انجیوپلاسٹی یا بائی پاس آپریشن – جدید تحقیق کی روشنی میں

انجیوپلاسٹی یا بائی پاس آپریشن – جدید تحقیق کی روشنی میں
(اطہر ملک)

٭ اور آخر میں امریکہ میں کی گئی ایک مطالعاتی تحقیق جس میں بتایا گیا ہے کہ دل کے ایسے مریض جن کی ایک سے زیادہ شریانیں بند ہوں، اُن کے لئے انجیوپلاسٹی کی نسبت بائی پاس آپریشن مقابلۃً بہتر اور زیادہ محفوظ علاج ہے۔ اس تحقیق میں یہ جائزہ لیا گیا تھا کہ جن لوگوں کی بائی پاس سرجری کی گئی تھی، اُن میں دل کے دوبارہ حملے کی شرح اُن لوگوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ کم تھی جن کی بند شریانوں کو کھولنے کے لئے انجیوپلاسٹی کی گئی تھی۔ بائی پاس میں بند شریانوں کو کھولنے کی کوشش نہیں کی جاتی بلکہ جسم کے کسی دوسرے حصے میں خون لے جانے والی ایک نالی کو نکال کر اُس کے ذریعے دل کے اُن پٹھوں کو خون پہنچایا جاتا ہے جنہیں رکاوٹ کی وجہ سے خون نہ پہنچ رہا ہو۔ جبکہ انجیو پلاسٹی میں کسی بڑے آپریشن کی بجائے خون کی بند نالی میں ایک ننھا سا غبارہ سٹینٹ کی مدد سے داخل کیا جاتا ہے اور پھر اُسے پھلاکر شریان کی رکاوٹ کو دُور کردیا جاتا ہے۔ بعد میں یہ سٹینٹ شریان کو کھلا رکھنے کے لئے وہیں چھوڑ دیا جاتا ہے۔
کچھ عرصہ پہلے تک بائی پاس کے مقابلے میں انجیوپلاسٹی زیادہ مقبول طریقۂ علاج تصور ہوتا تھا۔ چنانچہ 2005ء میں دو لاکھ اکسٹھ ہزار مریضوں کی قریباً چار لاکھ انہتر ہزار سرجریز کی گئیں جبکہ اس عرصے میں دوسرے مریضوں کی بارہ لاکھ انجیوپلاسٹی کی گئی اگرچہ بعض مریضوں کی ایک سے زیادہ مرتبہ انجیوپلاسٹی کی ضرورت بھی پیش آئی۔ حالیہ تحقیق کرنے والوں نے 2003ء اور 2004ء میں نیویارک کے سترہ ہزار چار سو مریضوں کے کوائف اکٹھے کئے اور مشاہدہ کیا کہ علاج کے اٹھارہ ماہ کے بعد ان مریضوں میں سے کتنے پیچیدگی کا شکار ہوئے۔ اگرچہ تحقیق کے نتائج سے واضح تھا کہ دونوں قسم کے طریقۂ علاج میں لوگوں کے زندہ بچ جانے والوں کی شرح انتہائی حوصلہ افزاء تھی تاہم جن لوگوں کی بائی پاس سرجری کی گئی تھی، اُن کی حالت زیادہ بہتر تھی، اور ایسے مریضوں کو دوبارہ یہ عمل کروانے کی ضرورت بھی کم پیش آئی تھی اور اُنہیں علاج کے بعد دل کا دورہ بھی کم ہی پڑا تھا۔ تاہم ہاورڈ یونیورسٹی کے کارڈیالوجسٹ ڈاکٹر جوزف کا کہنا ہے کہ انجیوپلاسٹی کے ذریعے سٹینٹس کو شریانوں کی داخل کرنا اب بھی معمر مریضوں اور اُن لوگوں کے لئے زیادہ بہتر طریقہ علاج ہے جنہیں سرجری سے کسی قسم کا نقصان پہنچ سکتا ہے یا جو اس سے خائف ہیں تاہم شریانوں میں بعض رکاوٹیں ایسی ہوتی ہیں جنہیں سٹینٹس کی مدد سے دُور نہیں کیا جاسکتا۔
آجکل جدید انجیوپلاسٹی میں ایسے Stents استعمال کئے جاتے ہیں جن پر دوا کی تہہ چڑھی ہوئی ہوتی ہے اور اس طریقۂ علاج سے امراضِ قلب میں مبتلا افراد کی صحت مند زندگی گزارنے کی شرح میں ایک انقلاب برپا ہوگیا ہے۔ چنانچہ اب تک قریباً ساٹھ لاکھ افراد کی بند شریانوں کو انجیوپلاسٹی کے ذریعے دواؤں والے سٹینٹس کی مدد سے کھولا گیا ہے۔ نیوانگلینڈ جرنل آف میڈیسن میں شائع کئے گئے ایک تحقیقی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ انجیوپلاسٹی میں استعمال کئے جانے والے ایسے سٹینٹس جن پر دوا کی تہہ چڑھائی گئی ہو، سابقہ استعمال کے جانے والے خالص دھاتی سٹینٹس کے مقابلے میں زیادہ محفوظ اور مؤثر سمجھے جاتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں