انصاراللہ کے قیام کی حکمت اور پس منظر

(مطبوعہ انصارالدین یوکے ستمبرواکتوبر2022ء)

عطاءالمجیب راشد صاحب

جماعت احمدیہ کا آغاز 1889ء میں ہوا۔ اُس وقت کوئی ذیلی تنظیم نہیں تھی۔ جماعت احمدیہ میں ذیلی تنظیموں کا قیام سیدنا حضرت مصلح موعودؓکی خداداد ذہانت و فطانت اور علمی و انتظامی صلاحیتوں کا آئینہ دار ہے۔ آپ نے افراد جماعت کے مرد و زن اور بچوں کو اپنی عمر کے لحاظ سے ذیلی تنظیموں میں تقسیم کر کے ان کی روحانی، اخلاقی، معاشی، معاشرتی اور جسمانی ترقی کے سامان منظم صورت میں پیدا فرما دیے۔ یہ حضرت مصلح موعودؓکا جماعت پر عظیم الشان احسان ہے۔
1922ء میں لجنہ اماء اللہ اور 1938ء میں خدام الاحمدیہ کے قیام کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے 26 جولائی 1940ء کو اپنے خطبہ جمعہ میں مجلس انصاراللہ کے قیام کا اعلان فرمایا اور حضرت مولانا شیر علی صاحبؓ کو اس کا پہلا صدر مقرر فرمایا۔ ابتدائی طور پراس کے لیے قادیان کے انصار کی تنظیم سازی کی گئی اور پھر اس کو پورے ہندوستان اور بیرون ممالک تک پھیلا دیا گیا۔

لوائے انصاراللہ

آغاز میں مسجد مبارک قادیان میں تنظیم انصاراللہ کے اجلاسات ہوئے تھے۔ تقسیم ملک کے بعد مجلس کا دفتر جودھامل بلڈنگ لاہور میں منتقل ہوا اورنئے مرکز کے قیام کے بعد یہ دفتر ربوہ میں قائم ہو گیا۔
ربوہ میں مجلس انصار اللہ مرکزیہ کے باقاعدہ دفاتر کا سنگ بنیاد حضرت مصلح موعودؓ نے 20فروری 1956ء کو رکھا۔
مجلس انصار اللہ کا پہلا دستور اساسی 1943ء کو منظور ہوا۔
مجلس انصار اللہ مرکزیہ کا پہلا سالانہ اجتماع 25 دسمبر 1944ء کو مسجد اقصیٰ قادیان میں ہوا تھا۔ پاکستان میں پہلا سالانہ اجتماع نومبر 1955ء میں منعقد ہوا۔

مجالس کے قیام کی غرض

سیّدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ ذیلی تنظیموں کے قیام کی غرض بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’ان مجالس کا قیام میں نے تربیت کی غرض سے کیا ہے۔… ان مجالس پر دراصل تربیتی ذمہ داری ہے۔ یاد رکھو کہ اسلام کی بنیاد تقویٰ پر ہے۔ حضرت مسیح موعودؑ ایک شعر لکھ رہے تھے۔ ایک مصرع آپ نے لکھا کہ

ہر اِک نیکی کی جڑ یہ اتقا ہے

اسی وقت آپؑ کو دوسرا مصرع الہام ہوا جو یہ ہے کہ

اگر یہ جڑ رہی سب کچھ رہا ہے

… اگر کوئی قوم تقویٰ پر قائم ہوجائے تو کوئی طاقت اسے مٹا نہیں سکتی۔… پس مجلس انصاراللہ، خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ کا کام یہ ہے کہ جماعت میں تقویٰ پیدا کرنے کی کوشش کریں اور اس کے لیے پہلی ضروری چیز ایمان بالغیب ہے۔‘‘
(سبیل الرشاد جلد اوّل صفحہ51تا55)
نوٹ:حضرت مصلح موعودؓ نے تقویٰ پیدا کرنے کے لیے ایمان بالغیب کے بعد اقامۃ الصلوٰۃ، انفاق فی سبیل اللہ، ایمان بالقرآن، بزرگان دین کا احترام اور یقین بالآخرت کو ضروری قرار دیا۔

نظام جماعت کو بیدار رکھنے کے لیے ذیلی تنظیموں کا قیام

اتنی ذیلی تنظیموں کے قیام کا مقصد یہی ہے کہ اگر ایک تنظیم سست ہو تو دوسری بیدار کرنے والی ہو۔ حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’خدام الاحمدیہ اور انصاراللہ اور لجنہ اماء اللہ اسی جماعتی نظام کی دو کڑیاں ہیں اور ان کواسی لیے قائم کیا گیا ہے تاکہ وہ نظام کو بیدار رکھنے کا باعث ہوں۔‘‘
(سبیل الرشاد جلد اوّل صفحہ80-81)

حقیقی انصاراللہ دائمی خلافت کے ضامن

حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:
’’یاد رکھو تمہارا نام انصار اللہ ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے مددگار۔ گویا تمہیں اللہ تعالیٰ کے نام کی طرف منسوب کیا گیا ہے اور اللہ تعالیٰ ازلی اور ابدی ہے۔ اس لیے تم کو بھی کوشش کرنی چاہیے کہ ابدیت کے مظہر ہوجاؤ۔ تم اپنے انصار ہونے کی علامت یعنی خلافت کو ہمیشہ ہمیش کے لیے قائم رکھتے چلے جاؤ اور کوشش کرو کہ یہ کام نسلاً بعد نسل چلتا چلا جاوے اوراس کے دو ذریعے ہوسکتے ہیں۔ ایک ذریعہ تو یہ ہے کہ اپنی اولاد کی صحیح تربیت کی جائے اور اس میں خلافت کی محبت قائم کی جائے۔ اسی لیے مَیں نے اطفال الاحمدیہ کی تنظیم قائم کی تھی اور خدام الاحمدیہ کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ یہ اطفال اور خدام آپ لوگوں کے ہی بچے ہیں۔ اگر اطفال الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہوگی۔ تو خدام الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہوگی اور اگر خدام الاحمدیہ کی تربیت صحیح ہوگی تو اگلی نسل انصاراللہ کی اعلیٰ ہوگی۔ میں نے سیڑھیاں بنادی ہیں۔ آگے کام کرنا تمہارا کام ہے۔ پہلی سیڑھی اطفال الاحمدیہ ہے۔ دوسری سیڑھی خدام الاحمدیہ ہے۔ تیسری سیڑھی انصار اللہ ہے اور چوتھی سیڑھی خدا تعالیٰ ہے۔‘‘
(سبیل الرشاد جلد اوّل صفحہ114-115)

خلافت کے ساتھ انصار کے نام کو ہمیشہ قائم رکھیں

انصار کا خلافت سے ایک خاص تعلق ہے۔ اس حوالے سے سیّدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ فرماتے ہیں:
’’مسلمانوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہایت محبت تھی۔ وہ برداشت نہیں کرسکتے تھے کہ دشمن آپؐ کی ذات پر حملہ آور ہو۔ اس لیے وہ بے جگری سے حملہ کرتے اور کفار کا منہ توڑ دیتے۔ ان کے اندر شیر کی سی طاقت پیدا ہوجاتی تھی اور وہ اپنی جان کی کوئی پروا نہیں کرتے تھے۔
یہ سچی محبت تھی جو صحابہؓ کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے تھی۔ آپ لوگ بھی ان جیسی محبت اپنے اندر پیدا کریں۔ جب آپ نے انصار کا نام قبول کیاہے توان جیسی محبت بھی پیدا کریں۔ آپ کے نام کی نسبت اللہ تعالیٰ سے ہے اور خداتعالیٰ ہمیشہ رہنے والا ہے۔ اس لیے تمہیں بھی چاہیے کہ خلافت کے ساتھ ساتھ انصار کے نام کو ہمیشہ کے لیے قائم رکھو اور ہمیشہ دین کی خدمت میں لگے رہو۔ کیونکہ اگر خلافت قائم رہے گی تو اِس کو انصار کی بھی ضرورت ہوگی۔ خدام کی بھی ضرورت ہوگی اور اطفال کی بھی ضرورت ہوگی۔ ورنہ اکیلا آدمی کوئی کام نہیں کرسکتا۔‘‘
(سبیل الرشاد جلد اوّل صفحہ 121)

جماعت کی دماغی نمائندگی انصاراللہ کرتے ہیں

بانی تنظیم انصاراللہ حضرت مصلح موعودؓ نے 1955ء کے سالانہ اجتماع انصاراللہ مرکزیہ سے خطاب کرتے ہوئے انصاراللہ کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا:
’’اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جماعت کی دماغی نمائندگی انصاراللہ کرتے ہیں اور اس کے دل اور ہاتھوں کی نمائندگی خدام الاحمدیہ کرتے ہیں۔ جب کسی قوم کے دماغ، دل اور ہاتھ ٹھیک ہوں تو وہ قوم بھی ٹھیک ہو جاتی ہے۔ پس میں پہلے تو انصار اللہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ ان میں سے بہت سے وہ ہیں جو یا صحابی ہیں یا کسی صحابی کے بیٹے ہیں یا کسی صحابی کے شاگرد ہیں، اس لیے جماعت میں نمازوں، دعاؤں اور تعلق باللہ کو قائم رکھنا ان کا کام ہے۔ ان کو تہجد، ذکر الٰہی اور مساجد کی آبادی میں اتنا حصہ لینا چاہیے کہ نوجوان ان کو دیکھ کر خود ہی ان باتوں کی طرف مائل ہو جائیں۔ … میں انصاراللہ کو توجہ دلاتا ہوں کہ وہ اپنے نمونہ سے اپنے بچوں، اپنے ہمسایہ کے بچوں اور اپنے دوستوں کے بچوں کو زندہ کریں۔‘‘
(سبیل الرشاد جلد اوّل صفحہ 191-192)

اشاعتِ قرآن کا فریضہ

اشاعت قرآن انصاراللہ کا اوّلین فریضہ ہے۔ اس بارے میں توجہ دلاتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؓ فرماتے ہیں:
’’انصار اللہ کا یہ اولین فرض ہے کہ وہ اشاعتِ قرآن کے لیے کوشاں رہیں۔ میں پھر دوبارہ بطور یاددہانی آج یہ نصیحت اس لیے کرنا چاہتا ہوں کہ جب آپ واپس جائیں اور جہاں بھی آپ ہوں دعائیں کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے توفیق پا کر قرآن کریم کی اشاعت کی طرف متوجہ رہیں۔‘‘
(سبیل الرشاد جلددوم صفحہ 212)

جماعت کو بیدار رکھنے کی ذمہ داری

حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جماعت میں بیداری قائم رکھنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جماعت کا ہر فرد بڑا بھی اور چھوٹا بھی۔ مرد بھی اور عورت بھی۔ جماعت کے اخبار اور رسالوں کو پڑھنے کی عادت ڈالے یا جو نہیں پڑھ سکتے ان کو سنانے کا انتظام کیا جائے۔ …
جماعت کو بیدار رکھنے کے لیے مرکز کے اخباروں اور رسالوں کا پڑھنا ضروری ہے اور ان اخباروں اور رسالوں کو پڑھنا اور پڑھوانا یہ انصار اللہ کی ذمہ داری ہے۔ یہ ذمہ داری انصار اللہ پر ہے کہ انہوں نے جماعت کو بیدار رکھنا ہے۔‘‘
مزید فرمایا:
’’تو بیداری پیدا کرنے اور بیداری قائم رکھنے کی جو ذمہ داری مجلس انصاراللہ پر ہے، اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ مجلس انصاراللہ کے اراکین زیادہ سے زیادہ وقف عارضی کے منصوبہ میں شامل ہوں اور کم از کم سال میں دو ہفتے تو خالصۃً لِلّٰہ اور اس کے دین کے لیے وقف کریں۔
اس کے علاوہ مجلس انصاراللہ پر یہ فرض بھی عائد کیا گیا تھا کہ وہ روزانہ کچھ نہ کچھ وقت جماعتی کاموں کے لیے دیں۔‘‘
(سبیل الرشاد جلد دوم صفحہ 67-68)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ فرماتے ہیں:
’’انصار اللہ چونکہ اپنے اپنے خاندان کے سر پرست ہیں اس لیے ان پر دو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں ایک یہ کہ ہر خاندان کا ہر فرد اردو پڑھنا جانتا ہو۔‘‘
نیز فرمایا: ’’میں آج آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اپنے گھروں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے رکھنے اور ان کا مطالعہ کرنے اور بچوں کو سنانے کا انصاراللہ کے ذریعہ کوئی انتظام ہونا چاہیے اور اس کی کوئی خاطر خواہ نگرانی بھی ہونی چاہیے کہ عملا ً ایسا ہو رہا ہے۔‘‘
(سبیل الرشاد جلد دوم صفحہ 324تا 328)

انصاراللہ کی ذمہ داریاں باقی تنظیموں سے زیادہ ہیں

انصار کو ایک بہت ہی اہم نصیحت فرماتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
’’انصار اللہ کی عمر وہ عمر ہے جس کے بعد کسی اور مجلس میں شامل نہیں ہونا بلکہ دوسری دنیا کی طرف رخصت ہونا ہے۔ اس لیے جو دینی کاموں میں کمزوریاں رہ گئی ہیں ان کو دور کرنا اور ان کا ازالہ کرنا جس حد تک ممکن ہے انصار کو کرنا چاہیے کیونکہ پھر اس کے بعد دوبارہ یہاں واپس نہیں آنا۔ اور اس پہلو سے خدام اور دوسرے ذیلی شعبوں سے مجلس انصاراللہ کو زیادہ مستعد ہونا چاہیے اور زیادہ ان کے دل پر بوجھ پڑنا چاہیے۔ انبیاء کا سب کا یہی حال رہا ہے۔ جوں جوں عمر بڑھتی ہے اور بڑھاپے کی عمر میں وہ داخل ہوتے ہیں کام کی ذمہ داریاں ان پر بڑھتی چلی جاتی ہیں اور پہلے سے زیادہ محنت اٹھاتے ہیں۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے متعلق بھی یہی روایتیں ہیں کہ آخری ایام میں تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی شخص غروب ہوتے ہوئے سورج پر نظر کرتے ہوئے جب کہ ابھی منزل دُور ہو بہت تیزی سے قدم اٹھاتا ہے اور بار بار توجہ کرتا ہے کہ کہیں دن غروب نہ ہو جائے۔ اس کیفیت سے آپؑ نے آخری عمر میں کاموں کے بوجھ زیادہ بڑھا لیے اور زیادہ اس احساس کے ساتھ کہ جو کچھ بھی اب مجھ سے ممکن ہے میں کر لوں، ان کی ذمہ داریاں ادا فرمائیں۔ پس انصار کا ایک یہ پہلو ہے جو پیش نظر رہنا چاہیے۔
دوسرا یہ کہ انصار کی ذمہ داریوں میں طبعی طور پر ان سے نچلی تمام نسلوں کی ذمہ داریاں داخل ہیں۔بچوں کی تربیت میں بھی انصار سب سے اچھا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ خواتین کی تربیت میں بھی انصار سب سے اچھا کردار ادا کرسکتے ہیں اس میں بالعموم نفس کی ملونی کا خطرہ باقی نہیں رہتا۔ اس پہلو سے مجلس انصار اللہ کو مستعد بھی ہونا چاہیے اور اپنی ذیلی تنظیموں کی تربیت پر بھی نظر رکھنی چاہیے۔‘‘
(سبیل الرشاد جلد سوم صفحہ 426-427)

انصار کی تین اہم ذمہ داریاں

مجلس انصاراللہ جرمنی کے سالانہ اجتماع 2007ء کے موقع پر اپنے پیغام میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے انصار اللہ کو ان کی تین اہم ذمہ داریوں کی طرف متوجہ فرمایا یعنی
1۔ قیام نماز 2۔ قرآن کریم سیکھنا اور سکھانا 3۔تربیت اولاد
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
’’انصاراللہ کی سب سے اہم ذمہ داری پنجوقتہ نمازوں کا قیام ہے۔ قرآن کریم نے مومنوں کی سب سے پہلی یہی علامت بیان فرمائی ہے کہ یُقِیۡمُوۡنَ الصَّلٰوۃَ یعنی وہ نمازوں کو قائم کرتے ہیں۔ اس کو ضائع نہیں ہونے دیتے۔… انصاراللہ نے نمازوں کے قیام کے لیے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں۔خود بھی پنجوقتہ نمازوں پر قائم ہوں اور اپنی بیویوں اور اولادوں کو بھی اس کا عادی بنائیں۔ پانچوں نمازیں وقت پرادا کریں اور انہیں ہرگز ضائع نہ کریں۔ نمازیں باربار پڑھیں اور اس خیال سے پڑھیں کہ آپ ایسی طاقت والے کے سامنے کھڑے ہیں کہ اگر اس کا ارادہ ہو تو ابھی قبول کرلیوے۔یہ آپ کی نسلوں کی روحانی پاکیزگی کی ضمانت ہے۔ دنیا کے گند اور آلائشوں سے بچانے کا ذریعہ ہے۔یہ سیئات کو دور کرتی ہے۔
دوسری اہم ذمہ داری انصار اللہ کی یہ ہے کہ وہ خود بھی قرآن کریم سیکھیں اور اپنی اولادوں کو بھی سکھائیں۔ اور پھر ہر گھر میں تلاوت قرآن کا اہتمام اورالتزام ہو۔اگر آپ خود روزانہ اس کی تلاوت کریں گے تو آپ کے بچے اس سے نیک اثر لیتے ہوئے تلاوت کے عادی بن جائیں گے۔…
تیسری ذمہ داری بچوں کی تربیت ہے۔ یہ بھی انصاراللہ کا کام ہے کہ وہ احمدی بچوں کی تربیت کی فکر کریں۔… تربیت کے مضمون میں یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ ماں باپ جتنی مرضی زبانی تربیت کریں اگر ان کا اپنا نمونہ اور کردار ان کے قول کے مطابق نہیں توبچوں کی تربیت نہیں ہوسکتی…۔ گھروں میں نظام جماعت کے خلاف باتیں نہ ہوں جن سے بچوں کی تربیت پربُرا اثر پڑے … اگر آپ نے اپنے بچوں کو احمدیت، حقیقی اسلام پر قائم رکھنا ہے تو ان کے دلوں میں خلافت احمدیہ اور نظام جماعت کی محبت اور احترام پیدا کریں اور یہ تبھی ہوگا جب یہ محبت اور احترام آپ کے دلوں اور آپ کے عملی نمونہ سے پھوٹ رہا ہوگا۔
(سبیل الرشاد جلد چہارم صفحہ 187تا189)

انصاراللہ سے خلیفہ وقت کی توقعات

حضور انورایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ایک پیغام میں انصار بھائیوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف متوجہ کرتے ہوئے فرمایا:
’’جماعت کی ذیلی تنظیموں کے نظام میں انصاراللہ کی تنظیم ایسی ہے جس کے ممبران اپنی اس عمر کو پہنچ جاتے ہیں جس میں انسان کو اپنی زندگی کے انجام کے آثار نظر آنا شروع ہو جاتے ہیں اور بڑی تیزی سے اس انجام کی طرف قدم بڑھتے چلے جاتے ہیں۔ … آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کو عبادت کا مغز قرار دیا ہے۔ اس میں سب دُعائیں آ جاتی ہیں۔ اگر کلمہ طیبّہ مسلمان ہونے کا زبانی اقرار ہے تو نماز اس کی عملی تصویر ہے۔ …
دوسری بات قرآن کریم کی تلاوت، احادیث اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا مطالعہ ہے۔ ہر مرتبہ پڑھنے سے نئے نئے معنی کھلتے ہیں۔ …
تیسری بات دین کی خاطر مالی قربانیوں کی طرف توجہ دینا ہے۔ میں نے صف دوم کے انصار کونظامِ وصیت میں شامل ہونے کی طرف توجہ دلائی تھی۔ ہر مجلس کی سطح پر اس کے لیے کوشش ہونی چاہیے۔ اس نظام میں شامل ہونے والوں کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے بھی دُعائیں کی ہیں۔ اسی طرح دوسری مالی تحریکات بھی ہیں۔ ان میں بھی حصہ لیں اور اس حوالے سے اپنا جائزہ لیں کہ کیا ہم انصاراللہ ہونے کا حق ادا کر رہے ہیں؟
انصاراللہ کا ایک اور اہم کام خلافت سے وابستگی اور اُس کے استحکام کے لیے کوشش کرنا ہے۔ جماعت اور خلافت ایک وجود کی طرح ہیں۔ افراد جماعت اس کے اعضاء ہیں تو خلیفۂ وقت دل و دماغ کے طور پر ہیں۔ کیا کبھی ایسا ممکن ہوا ہے کہ انسانی دماغ ہاتھ کو کوئی حکم دے اور ہاتھ اُسے ردّ کر کے اپنی مرضی کے مطابق حرکت کرے۔ اگر آپ اس تعلق کو سمجھ جائیں اور اگر یہ سوچ ہر ایک میں پیدا ہو جائے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ کوئی فرد جماعت اپنے فیصلوں اور اپنے علمی نکتوں اور اپنے عملوں پر اصرار کریں۔ پس آپ کی ہر حرکت و سکون خلیفۂ وقت کے تابع ہونی چاہیے۔
انصاراللہ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ آپ کے عملی نمونے اور پاک تبدیلیاں دوسری تنظیموں اور افراد جماعت سے بڑھ کر ہونی چاہئیں۔ ہمارے بڑوں نے انصاراللہ ہونے کا حق ادا کیا اور بے نفس ہو کر دین کی خاطر قربانیاں کیں تو آج ہمارا فرض ہے کہ ایک جُہدِ مسلسل اور دُعاؤں کے ساتھ اپنے پیچھے آنے والوں کے لیے نیکی کے راستے ہموار کرتے جائیں۔ اس لیے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس نصیحت کو پلے باندھ لیں۔ آپؑ فرماتے ہیں:
’’بیعت کی حقیقت یہی ہے کہ بیعت کنندہ اپنے اندر سچی تبدیلی اور خوفِ خدا اپنے دل میں پیدا کرے اور اصل مقصود کو پہچان کر اپنی زندگی میں ایک پاک نمونہ قائم کرکے دکھاوے۔ اگر یہ نہیں تو پھر بیعت سے کچھ فائدہ نہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم اپنی زندگیاں اس نہج پر چلانے والے ہوں۔ آمین‘‘
(ماہنامہ انصاراللہ ربوہ اکتوبر 2010ء صفحہ 8-9)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں