

بشیر احمد رفیق خان صاحب

جون1967ء میں لائبیریا سے برادرم مبارک احمد ساقی صاحب مرحوم امیر و مبلغ انچارج جماعت احمدیہ لائبیریا نے مجھے بذریعہ خط اطلاع دی کہ لائبیریاکے صدر مملکت مسٹر ٹب مین برطانیہ کے سرکاری دورے پرجارہے ہیں۔ ان سے احمدیہ مسلم مشن لائبیریاکے تعلقات نہایت خوشگوار ہیں۔ مسٹر ٹب مین اکثر سرکاری تقاریب میں مکرم ساقی صاحب کو مدعو کرتے رہتے ہیں اس لئے اگرممکن ہو تو انہیں برطانیہ میں جماعت احمدیہ برطانیہ کی طرف سے خوش آمدید کہنا مناسب و مفید ہوگا۔
خاکسار نے برطانوی فارن آفس سے مسٹر ٹب مین کی برطانیہ تشریف آوری کے بارہ میں معلومات حاصل کیں۔ پریذیڈنٹ صاحب جب برطانیہ تشریف لائے اور تین دن کی سرکاری تقاریب ختم ہوئیں تو لندن کے رائل گارڈن ہوٹل میں مقیم ہوگئے اور اس ہوٹل کاایک پورا ونگ کرایہ پر اُن کے لئے مخصوص کیا گیا تھا۔ میں نے ان کے پرائیویٹ سیکرٹری سے جناب صدر ٹب مین سے ملاقات کے لیے وقت مانگا۔ اگلے دن انہوں نے اطلاع دی کہ دو دن کے بعد صدر صاحب سے ملاقات کاوقت طے ہوگیا ہے۔ ملاقات کاوقت دس منٹ کاہوگا۔ چنانچہ میں مقررہ وقت پر جناب صدر صاحب کی ملاقات کے لیے اُن کے ہوٹل پہنچ گیا۔ صدر صاحب ہوٹل کے جس وِنگ میں قیام پذیر تھے اس کاانتظام صدر صاحب کے سٹاف نے سنبھال رکھا تھا جو اُن کے ساتھ ہی لائبیریا سے آئے ہوئے تھے۔ حتیٰ کہ ایک لفٹ بھی ان کے لئے مخصوص تھی جس کو صدر صاحب کا سٹاف اور مہمانان ہی استعمال کرسکتے تھے۔
صدر صاحب ایک خوبصورت و آراستہ ڈرائنگ روم میں اکیلے تشریف فرما تھے۔ اُٹھ کرملے اور حال احوال پوچھنے کے بعد ہمارے لائبیریاکے احمدیہ مسلم مشن کے کام پر خوشنودی کا اظہار فرمایا اور فرمایاکہ میں نے یہ خصوصی ہدایت دے رکھی ہے کہ ملکی تقاریب میں مبارک احمد ساقی صاحب کو ضروربلایا جائے۔ میں نے اُن کاشکریہ ادا کیا اور انگلستان مشن کے حالات سے انہیں آگاہ کیا۔دس منٹ کاوقت ختم ہوا تو ان کے پرائیویٹ سیکرٹری نے دروازہ کھول کر مجھے ملاقات ختم ہوجانے کااشارہ کیا۔ میں اُٹھنے لگا تو صدر صاحب نے فرمایا کہ ابھی تو آپ نے کافی بھی نہیں پی اور پرائیویٹ سیکرٹری کو کافی لانے کا ارشاد فرمایا۔ ہماری یہ ملاقات 45منٹ تک جاری رہی۔ مختلف مذہبی امور پر گفتگو ہوتی رہی۔ محترم صدر صاحب باوجودعیسائی ہونے کے وحدانیت کے قائل تھے اور مذہبی رواداری کے علمبردار تھے۔ میں نے انہیں مسجد فضل لندن تشریف لانے کی دعوت دی جو انہوں نے اُسی وقت قبول کرلی اور فرمایاکہ دن اور وقت کا تعین کل کرلیں گے۔
اگلے دن اُن کے پرائیویٹ سیکرٹری نے اطلاع دی کہ صدر صاحب فلاں دن مسجد فضل تشریف لائیں گے۔میں نے ان سے درخواست کی کہ صدر صاحب جب مسجد تشریف لائیں تو کھاناہمارے ہمراہ تناول فرماویں۔ صدر صاحب نے ہماری دعوت قبول کرتے ہوئے فرمایا کہ میرے ساتھ چالیس افراد ہوں گے جن میں وزراء اور فوجی جرنیلوں کے علاوہ لائبیرین ٹی وی اور ریڈیو کاعملہ بھی ہوگا اور چند صحافی بھی ہوں گے۔
میں نے حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ کو ہیگ اطلاع کی اور ان سے درخواست کی کہ اس موقع کی مناسبت سے وہ بھی تشریف لاویں۔
جس دن صدر صاحب نے مسجد تشریف لاناتھا اس دن صبح ہی برطانوی پولیس کے ایک چیف مسجد تشریف لائے اور حفاظتی انتظامات کاجائزہ لیا۔ مقامی رپورٹر بھی صبح سے ہی آگئے اور مسجد میں صبح سے ہی خاصی گہما گہمی اور چہل پہل شروع ہوگئی۔
محترم صدر صاحب شام کے چھ بجے اپنے قافلے سمیت پولیس کے حفاظتی دستے کے ساتھ تشریف لائے۔ محترم چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحب ؓ، مکرم عبدالعزیز دین صاحب مرحوم اور خاکسار نے آگے بڑھ کر ان کا استقبال کیا اور انہیں مسجد میں لے گئے۔ صدر صاحب مسجدمیں داخل ہوئے تو مَیں نے انہیں مسجدکی تاریخ اور اہمیت تفصیل سے بتائی۔ مسجد کی زیارت کے بعد صدر صاحب کو 61میلروز روڈ کے ہال میں لے جایا گیا جہاں کھانے کا انتظام ایک ریسٹورنٹ کے ذریعہ کیا گیا تھا۔ کھانے کے بعد مَیں نے صدر صاحب کی خدمت میں ایک استقبالیہ ایڈریس پیش کیا جو لائبیرین ٹی وی اور ریڈیو نے ریکارڈکرلیا۔
صدر صاحب نے اپنی جوابی تقریر اس بات سے شروع کی کہ ان کی زندگی میں یہ پہلا دن تھا جس دن انہیں رات کے کھانے پر شراب مہیا نہیں کی گئی۔ لیکن انہوں نے اس بات پرخوشی کااظہار کیاکہ شراب نہ پینے سے ان کی طبیعت پر بہت خوشگوار اثرہوا ہے۔ صدر صاحب نے اپنی تقریر میں جماعت احمدیہ کو خراج تحسین پیش کیا اور خصوصاً حضرت چودھری محمد ظفر اللہ خان صاحبؓ سے ملاقات پر دلی مسرت کا اظہار کیا اور فرمایا کہ باوجوداس کے کہ لائبیریا ایک عیسائی مملکت ہے اور عیسائیت کی تبلیغ کاافریقہ میں ایک لحاظ سے مرکز ہے لیکن انہو ں نے سختی سے اس بات کااہتمام کیاہے کہ تمام مذاہب کو وہاں پر اپنی تبلیغ کرنے کی آزادی ہو۔ جماعت احمدیہ نے ان کے ملک میں عوام کی جس رنگ میں خدمت کاکام شروع کیا ہے اس پر بھی صدر صاحب نے خوشنودی کااظہار کیا۔ صدر صاحب اور میری تقاریر جو لائبیرین ٹی وی اور ریڈیو نے ریکارڈ کی تھیں وہ چند دنوں بعد لائبیریا میں من وعن دکھائی گئیں۔ اس کی اطلاع مکرم مبارک احمد صاحب ساقی نے خاکسار کودی۔
دعوت کے اگلے دن جناب صدرکی طرف سے ایک خط خاکسارکو ملا جس میں صدر صاحب نے ہماری طرف سے ان کے اعزاز میں منعقدہ تقریب پر اپنے جذبات تشکر کااظہار کیاتھا اور خاکسار کو دعوت دی تھی کہ اسی سال جولائی میں لائبیریاکی آزادی کی سالگرہ کی تقاریب میں بطور سرکاری مہمان شرکت کروں۔ چونکہ اسی سال حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ اگست میں انگلستان کے دورے پر تشریف لارہے تھے اس لئے خاکسارنے لائبیریا جانے سے معذرت کردی۔ محترم صدر صاحب نے دوسرے خط میں لکھا کہ آئندہ سال لائبیریا اپنی آزادی کا ایک سو بیسواں جشن منارہا ہے۔ ہماری طرف سے اس جشن میں شمولیت کی دعوت ہے۔ یہ دعوت خاکسار نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؓ کی اجازت سے قبول کرلی۔
1968ء میں لائبیریا کے سفیر مقیم برطانیہ نے خاکسار کو اطلاع دی کہ انہیں صدر ٹب مین کی طرف سے ہدایت ملی ہے کہ وہ میرے اور میرے اہل و عیال کے لئے ٹکٹ وغیرہ کاانتظام کریں۔ میری درخواست پر ٹکٹ ایسے بنوائے گئے کہ ہم جاتے ہوئے سیرالیون اور واپسی پر غانا میں احمدیت کی ترقی کا بھی مشاہدہ کرسکیں۔ چنانچہ ہم براستہ سیرالیون 24؍جولائی1968ء کو منروویا (لائبیریا) پہنچے۔ وزیرخارجہ بطور نمائندہ پریذیڈنٹ ٹب مین، ائرپورٹ پر آئے ہوئے تھے۔ مسلم کانگریس لائبیریا کے نمائندگان بھی موجود تھے۔ ہمارے قیام کا انتظام انٹرکانٹی نینٹل ہوٹل میں کیا گیا تھا۔ شام کو احمدیہ مشن ہاؤس دیکھنے چلے گئے۔ گورنمنٹ کی طرف سے ہمیں ایک ائر کنڈیشنڈ گاڑی مہیاکی گئی تھی۔ پولیس Escortکا بھی انتظام تھا۔ لائبیریا کی جماعت سے مل کر بے حد خوشی ہوئی۔ بعض افراد جماعت کے اخلاص اور جماعت سے وابستگی کے جذبے نے بے حد متاثر کیا اور بار بار یہ خیال آتا رہا کہ کہاں وہ دن جب حضرت مسیح موعودؑ قادیان کے دُورافتادہ اور ہر قسم کی دنیوی آسائشوں سے محروم بستی میں گمنامی کی زندگی بسر کررہے تھے اور خود بقول حضور علیہ السلام کہ

کوئی نہ جانتا تھاکہ ہے قادیاں کدھر!

والی کیفیت تھی اور کجا یہ دن کہ افریقہ جیسے دُور دراز برّاعظم میں آپؑ کے مخلصین اور آپؑ پردن رات درود و سلام بھیجنے والے عشاق کے علاوہ سربراہانِ مملکت بھی آپؑ کے خدام کی مہمان نوازی پر خوشی کااظہار کررہے تھے۔ الحمدللہ ثم الحمد للہ۔
اگلے دن جناب وزیر خارجہ صاحب کی معیت میں خاکسار جناب صدر صاحب سے ملنے کے لیے منروویا کے ایگزیکٹو ہائوس گیا۔ یہ عمارت جو صدر صاحب کی آفیشل رہائش گاہ ہے، حال ہی میں 16کروڑ ڈالر کے خرچ سے تیار ہوئی تھی۔ صدر صاحب بہت تپاک سے ملے۔ تھوڑی دیر میں کافی بھی آگئی۔ صدر صاحب نے جماعت احمدیہ کے کام پربڑی خوشی کا اظہار کیااور کہاکہ میں جانتاہوں کہ آپ لوگ محض للہ خدمت کررہے ہیں جبکہ بہت سارے اَور مسلمان گروہ جو میرے ملک میں کام کررہے ہیں وہ اکثر میرے پاس مال و دولت کے لالچ میں آکر میری خوشامد کرتے ہیں۔ جس سے میرے دل میں ان کی عزت نہیں رہتی۔ رقوم تو میں انہیں مہیا کردیتا ہوں لیکن یہ سب کچھ طوعاً وکرہاً ہی کرتاہوں۔ پھر فرمایاکہ آپ کی جماعت لائبیریا میں بے لوث خدمت انجام دے رہی ہے اور انہوں نے کبھی میرے آگے جھولی نہیں پھیلائی۔
دوران گفتگو صدر صاحب نے دریافت فرمایا کہ تمہاری اہلیہ بھی تمہارے ساتھ آئی ہوئی ہے وہ ملاقات کے لیے کیوں نہیں آئیں؟ مَیں نے عرض کیاکہ وہ پردہ دار خاتون ہیں۔ اس پر فوراً اپنے پرائیویٹ سیکریٹری کو بلاکر حکم دیاکہ اگلے دن مسز رفیق کی ملاقات صدر صاحب کی بیگم صاحبہ سے کرائی جائے اور یہ احتیاط کی جائے کہ دورانِ ملاقات صرف خواتین ہی موجودہوں۔ چنانچہ اگلے روز میری اہلیہ جناب صدر صاحب کی بیگم صاحبہ سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئیں اور واپسی پرمجھے بتایا کہ صدر صاحب کے حکم کی تعمیل اس طور پر کی گئی تھی کہ جب میری کار پریذیڈنٹ ہائوس کے پورچ میں داخل ہوئی توکار کا دروازہ ایک خاتون نے کھولا۔ لفٹ میں بھی خاتون کارکن تھیں۔ بیگم صاحبہ ٹب مین بڑی تپاک سے ملیں اور ایک گھنٹہ تک جماعت کے علاوہ پاکستان میں خواتین کے حالات پر گفتگو ہوتی رہی۔ ملاقات کے اختتام پرمسز ٹب مین نے کچھ تحائف میری بیوی کو دیے۔
26جولائی کو تقریب آزادی کے سلسلے میں ایک عصرانہ کی تقریب ہوئی جس میں خاکسار کو محترم صدر نے اپنی بائیں جانب کی کرسی پر بٹھایا۔ ماکولات و مشروبات کے بعد صدر صاحب نے ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر قوم سے خطاب فرمایا۔ خطاب کے آخر میں انہوں نے بطور خاص خاکسار کا ذکر فرمایا اور جماعت کااچھے الفاظ میں ذکر فرمایا اور مجھے کھڑے ہونے کا اشارہ کیا۔ مَیں کھڑا ہوگیا تو جناب صدر نے مجھ سے ہاتھ ملایا اور کافی دیر تک کھڑے رہے۔ یہ ایک غیرمعمولی اعزاز تھا جو جماعت احمدیہ کے مبلغ کو اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے نصیب فرمایا۔ وگرنہ میں کیا اور میری بساط کیا۔
27جولائی کی شام کو منروویاکے ایک ہوٹل میں مسلم کانگریس نے میرے اعزاز میں عشائیہ دیا جس میں جناب صدر ٹب مین اور برطانیہ کے سفیر بھی شامل ہوئے۔ کھانے کے بعد خاکسار نے ’’برطانیہ میں اسلام ‘‘ کے موضوع پر تقریر کی۔ جناب صدر نے بھی تقریر فرمائی اور تقریب کے اختتام پر مجھے ایک قیمتی کامدار چوغا اور ٹوپی پہناکر مجھے لائبیریا کاچیف بننے کا اعزاز بخشا۔یہ تقریب لائیو ٹیلی کاسٹ ہوئی۔ اگلے دن لائبیرین ٹی وی پر خاکسار کاانٹرویو نشرکیا گیا۔ کئی دیگر تقاریب بھی منعقد ہوئیں اور آخر سرکاری اعزاز کے ساتھ ہمیں غانا روانہ کردیا گیا۔

سرزمین افریقہ کی احمدیہ جماعتوں میں

لندن سے جب ہم سیرالیون پہنچے تو جونہی ہم نے لنگی ایئرپورٹ پرجہاز سے سر باہر نکالا تویوں محسو س ہوا کہ گویا ہم نے اپنا سر Ovenمیں دے دیا ہے۔ باہرسخت گرم اورمرطوب ہوا چل رہی تھی۔ ائیرپورٹ ایک مختصر سی بلڈنگ میں واقع تھا۔ ہم کسٹم سے فارغ ہوکرباہرنکلے تو شام چار بجے کاوقت تھا۔ اِدھر اُدھر دیکھاکہ ہمیں کوئی لینے بھی آیا ہے یانہیں؟ بدقسمتی سے ایک غلط فہمی کی وجہ سے ایئرپورٹ پرکوئی موجود نہ تھا۔ ہمیں بڑی گھبراہٹ ہوئی۔ افریقہ کی سرزمین پر یہ ہماراپہلا قدم تھا۔ ہم کسی کو جانتے نہ تھے اور ہمارے پاس فری ٹاؤن میں واقع مشن ہاؤس کاپتہ بھی نہ تھا کیونکہ ہماری ساری خط و کتابت افریقن مشنوں سے P.O Box کے ذریعہ ہوتی تھی۔ ہمیں یہ بھی معلوم نہ تھاکہ فری ٹاؤن وہاں سے کتنے فاصلہ پرہے۔ ایک ڈیڑھ گھنٹہ ہم اس امید پر بیٹھے رہے کہ کوئی نہ کوئی ہمیں لینے ضرور آئے گا لیکن

اے بسا آرزو کہ خاک شدہ

ہم اسی پریشانی میں دعاؤں میں لگے ہوئے تھے کہ ایک افریقن ہمارے پاس آیا اور کہاکہ اگر ہم نے فری ٹاؤن جانا ہے تو سامنے فری ٹاؤن جانے والی آخری بس کھڑی ہے۔ ہم بس میں سوار ہوگئے۔ ایک عجیب قسم کی پریشانی کی کیفیت طاری تھی کہ فری ٹاؤن پہنچ بھی گئے تو مشن کا پتہ کیسے حاصل کریں گے؟ بس روانہ ہونے سے پہلے ڈرائیور نے ہماری پریشانی کو بھانپ لیا اور مجھ سے پوچھا کہ مجھے فری ٹاؤن میں کہاں جاناہے؟ میں نے کہا کہ ہم نے احمدیہ مشن ہاؤس میں قیام کرنا ہے۔اس کے چہرے پر ایک خوشگوار مسکراہٹ نمودار ہوئی اور کہنے لگا احمدیہ مشن ہاؤس کو کون نہیں جانتا۔ آپ بالکل بے فکر ہوجائیں۔ میں آپ کو فری ٹاؤن پہنچ کر مشن ہاؤس جانے کے لیے ٹیکسی میں بٹھا دوں گا۔
لنگی سے فری ٹاؤن 50-60میل کے فاصلے پر ہے۔ درمیان میں بذریعہ فیری دریا بھی پارکرنا پڑتا ہے۔ ہم شام کو فری ٹاؤن پہنچے تو ڈرائیور نے ایک ٹیکسی والے کو بلایا اور کہا کہ ہم نے احمدیہ مشن جانا ہے۔ٹیکسی ڈرائیور نے کہا کہ آپ کے مبلغ صاحب تو اس وقت مشن ہاؤس میں نہیں ہیں، وہ فلاں احمدی کے مکان پر ہیں جہاں کچھ اَور احمدی بھی جمع ہیں۔ کیامیں آپ کو مبلغ صاحب کے پاس لے جاؤں یامشن ہاؤس پہنچا دوں؟ میں نے کہا کہ مشن ہاؤس لے چلو۔تھوڑی دیر میں ہم مشن ہاؤس میں جا پہنچے اور اللہ کا شکر اداکیا۔
ہمارامشن ہاؤس شہر کے معروف علاقہ میں واقع ہے۔ قریب ہی جناب پریذیڈنٹ صاحب آف سیرالیون کی رہائش گاہ ہے۔ مبلغ صاحب تو نہیں تھے البتہ دو تین احمدی موجود تھے جنہیں میرے آنے کا علم تو تھا لیکن تاریخوں میں گڑبڑ ہونے کی وجہ سے یہ علم نہ تھا کہ میں نے کس دن پہنچنا تھا۔ خیرانہوں نے وہ کمرہ جہاں ہم نے قیام کرناتھا، ہمارے لئے کھول دیا۔ہم نے سامان رکھا اور خداتعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے اطمینان کی سانس لی۔ کمرہ خاصا بڑا تھا جس کے ساتھ ملحقہ غسل خانے کی سہولت بھی موجود تھی اور ایک پنکھا بھی موجود تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ پانی کی قلّت کے سبب ہم نلکوں سے پانی کا استعمال بہت احتیاط سے کریں۔
ہماری پہلی رات بہت تکلیف میں گزری۔ گرمی تو تھی ہی، اوپر سے مچھروں نے ہم پر تابڑ توڑ حملے شروع کردیے۔ نیچے زمین پر سینکڑوں چیونٹیاں چہل قدمی کررہی تھیں۔ میرے بیٹے نے اس سے قبل مچھر یا چیونٹی نہ دیکھی تھی اور نہ ہی ان کے کاٹنے کی اذیت محسوس کی تھی۔ وہ بے چارہ ساری رات ایک منٹ کے لیے بھی نہ سو سکا۔ خود ہمارے جسم مچھروں کی چاند ماری سے تارتار ہو رہے تھے۔ رات بھر میں اپنے مبلغین پر سلام و دعا بھیجتا رہا جنہوں نے سالہا سال ان ممالک میں حشرات الارض کے ساتھ گزارا کیا اورگرم و مرطوب موسم اور دشمنان احمدیت کے حملوں کومردانہ وار برداشت کیا لیکن زبان پر اُف تک نہ لائے۔ میرا دل ان سب کے لیے جذبات تشکر ودعا سے معمور رہا۔
رات کٹ گئی۔ صبح ہماری تواضع پُرتکلّف ناشتے سے کی گئی۔ پھر محترم امیر صاحب ہمیں شہرکی سیر کے لیے لے گئے۔راستے میں جگہ جگہ ہماری ملاقات احمدی دوستوں سے کرائی گئی اور مَیں ان کی محبت، اخلاص اور جذبۂ مہمان نوازی سے متاثر ہوتا چلا گیا۔ وہ بظاہر غریب تھے لیکن دل کے امیر تھے۔ ان کے دلوں میں خلوص اور احمدیت سے محبت و وفاداری کُوٹ کُوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ وہ انگلستان سے آئے ہوئے اپنے ایک احمدی بھائی سے مل کر خوشی سے پھولے نہ سماتے تھے۔ ہم احمدیہ سیکنڈری سکول بھی گئے۔ وہاں طلبہ و اساتذہ نے بڑی محبت سے ہمارا استقبال کیا۔اکثر اساتذہ پاکستانی احمدی تھے۔ ہم نے عشاء کی نماز سکول کی مسجد میں ادا کی اور رات گئے مشن ہاؤس واپس آگئے۔
تین دن فری ٹاؤن میں قیام کرنے کے بعد امیر صاحب نے ازراہ شفقت ہمیں سیرالیون کے دیگر شہروں میں احمدیہ مشن ہاؤسز دیکھنے اور احمدیوں سے ملنے کی دعوت دی۔ ہم محترم امیر صاحب کی موٹر کار میں سیرالیون کے مرکزی اور دوسرے بڑے شہر بو (Bo)کے لیے روانہ ہوئے۔یہاں جماعت کا ایک سیکنڈری سکول ،مشن ہاؤس اور مسجد بھی ہے۔ فری ٹاؤن سے بو کا فاصلہ 140میل ہے۔ راستے میں مختلف قصبات میں جماعت کے احباب سڑک کے کنارے ہمیں ملنے کے لیے جمع تھے۔ ہم ان سے ملاقات کرکے آگے روانہ ہوجاتے تھے۔ مجھے ان غریب افریقن احمدیوں کے اخلاص، احمدیت سے محبت اور ان کے جذبۂ مہمان نوازی نے بے حد متاثر کیا۔ نصف راستہ طَے ہوا تو ایک بڑا قصبہ آیا ،جس کانام غالباًMile 91تھا۔ موسلادھار بارش برس رہی تھی۔ ہم نے خیال کیا کہ اس شدید طوفان بادوباراں میں کسی احمدی سے ملاقات نہیں ہوسکے گی۔ اچانک میری نظر سڑک کے کنارے کھڑے چند احمدیوں پر پڑی جو موسلادھار بارش میں شرابور ہمیں ملنے کے لیے کھڑے تھے۔ میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں کار سے باہر نکلا۔ ایک افریقن احمدی نے میرے سر پر چھتری تان لی اور اس طرح میں نے ہر احمدی سے گلے مل کر اپنے دل کو ایمان افروز تسکین پہنچائی۔ میں آج بھی اس نظارے کا خیال کرتاہوں تو میرا دل ان احمدیوں کے لیے جذبات تشکر و دعا سے بھر جاتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اگر احمدیت سے عقیدت و محبت اور فدائیت کے نظارے کرنے ہوں تو افریقہ جاکر کیے جائیں۔
رات گئے ہم بو پہنچے اور مشن ہاؤس میں قیام کیا۔ اگلے دن لوکل مبلغ صاحب ہمیں شہر دکھانے لے گئے۔ ہم اس دوران احمدیہ سیکنڈری سکول بھی گئے اور سکول کی اعلیٰ کارکردگی کی رپورٹ سن کر بہت متاثر ہوئے۔ اس سکول کا شمار اس علاقہ کے اعلیٰ ترین سکولوں میں ہوتا ہے۔شام کو مجھے مبلغ صاحب نے بتایا کہ بو جماعت کے ایک بزرگ اور مخلص ترین احمدی جناب الحاج علی روجرز صاحب مجھ سے ملنے کے لیے تشریف لائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ جناب الجاج روجرزصاحب کی قربانیاں اور مالی امداد جو وہ وقتاً فوقتًا کرتے رہے ہیں، قابل ستائش ہیں۔ شام کو جناب الحاج روجرز صاحب تشریف لائے۔ لمبا قد، مضبوط جسم اور چہرہ پرروحانیت کا نور تھا۔ مجسم اخلاص کے مالک الحاج روجرز صاحب مجھ سے بڑی تپاک سے ملے اور مجھے بو آنے پر خوش آمدید کہا۔ باتوں باتوں میں مَیں نے ان سے پوچھا کہ بو میں احمدیت کیسے قائم ہوئی ؟جناب الحاج روجرز صاحب کچھ دیر خاموش رہے اور پھر فرمایا کہ میں احمدیت کے بو میں قائم ہونے کا اور جماعت کے پہلے مبلغ کے تشریف لانے کاعینی شاہد ہوں۔
جناب الحاج روجرز صاحب کی زبانی یہ ایمان افروز داستان سن کر بہت لطف آیا۔ وہ یوں گویا ہوئے:
’’غالباً 1939-40ء کی بات ہے،میں بو شہر میں رہتا تھا۔ میرے والدین انتہائی غریب تھے اور مجھے کسی اسکول میں داخل کروانے کے اہل نہیں تھے۔ایک دن میں نے ڈھنڈورا پیٹے جانے کی آواز سنی۔ ایک ڈھنڈورچی بلند آواز سے یہ اعلان کرتا جارہا تھا کہ شہر میں ایک مسلمان مشنری آیا ہوا ہے اور کہتا ہے کہ ہندوستان میں مسیح موعود پیدا ہوچکے ہیں جو اسلام کو دیگر ادیان پر غلبہ عطا کریں گے۔ بو میں کوئی شخص نہ تو اس کی بات سنے اور نہ ہی اسے اپنے گھر میں رہنے کی جگہ دے۔
میں نے یہ اعلان بار بار سنا۔ مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اگر عیسائی مشنریوں کو تبلیغ کرنے کی اجازت ہے اور وہ بو میں دندناتے پھر رہے ہیں، تو پھر مسلمان مشنری کو کیوں بات کرنے سے روکا جارہا ہے؟
میں اپنی سوچوں میں ڈوبا ہواتھاکہ اچانک میں نے ایک ہندوستانی کو دیکھا جن کے ساتھ ایک افریقن لڑکا ان کا صندوق اٹھائے چلا آرہا تھا۔ میں بھی ان کے ساتھ شامل ہوگیا۔ مَیں نے دیکھا کہ وہ ہندوستانی مبلغ، جن کا نام حضرت نذیر احمدعلی تھا، مختلف سرایوں میں رات رہنے کی جگہ کی تلاش میں جاتے تھے اور ہرجگہ سے انکار ہوتاتھا۔ میں بھی ان کے ساتھ ساتھ چلنے لگا۔ میں نے ان کا صندوق اپنے سر پر رکھ لیا۔ اُس افریقن لڑکے کو علی صاحب نے چندسکے دے کر رخصت کردیا۔ اس طرح رہائش کے لیے جگہ تلاش کرتے کرتے شام ہوگئی ،ہم تھک چکے تھے۔ نذیراحمد علی صاحب یوں بھی کمزور جسم کے مالک تھے اور فوقتاً فوقتاً آپ کو کھانسی کا دورہ بھی پڑتا تھا۔
شام ڈھلنے لگی تو جناب نذیر احمد صاحب علی نے فرمایا روجرز! یہ شہر والے ہمیں رات گزارنے کے لیے جگہ نہیں دیں گے۔ چلو شہر کے باہر کھلی فضا میں کسی درخت کے نیچے رات گزار لیں گے۔ میں نے کہا باہر تو جنگلی جانوروں کاراج ہوتا ہے، بالخصوص رات کے وقت۔ نذیر احمد علی صاحب نے فرمایا کہ کوئی بات نہیں، اللہ ہماری حفاظت کرے گا۔ چنانچہ ہم شہر کے باہر ایک بڑے درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔ نذیر احمد علی صاحب نے اپنا بکس کھولااور اس میں سے ایک دری نکال کر بچھائی۔ ہم دونوں اس پر بیٹھ گئے۔ میں نے ارد گرد سے سوکھی ٹہنیاں اورسوکھے پتے جمع کرکے آگ سلگائی تا جنگلی جانوروں سے محفوظ رہیں۔ انہوں نے اپنے بکس سے بسکٹوں کاایک ڈبہ نکالا اور ہم دونوں نے چند بسکٹ کھائے۔ مَیں تو سوگیا، البتہ نذیر احمد علی صاحب نماز میں مصروف ہوگئے۔ آدھی رات کو اچانک میں نے شدید کھانسی کی آواز سنی اورمیں جاگ اٹھا تو دیکھاکہ نذیر احمد علی صاحب پر دمہ کا شدید حملہ ہوا ہے۔ کھلی فضا کی مرطوب ہوا نے دمہ کی شدت میں اضافہ کردیا تھا۔ ان کو سانس لینے میں دشواری پیش آرہی تھی اور وہ انتہائی بے چینی کی حالت میں تھے۔میں گھبرا گیا اور رونے لگ گیا۔نذیر احمد صاحب علی نے مجھے تسلی دی اور فرمایا کہ بکس میں ایک بوتل ہے وہ مجھے دے دو۔ آپ نے اس میں سے چند گولیاں منہ میں ڈالیں۔ کچھ دیر بعد آپ کو کچھ سکون محسوس ہوا اور آپ پر غنودگی طاری ہوگئی۔ آپ آرام سے سو گئے۔میں بھی سوگیا۔ صبح منہ اندھیرے میری آنکھ کھلی تو میں نے حضرت نذیر احمدعلی صاحب کو سجدہ ریز دیکھا اور یوں محسوس ہوا ،گویا ہانڈی آگ پر چڑھی ہو۔ آپ رو رو کر دعائیں مانگ رہے تھے۔مجھ پر اس کابے حد اثر ہوا۔ لیکن میں اس لڑکپن میں دعا، نمازاور روحانیت سے نابلد تھا۔
حضرت نذیر احمد علی صاحب نے نماز ختم کی۔ بکس سے بسکٹوں کا پیکٹ نکالا، کچھ مجھے دیے اور کچھ خود دکھائے۔ اب ان کی حالت پہلے سے بہت بہتر ہوچکی تھی۔ آپ نے سامان سمیٹا ،دری وغیرہ صندوق میں بند کی اور پھر مجھے فرمایا کہ علی روجرز ! میری ایک بات غور سے سنو۔ مجھے رات میرے خدا نے بتایا ہے کہ وہ اس شہر میں احمدیت کو مضبوط بنیادوں پر قائم کرے گا اور جہاں ہم نے آج رات بسر کی ہے، یہ ساری جگہ ہمیں عطا کردے گا۔ تم اس کے گواہ رہنا۔
یہ کہہ کرجناب الجاج روجرزصاحب زار وقطار رونے لگے۔ذرا طبیعت سنبھلی تو پھر فرمانے لگے: امام صاحب ! آج جس جگہ ہمارا سیکنڈری سکول ہے اسی جگہ ہم نے وہ رات گزاری تھی اب یہ سارا علاقہ ہماراہے۔‘‘
الحاج روجرز صاحب سے یہ واقعہ سن کر میرا دل بھی گداز ہوگیا اور دل کی گہرائیوں سے حضرت نذیر احمد علی صاحب کے لیے دعائیں نکلیں جنہوں نے باوجود لاغری اور جسمانی کمزوری کے اور مالی پریشانی کے مردانہ وار حضرت مسیح موعود علیہ السلام کاپیغام سرزمین افریقہ میں پہنچایا۔

ایں کار از تو آید و مرداں چنیں کنند

مجھے بھی حضرت مولوی نذیر احمد علی صاحب کی شاگردی کا مختصر عرصہ کے لیے شرف حاصل ہوا ہے۔ میں جب جامعۃ المبشرین میں تھا تو آپ ہمیں میدان تبلیغ میں جانے کے سلسلہ میں ہدایات دیا کرتے تھے اور میں نے آپ کی وہ مشہور اور ولولہ انگیز تقریر بھی سنی تھی ،جو آپ نے آخری بار افریقہ روانہ ہوتے وقت فرمائی تھی۔ ان دنوں آپ کی صحت جواب دے رہی تھی اور یوں لگتا تھا گویا اب افریقہ گئے تو واپس نہیں آئیں گے۔
Bo میں دو دن قیام کے بعد ہم باماںہاں کے لیے روانہ ہوئے۔ یہاں بھی جماعت کا قیام حضرت مولوی نذیر احمد علی صاحب کے ذریعہ ہوا تھا۔ راستہ دشوارگزار اور سڑک کٹی پھٹی تھی۔ راستے میں درختوں پر بندروں کی بہتات تھی۔ ہم نے اس قصبے میں ایک دن گزارا اور جماعت کے احباب سے مل کر اپنے ایمانوں کو تازہ کیا۔ ہم اپنے معلم صاحب کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک بوڑھا شخص ہماری طرف آیا۔ معلم صاحب نے کہا یہ نذیر احمد علی صاحب کے اس گاؤں میں پہلی دفعہ تشریف لانے کے چشم دید گواہ ہیں۔ میں نے ان بوڑھے صاحب سے درخواست کی کہ مجھے حضرت مولوی صاحب کی اس گاؤں میں پہلی دفعہ تشریف آوری کاحال سنائیے۔ وہ کہنے لگے:
’’ کافی عرصہ قبل کی بات ہے تب میں نوجوان تھا۔ ہمارے گاؤں میں کبھی کبھی انگریز افسران آیا کرتے تھے لیکن شام سے پہلے پہلے چلے جایاکرتے تھے ، کیونکہ یہ علاقہ غیر محفوظ تھا۔
انہی دنوں کی بات ہے کہ ایک دن میں نے ایک کمزور جسم والے شخص کو دیکھا جو گاؤں کی طرف چلا آرہا تھا۔ ان کے ساتھ ایک نوکر بھی تھا جس نے ان کا صندوق اٹھایاہواتھا۔ دونوں پیدل تھے۔ میں دوڑ کر ان کے پاس گیا۔انہوں نے مجھے کہا کہ مجھے اس گاؤں کے چیف سے ملواؤ۔ میں انہیں چیف کے پاس لے گیا۔ انہوں نے چیف سے گاؤں میں ٹھہرنے کی درخواست کی اور اسے بتایاکہ وہ احمدیہ مشنری ہیں اور گاؤں والوں کو خطاب کرنا چاہتے ہیں۔ چیف صاحب نے چند سوالات کیے اور پھر انہیں اجازت دے دی۔ عصر کے وقت حضرت مولوی نذیر احمد علی صاحب نے چیف سے کہا کہ وہ لوگوں کو جمع کرنے کاحکم دیں۔ چیف صاحب نے گاؤں والوں کو جمع کیا۔ حضرت مولوی صاحب نے اپنے مترجم کے ذریعہ خطاب فرمایا اور لوگوں کو مسیح موعود کے آنے کی خبر دی اور اسلام کی تعلیمات پیش کیں۔
’’ اب شام ہوچلی تھی۔ چیف نے مولوی صاحب کو کہاکہ اب آپ چلے جائیں۔ اس پر مولوی صاحب نے فرمایا کہ وہ اب اس گاؤں کو تب ہی چھوڑیں گے جب یہاں احمدیت کا پودالگ جائے گا۔ چیف نے کہا کہ میں آپ کی حفاظت کی ذمہ داری نہیں لے سکتا۔ حضرت مولوی صاحب نے فرمایا مجھے آپ کی حفاظت کی ضرورت نہیں۔ میرا خدا میرا محافظ ہے۔ آپ صرف رہائش کی اجازت دے دیں۔ چیف نے کہا آپ جب تک چاہیں یہاں رہیں اور ایک جھونپڑی کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ خالی پڑی ہے۔آپ اس میں رہائش اختیار کرسکتے ہیں۔
حضرت مولوی صاحب نے اس گاؤں میں چھ ماہ قیام فرمایا اور گاؤں کے بہت سارے لوگوں نے اسلام قبول کیا۔ حضرت مولوی صاحب نے عورتوں کو مناسب لباس پہننے کی ہدایت کی اور اس کے لئے خاصی جدوجہد کی کیونکہ اس وقت تک یہاں کی عورتیں جسم کااکثر حصہ عریاں رکھتی تھیں۔‘‘
ہم اس ایمان افروز واقعہ کو سن کر آبدیدہ ہوگئے اور دل کی اتھاہ گہرائیوں سے حضرت مولوی نذیر احمد علی صاحب کے لیے دعائیں کرنے کی توفیق اس سارے سفر کے دوران ملتی رہی۔جناب الجاج روجرز صاحب کو اللہ تعالیٰ نے نہ صرف احمدیت کی نعمت سے نوازا بلکہ انہیں دنیوی مال و دولت سے بھی مالامال کیا اور اس مال و دولت کو خدا کی راہ میں خرچ کرنے کاحوصلہ بھی دیا۔ چنانچہ Bo شہر میں آپ نے اپنے دو قیمتی مکانات بمع سازوسامان کے احمدیہ مشن کے نام ہبہ کردیے جہاں ’’ نذیر احمدیہ پریس‘‘ قائم ہوا۔

الجاج روجرز صاحب کے نواسے جناب بوکاری ٹومی کالون صاحب برطانیہ کے صدر خدام الاحمدیہ بھی رہ چکے ہیں۔ نہایت مخلص اور فدائی نوجوان ہیں۔ یہ سب ان کے بزرگ نانا جان کی دعاؤں کا ثمرہ ہے۔

بوکاری ٹومی کالون صاحب

سیرالیون میں ہم نے اَور شہر بھی دیکھے اور خوب سیاحت بھی کی لیکن اس سفر کا حاصل درحقیقت مندرجہ بالا دو واقعات ہیں۔لائبیریا کے دورہ کے اختتام پر ہم غانا کے لیے روانہ ہوئے۔ ان دنوں وہاں حضرت مولانا عطاء اللہ کلیم صاحب مرحوم امیر جماعت تھے جن کے ساتھ پیار اور محبت کا تعلق ربوہ میں قائم ہوا تھا۔ غانا میں میرے دو اور نہایت پیارے اور مخلص دوست جناب عبدالوہاب آدم صاحب اور جناب مرزا لطف الرحمن صاحب بھی تھے جن سے میرے تعلقات جامعۃالمبشرین کے زمانے سے تھے۔
اکرا کے ائیرپورٹ پر ہم جہاز سے باہر آئے تو محترم کلیم صاحب کو جہاز کے دروازے پرکھڑے پایا۔ہمارا دل خوشی سے باغ باغ ہوگیا۔ ہم سیدھے کسٹم ہال میں پہنچے تا اپنا سامان وصول کرسکیں۔ مختلف میزوں پر مسافروں کا سامان بکھرا پڑا تھا۔ میرا سامان بھی ایک طرف رکھا ہوا تھا۔ میں اس کی طرف بڑھا تاکہ سامان کھول کر کسٹم آفیسر کو دکھا سکوں۔ وہاں پر ایک چاق و چوبند کسٹم افیسر کھڑا تھا۔ اس نے میرا پاسپورٹ دیکھا جس پر مشنری لکھا ہواتھا۔ اس نے مجھ سے پوچھا: کیا تم احمدیہ مشنری ہو؟ میں نے اثبات میں جواب دیا۔وہ مجھے ایک الگ کمرے میں لے گیا۔ مجھے کچھ پریشانی ہوئی۔ کمرے میں جاکر اس نے کہا: مجھے احمدی مبلغین کی دعاؤں کی قبولیت پر پورا ایمان ہے۔ میں خود عیسائی ہوں مگر میں نے بہت سارے لوگوں سے احمدیوں کی قبولیتِ دعا کی واقعات سنے ہوئے ہیں۔ میری کوئی اولاد نہیں۔ شادی کو چند سال ہوچکے ہیں۔ میں آپ سے درخواست کرتاہوں کہ میرے صاحبِ اولاد ہونے کے لئے دعا کا مجھ سے وعدہ کریں۔ مجھے اس کے حال پر ترس آیا اور میں نے اس سے وعدہ کیاکہ میں ضرور اس کے لئے دردِ دل سے دعاکروں گا۔ اس کے بعد ہم کمرے سے باہر آئے۔ محترم کلیم صاحب بہت پریشان نظر آئے۔ میں نے انہیں سارا واقعہ سنایا۔ اس دوران کسٹم آفیسر صاحب نے محترم کلیم صاحب سے عاجزانہ طور پر دعا کی درخواست کی اور ہمارا سامان بغیر دیکھے اٹھاکر باہر پہنچا دیا۔ میرادل افریقہ میں کام کرنے والے بزرگ مبلغین کے لئے بھی دعائوں سے بھر گیا جن کی قربانیاں اور دعائیں رنگ لارہی تھیں۔ دراصل وہی مبلغ کامیابی کامنہ دیکھتا ہے جس کانہ صرف دعا پرایمان ہو بلکہ وہ اپنے دل کو گداز کرکے مجسم دعا بن جائے اور جن لوگوں میں تبلیغ کرنے کافریضہ اس کے سپرد کیا گیا ہو، وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر دل کی گہرائیوں سے ان کے لیے دعائیں کرے۔ دعاکے بغیر کوئی تبلیغ کامیاب نہیں ہوسکتی۔ دعائیں ہی دلوں کے قفلوں کو کھولتی ہیں اور دعائیں ہی خشک کھیتوں کو سیراب کرتی ہیں۔
میں نے مغربی افریقہ کے سفر میں محسوس کیا کہ وہاں کے مبلغین نے قربانیوں اور جان نثاریوں کے جو ریکارڈ قائم کیے ہیں، ہمیں بھی اُن کے نقش قدم پر چلنا چاہیے اور دین کی خدمت کے لیے ہر قسم کی قربانی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
ہم نے اکرا، سالٹ پانڈ ،کماسی وغیرہ کے سفر کے دوران درجنوں احمدی جماعتوں کے نظارے کیے اوروہاں کے احمدیوں کے جذبۂ تبلیغ اور ان کے پاک نمونوں کاایک انمٹ اثر دلوں پر نقش کیا۔ اکرامیں ایک پریس کانفرنس سے بھی خطاب کیا۔ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کو انٹرویوبھی دیے اور احمدیہ سکولوں اور جامعہ احمدیہ میں بھی خطاب کرنے کی توفیق ملی۔ الحمدللہ علیٰ ذٰلک

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں