الکندی – ایک مسلمان عرب فلسفی

ماہنامہ ’’خالد‘‘ اگست 2003ء میں مسلمان عرب فلسفی ابویوسف یعقوب ابن اسحق الکندی کے بارہ میں ایک مضمون مکرم عبدالکبیر قمر صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
الکندی کو مشرق و مغرب کے علماء نے علم طب، فلسفہ، حساب، منطق، موسیقی، ہندسہ، نجوم، علم مرئیات اور طبائع اعداد میں مہارت تامہ رکھنے والا نامور عالم قرار دیا ہے۔ اگرچہ الکندی کی زندگی کے حالات ناپید ہیں تاہم اُس کے اقوال اور زمانہ کے حالات پر غور کرنے سے کچھ علم ہوسکتا ہے۔ تحقیق کے مطابق الکندی کی جائے پیدائش کوفہ ہے جہاں آپ کے والد تین خلفائے عباسیہ کے زمانہ میں امیر رہے چنانچہ الکندی نے بھی تینوں خلفائے عباسیہ مامون، معتصم اور متوکل کے زیر سایہ زندگی گزاری۔ الکندی نے بصرہ اور بغداد میں بھی تعلیم حاصل کی۔ خلفاء اور علماء کی مصاحبت میں آپ نے بہت علمی ترقی کی اور دربار میں خاص مقام حاصل کرلیا۔ یونانی اور سریانی زبانوں میں بھی مہارت حاصل کی اور ترجمہ کا کام بھی کرتے رہے۔ عملاً آپ نے اپنی زندگی کو ارسطو کی تعلیمات کی ترویج کے لئے وقف کردیا تھا۔ اگرچہ یونانی فلسفہ سے جو ذہنی آزادی اُن میں پیدا ہوئی اُس کی وجہ سے اُن پر الحاد کا الزام بھی لگا اور متوکلؔ نے آپ کی تمام کتابیں بھی چھین لیں لیکن اس طرح آپ کے مقام میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ تاریخ دان آپ کو پہلا مسلمان فلسفی بھی قرار دیتے ہیں۔ آپ کی وفات قریباً 873ء (258ھ) میں ہوئی۔
الکندی کی زیادہ کتب فلسفہ پر ہیں لیکن جو کتب دستیاب ہوچکی ہیں ان میں فلسفہ (22)، نجوم (19)، ہیئت (16)، علم مناظرہ (17)، حساب (11)، ہندسہ (23)، طب (22)، طبیعات (12)، موسیقی (7)، نفس (5)، منطق (9) شامل ہیں۔آپ نے عقلیات کو پیش نظر رکھا ہے اور دینی مسائل سے بہت کم بحث کی ہے۔ آپ نے مترجم کی حیثیت سے بھی اپنا لوہا منوایا ہے اور کئی کتب کی شرح بھی لکھی ہے۔ آپ کے بعض اقوال درج ذیل ہیں:
٭ طبیب کو چاہئے کہ وہ خدا تعالیٰ سے ڈرتا رہے اور مریض کی جان کو خطرہ میں نہ ڈالے کیونکہ اس کا کوئی بدل ممکن نہیں۔
٭ گانا سننے کی وجہ سے انسان آپے سے باہر ہوجاتا ہے اور بے دریغ پیسہ صرف کرکے مفلس اور قلاش ہوجاتا ہے۔
٭ عاقل ہمیشہ اپنی علمیت کو محدود سمجھتا ہے اس لئے تواضع اختیار کرتا ہے اور جاہل خود کو تمام علوم کا مخزن جانتا ہے اس وجہ سے لوگ اس سے نفرت کرتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں