امیر تیمور کا دارالسلطنت ’’سمرقند‘‘

نپولین بوناپارٹ نے کہا تھا ’’اب بھی مسلمانوں میں ایسی طاقت باقی ہے کہ ایک امیر تیمور ان میں پیدا ہوئے تو پھر وہ سارے یورپ کو ہراسکتے ہیں‘‘۔ مغلیہ سلطنت کے بانی شہنشاہ تیمور 9؍اپریل 1336ء کو پیدا ہوئے اور 18؍فروری 1405ء کو وفات پائی۔ آپ کا تعلق ترکوں کے شاہی خاندان برلاس سے تھا جس کا سلسلہ نسب قراچار سے ملتا ہے جسے اپنے قبیلہ برلاس میں سب سے پہلے مسلمان ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ تیمور کے والد کا نام محمد طراغائی تھا اور چچا حاجی برلاس تھے جو سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مورث اعلیٰ تھے۔
امیر تیمور نے 1369ء میں سمرقند کو اپنا دارالسلطنت بنایا اور 36 سال تک پوری قوت و شوکت سے حکمرانی کی۔ اُس نے دیوار چین سے لے کر قلب روس تک اور کنار گنگاسے لے کر دریائے نیل اور بحیرہ روم کے وسیع علاقے کو زیرنگیں کیا۔ وہ ستائیس ممالک اور دنیا کے نو مختلف حکمران خاندانوں کا شہنشاہ تھا۔
مغربی مؤرخ ہیرلڈ لکھتا ہے کہ تیمور نے اپنی ہمت اور ذہانت سے ایک ایسی قوم پیدا کرلی جس کا مرکز اُس کی اپنی ذات تھی اور یہ اُس کی قیادت میں آندھی کی طرح سارے ایشیا پر چھاگئے۔ اہل یورپ اُس کے کارناموں کو ناقابل یقین خیال کرتے اور جب اُن کی صحت کا یقین ہوجاتا تو اُسے فوق البشر قرار دے کر خاموش ہوجاتے۔ اور جب وہ یورپ کی دہلیز پر نمودار ہوا تو وہاں کے بادشاہوں نے اُس کی خدمت میں سفیر روانہ کئے۔ انگلستان کے ہنری چہارم نے اُسے فتوحات پر مبارکباد دی۔ فرانس کے چارلس ششم نے اُس کی شان میں قصیدے لکھواکر بھیجے۔ یونان کے شہنشاہ مینوئل نے اُس سے امداد کی درخواست کی اور سپین کے فرمانروا شاہ قشتالیہ نے تیمور کے دربار میں سفیر بھیجا تو وہاں اُس نے مصر اور چین تک کے سفیروں کو دست بستہ حاضر پایا۔ خود اُسے بھی ایک فرنگی سفیر کی حیثیت سے ہی تیمور سے ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی اور اُس کے ساتھ مشفقانہ سلوک اس لئے روا رکھا گیا کہ سمندر میں چھوٹی مچھلیوں کے لئے بھی جگہ ہوتی ہے۔
شہنشاہ تیمور کی خودنوشت سوانح ’’تزک تیموری‘‘میں تیمور نے اعتراف کیا ہے کہ اُسے سلطنت اور بادشاہی خدائے کریم کی نظر کرم اور آنحضرتﷺ کی ذات بابرکات کی بدولت عطا ہوئی۔ تیمور ایک بزرگ حضرت میر سید شریف کا عقیدتمند اور مرید تھا۔ اُنہی کی ہدایات کے مطابق تیمور نے اپنی سلطنت کا انتظام کیا اور آئین نافذ کیا۔ تمام شہروں میں مساجد اور عبادتگاہیں تعمیر کرائیں اور مدرسے کھولے۔ اُس کا دستور تھا کہ جب کسی ملک کو فتح کرتا تو وہیں کے حاکم کو اُس کی حکومت بخش کر اپنا مطیع بنالیتا۔ اُس نے ایک ہزار شتر سوار اور گھوڑ سوار اور ایک ہزار پیادہ ڈاکئے مقرر کئے جو اُسے ہمسایہ ممالک کے عزائم سے باخبر رکھتے تھے۔ جو لوگ کسی مفتوحہ ملک میں سے اُس کے پاس امداد کے لئے آتے، تیمور اُن کے ملک سے حاصل شدہ مال غنیمت میں سے بلاتفریق مذہب اُن کی مدد کرتا۔ اُس نے اکابرین دین مثلاً حضرت علیؓ، حضرت امام حسینؓ، حضرت سید عبدالقادر جیلانیؒ، حضرت امام ابو حنیفہؒ، حضرت امام موسیٰ کاظمؒ، حضرت سلمان فارسیؓ اور دیگر بزرگان دین کے مزاروں کی حفاظت و انتظام کے لئے دیہات وقف کئے اور وظائف مقرر کئے۔ اُس کا اصول تھا کہ رعایا کی استطاعت سے بڑھ کر ٹیکس عائد نہ کیا جائے۔ وہ کہتا تھا کہ اگر رعایا مفلوک الحال ہوجائے تو خزانہ میں کمی واقع ہوتی ہے جس سے سپاہ میں تفرقہ پیدا ہوتا ہے اور اس طرح اقتدار میں زوال آ جاتا ہے۔
سلطان مصر نے امیر تیمور کے نام پر سکہ جاری کیا تھا۔ مکہ معظمہ، مدینہ منورہ اور دیگر مقامات مقدسہ میں اُس کی فرمانروائی کے خطبات پڑھے گئے اور بہت سے نامور علماء نے تیمور کو آٹھویں صدی کا مجدد بھی قرار دیا۔
مستند مؤرخین متفق ہیں کہ تیمور کا دارالسلطنت سمرقند دنیا کے قدیم ترین شہروں میں سے ہے جسکی بنیاد ذوالقرنین کے ہاتھوں رکھی گئی۔ ایران کے قدیم باشندے قریباً چار ہزار سال قبل مسیح میں چراگاہوں کی تلاش میں پامیر سے ایران آئے اور شروع شروع میں بخارا اور سمرقند میں آباد ہوئے۔ قدیم ایرانی صوبہ سغرانیہ کا دارالسلطنت سمرقند بھی رہا۔ 329 ق م میں سکندراعظم نے اس پر یورش کرکے اسے تاخت و تاراج کردیا۔ اموی بادشاہ ولید بن عبدالملک کے عہد میں قتیبہ بن مسلم نے 712ء میں سمرقند پر اموی مملکت کا جھنڈا لہرایا جہاں چار گھنٹہ کی خونریز جنگ کے بعد بادشاہ خاقان کا لڑکا مارا گیا اور عرب سپاہ نے منجنیقوں کے ذریعہ قلعہ پر شدید سنگ باری کی اور قلعہ کی دیوار میں شگاف کرکے سمرقند پر قابض ہوگئیں۔ سمرقند کے شہریوں کو اسلام کے نور سے منور کرنے کا سہرا حضرت معبد بن عباسؓ کے فرزند حضرت قثم کے سر ہے جو دعوت الی اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے اور اسی سرزمین میں سپردخاک ہوئے۔ ابن بطوطہ نے لکھا ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ تاتاری بھی حضرت قثم کے مزار پر آتے اور چڑھاوے چڑھاتے کیونکہ انہوں نے بھی بہت سی کرامتیں مشاہدہ کی تھیں۔ حضرت عمر ابن عبدالعزیزنے اپنے عہد میں سمرقند کے حکام کو اہم سڑکوں پر مسافر خانے بنانے اور دیگر سہولتیں مہیا کرنے کا حکم دیا۔
جولائی 751ء میں ایک عرب سپہ سالار امیر زیاد بن صالح نے ترکوں اور چینیوں کی ایک مخلوط فوج کو ہزطراز کے کنارے شکست دی اور جو چینی قید ہوئے اُن میں سے بعض کاغذ بنانا جانتے تھے۔ اُن کی مدد سے سمرقند میں کاغذ بنانے کی صنعت شروع ہوئی اور یہاں سے تمام مسلم ممالک کو کاغذ مہیا کیاجانے لگا۔ 819ء میں عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے حکم سے سمرقند ایران کی سامانی حکومت کے زیرنگیں آگیا۔
1220ء میں چنگیز خان نے سمرقند کی اینٹ سے اینٹ بجادی۔1369ء میں شہنشاہ تیمور نے جب سمرقند کو اپنا دارالسلطنت قرار دیا تو اس شہر کی شوکت رفتہ بحال ہونے لگی۔اور یہ شہر جلد ہی اسلامی ثقافت کا مرکز اور تجارت کی عالمی شاہراہ بن گیا۔ تیمور نے شہر سے دریا تک کشادہ سڑکوں کا جال بچھادیا، وسیع محلات تعمیر کروائے، اردگرد کئی اضافی بستیاں آباد کیں۔اس کے زمانہ میں شہر کی آبادی ڈیڑھ لاکھ تک پہنچ گئی تھی اور سیاح اسے جنت الفردوس کا نام دیتے تھے۔
18؍فروری 1405ء کو تیمور کی وفات کے بعد بھی اُس کے جانشینوں کے دو سو سالہ دور میں سمرقند ترقی کی منازل طے کرتا رہا۔ تیمور کے پوتے الغ بیگ نے یہاں ایک عظیم رصدگاہ بنوائی اور نئے آلات رصد ایجاد کئے۔ یہ شہر مدتوں علم و فضل کا گہوارہ رہا اور بہت سے ارباب علم و کمال اس کی خاک سے پیدا ہوئے۔
تیمور کی پانچویں نسل میں ظہیرالدین محمد بابر جیسا تاجدار پیدا ہوا جس نے پندرہ سال کی عمر میں اپنے آباء و اجداد کے دارالخلافہ سمرقند کو فتح کرلیا لیکن جلد ہی اُس کو نامساعد حالات کی وجہ سے اقتدار سے دست کش ہونا پڑا۔ لیکن اُس نے طویل جدوجہد کرکے اپنے دشمنوں کو زیرنگیں کیا اور ایک ایسی عظیم سلطنت کی بنیاد رکھی جو کابل و قندھار سے لے کر جنوبی ہندوستان تک پھیلی ہوئی تھی۔ بابر کی ہندوستان پر قبضہ کرنے کی چار کوششیں ناکام ہوئیں ۔ آخر پانچویں بار وہ دس ہزار گھوڑسواروں کے ساتھ حملہ آور ہوا اور پانی پت کے میدان میں ابراہیم لودھی کو شکست دی اور ابراہیم لودھی سمیت اُس کی فوج کے سولہ ہزار سپاہی قتل کردیئے اس طرح 22؍اپریل 1526ء کو دہلی میں داخل ہوگیا۔ 26؍دسمبر 1530ء کو بابر کا انتقال آگرہ میں ہوا اور اُسے کابل کی چمکدار ندی کے کنارے دفن کیا گیا۔
بابر کی زندگی کے آخری سال یعنی 1530ء میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے جدامجد حضرت مرزا ہادی بیگ صاحب قریباً دو سو افراد کے قافلہ کے ہمراہ سمرقند سے ہجرت کرکے وارد ہند ہوئے۔ آپ کو دربار دہلی کی طرف سے قادیان کے گردو نواح کے ستر دیہات پر قاضی مقرر کیا گیا۔ آپ ہی نے اس علاقہ کے وسط میں ایک قصبے اسلام پور قاضی ماجھی کی بنیاد رکھی جو بعد میں قادیان کہلایا۔ آپ کا خاندان کئی پشتوں تک معزز عہدوں پر فائز رہا۔ چنانچہ ہندوستان کے بادشاہوں فرخ سیر غازی، محمد شاہ، شاہ عالم ثانی اور عالمگیر کے اس خاندان کے بزرگوں کے نام شاہی خطوط اور سندات تاریخ میں محفوظ ہیں۔
14؍نومبر 1868ء کو سمرقند کی مسلم سلطنت کا چراغ روسی قبضہ کے ساتھ ہی ختم ہوگیا۔1871ء میں قدیم شہر کے مغرب میں ایک نیا شہر آباد کیا گیا۔ اشتراکی غلبہ کے بعد سمرقند جو صوبہ ازبکستان میں ہے، خاص طور پر اشتراکی یلغار کی زَد میں آیا۔ 1924ء سے 1930ء تک سمرقند اپنے صوبہ کا دارالحکومت رہا جس کے بعد مسلم آبادی کو ناپید کرنے کی کوششیں تیز کردی گئیں اور تاشقند کو ازبکستان کا دارالحکومت قرار دیا گیا۔ سمرقند کی جامع مسجد کا مینار گراکر اس کی جگہ لینن کا مجسمہ نصب کردیا گیا اور نیچے یہ عبارت درج کی گئی کہ آج سے اس مینار سے مارکس اور لینن کی آواز سنائی دے گی۔ ازبکستان کی روسی حکومت نے مسلمانوں کے ساتھ ہر وہ ظلم روا رکھا جو وہ کرسکتے تھے۔ البتہ دنیا کو دکھانے کے لئے چند سال قبل امیر تیمور کی 660ویں برسی منائی گئی اور امیر کا مجسمہ بھی سمرقند میں نصب کرادیا گیا۔
سمرقند اور اُس کے گردو نواح میں حضرت قثم بن عباسؓ، حضرت امام بخاریؒ، شیخ زندہؒ، امیر محمد طراغرائی (والد تیمور) اور امیر تیمور کے مزار موجود ہیں۔ حضرت قثمؓ، بی بی خانم اور حضرت خضر کی طرف منسوب مساجد بھی موجود ہیں جبکہ شہنشاہ تیمور کا سفید محل، باغ، الغ بیگ کی رصدگاہ، چند تاریخی عمارات اور بعض مدارس بھی موجود ہیں۔ ہر مسلمان اس اجڑے دیار پر ٹوٹنے والی قیامت کے تذکرہ سے خون کے آنسو روتا ہے۔
یہ تحقیقی مضمون روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍نومبر 1999ء میں مکرم مولانا دوست محمد صاحب شاہد کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں