انگلستان مشن کی چند یادیں

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 22 دسمبر 2004ء میں مکرم بشیر احمد رفیق صاحب کے ایک مضمون میں قریباً نصف صدی قبل کی چند یادیں بیان کی گئی ہیں۔

بشیر احمد رفیق خان صاحب

آپ بیان کرتے ہیں کہ 18؍فروری1959ء کو خاکسار ،اہلیہ اور ایک بیٹے کے ساتھ اٹھارہ روزہ بحری سفر کے بعد انگلستان کے ساحلی شہر لیورپول پہنچا جہاں سے نان سٹاپ ریل گاڑی پانچ گھنٹوں میں لندن کے یوسٹن اسٹیشن پر آئی۔ اسٹیشن پر امام مسجد فضل مکرم مولود احمد خانصاحب چند دیگر دوستوں کے ساتھ موجود تھے۔ کار کے ذریعہ ایک گھنٹہ میں احمدیہ مشن ہاؤس (63میلروز روڈ) پہنچ گئے۔
کھانے کے بعد امام صاحب ہمیں ملحقہ بلڈنگ (61 میلروز روڈ) میں لے گئے جو چار منزلہ تھی اور اس میں احمدی کرایہ دار مقیم تھے۔ چوتھی منزل پر ایک کمرہ کا فلیٹ تھا جو ہماری رہائش گاہ تھی۔
رات یخ بستہ تھی۔ اس زمانہ میں گھروں میں سنٹرل ہیٹنگ کا کوئی انتظام نہ تھا۔ عام طور پر کوئلے کی انگیٹھیاں یا تیل سے چلنے والے ہیٹر ہوتے تھے لیکن ہمارا فلیٹ ان سہولیات سے محروم تھا۔ پاکستان سے لائی ہوئی رضائیاں بھی سردی کی شدت کو کم نہ کرسکیں۔ خدا خدا کرکے صبح ہوئی تو باہر ہر طرف برف کی سفید چادر بچھی ہوئی تھی۔ ناشتہ کے لئے ہم امام صاحب کے گھر گئے تو مَیں نے شدید سردی کا عرض کیا۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ اس فلیٹ میں ہیٹرز مہیا کرنے کی بجٹ میں گنجائش نہیں ہے۔ دوپہر کو محترم مولوی عبدالرحمن صاحب تشریف لائے جو وقف سے فراغت کے بعد اپنا کاروبار کرتے تھے۔ اُن کے پوچھنے پر مَیں نے حال عرض کیا تو انہوں نے فرمایا کہ وہ فنانس کمیٹی کے ممبر ہیں اور یہ بات درست ہے کہ بجٹ میں گنجائش نہیں ہے لیکن وہ اپنی جیب سے خرچ کر کے مجھے ایک تیل کا ہیٹر لادیں گے اور جب بجٹ میں گنجائش نکل آئے گی تو رقم لے لیں گے۔ تھوڑی دیر میں وہ بازار سے تیل سے چلنے والا ایک ہیٹر لے آئے جسے جلانے پر جان میں جان آئی۔
چند دن بعد مکرم اما م صاحب نے مجھے ایک فہرست دی اور فرمایا کہ یہ برطانیہ میں مقیم دو صد افراد کے نام ہیں لیکن ان میں سے اکثر طالب علم ہیں جو ممکن ہے وطن واپس جاچکے ہوں، اسے update کرنا ہے۔ کچھ عرصہ بعد جب نئی فہرست بنی تو اُس میں کل تعداد 149 رہ گئی۔ گویا 1959ء میں سارے انگلستان میں یہ کُل احمدیوں کی تعداد تھی جن میں اکثر غیرشادی شدہ تھے۔ صرف تین افراد کے پاس کاریں تھیں جو مشن کے استعمال میں بھی آیا کرتی تھیں۔
لندن مشن دو مکانات پر مشتمل تھا۔ یعنی 61اور 63 میلروز روڈ۔ 63نمبر والی تین منزلہ عمارت تھی اور ایک تہ خانہ تھا جس میں باورچی خانہ اور ایک کمرہ بھی تھا۔ گراؤنڈ فلور پر دو بڑے کمرے تھے جن کی درمیانی دیوار کو Sliding Door میں بدل دیا گیا تھا۔ اس فلور پر دو دفاتر اور ایک غسلخانہ بھی تھا۔ اوپر کی دو منزلیں امام کی رہائش گاہ کے طور پر استعمال میں لائی جاتی تھی۔
61میلروز روڈ ایک وسیع و عریض بلڈنگ تھی۔ اس میں زیر زمین ایک فلیٹ کے علاوہ اوپر تین منزلیں تھیں۔ 1955ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓ اسی بلڈنگ میں رہائش پذیر ہوئے تھے۔ ابتداء میں جب مسجد کے لئے قطعہ خریدا گیا تھا تو اس کے ساتھ 63 میلروز روڈ کی بلڈنگ کے علاوہ قریباً ایک ایکڑ زمین کا ٹکڑا بھی تھا۔ جبکہ 61 میلروز روڈ ایک انگریز کی ملکیت تھا جو مسجد بن جانے کے بعد بہت مخالف ہوگیا تھا اور اس نے مسجد سے اذان دئیے جانے پر لوکل کونسل میں جماعت کے خلاف دعویٰ بھی دائر کیا تھا۔ لیکن کونسل نے جماعت کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔
جنگ عظیم دوم میں جب مسجد کے نواح میں جرمن بمباری نے شدت اختیار کی تو 61 میلروز روڈ کے مالک نے مکان فروخت کے لئے لگا دیا لیکن شرط عائد کر دی کہ یہ مکان کسی ہندوستانی کو نہ بیچا جائے۔ اس پر پہلے یہ مکان ایک انگریز نو احمدی کے نام خریدا گیا اور بعد میں جماعت نے اپنے نام منتقل کرا لیا۔
63 میلروز روڈ کا مشن ہاؤس بہت تاریخی اہمیت کا حامل تھا۔ اس میں 1967ء میں حضرت خلیفہ ثالثؒ قیام پذیر ہوئے تھے۔ اپنے طالب علمی کے زمانہ میں بھی حضور نے اپنی تعطیلات کا اکثر حصہ اس عمارت میں گزارا تھا۔ مسلم دنیا کے چند بڑے مشاہیر بھی یہاں آتے رہے جن میں قائد اعظم محمد علی جناح، شاہ فیصل، شاہ ادریس آف لیبیا، علامہ سر محمد اقبال، سر فیروز خان نون جو بعد میں پاکستان کے وزیراعظم بنے، سر شیخ عبدالقادر، مشہور صحافی غلام رسوم مہر اور م۔ش، مشہور مؤرخ عاشق حسین بٹالوی، سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں ممتاز دولتانہ وغیرہ شامل تھے۔ ان کے علاوہ سرسنگھاٹے گورنر جنرل گیمبیا، پریذیڈنٹ ٹب مین آف لائیبیریا اور بہت سارے دیگر وزراء، سفراء اور عمائدین بھی اس مشن ہاؤس میں تشریف لائے۔ یہ دونوں عمارات 1970ء میں نئی عظیم الشان بلڈنگ بن جانے کے بعد مسمار کردی گئیں۔
1959ء میں لندن میں خدام الاحمدیہ کی تنظیم کے قائد مکرم ملک خلیل الرحمن صاحب ہوا کرتے تھے۔ 1962ء میں نئے نظام کے تحت مرکز نے خاکسار کو برطانیہ میں خدام الاحمدیہ کا نائب صدر مقرر کر دیا۔ ان دنوں صدر مجلس پاکستان میں ہوا کرتے تھے جبکہ بیرونی ممالک میں نائبین کا تقرر کر دیا جاتا تھا۔ لجنہ اماء اللہ برطانیہ کی صدر مسز نسیم ہوا کرتی تھیں۔ ان کے خاوند ڈاکٹر نسیم صاحب الہ آباد ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج تھے اور مجلس عاملہ انگلستان کے جنرل سیکرٹری بھی تھے۔
مسجد فضل میں چند ہیٹر تھے لیکن مسجد کا فرش سردیوں میں بے حد ٹھنڈا رہتا تھا۔ سردیوں میں چونکہ نمازیوں کی تعداد چند ہوتی تھی اور مسجد کو گرم کرنے پر بہت زیادہ خرچ آتا تھا اس لئے عموماً نمازیں مشن ہاؤس کے ایک کمرہ میں ادا کی جاتی تھیں۔
انگلستان میں ان دنوں شدید سردی پڑتی تھی۔ دسمبر تا فروری اور بسا اوقات مارچ میں بھی برفباری ہوجاتی تھی۔ لیکن موسم سرما کی سب سے تکلیف دہ بات شدید دھند ہوا کرتی تھی جس میں اکثر صرف چند فٹ تک نظر آتا تھا۔ 1960ء میں ایک دفعہ میں بازار سے مشن ہاؤس کی طرف آرہا تھا کہ اچانک دھند چھاگئی۔ اور تھوڑی ہی دیر میں بمشکل ایک فٹ سے بھی کم نظر نہیں آتا تھا۔ سردی کی شدت علاوہ تھی۔ میں بے بسی کی حالت میں فٹ پاتھ پر کھڑا ہوگیا۔ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا کروں۔ دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے کہ اللہ کی مدد حاصل ہو۔ اسی گھبراہٹ میں مَیں نے اپنے قریب آہٹ سنی تو مدد کے لئے درخواست کی۔ ایک انگریز نے میرا ہاتھ پکڑا اور پوچھا کہاں جانا ہے میں نے گھر کا پتہ بتایا۔ وہ کہنے لگے: اکٹھے قدم قدم چلتے ہیں مجھے دھند میں گھر تک پہنچنے کا تجربہ ہے۔ چنانچہ میں نے اُن کا ہاتھ پکڑ کر ساتھ چلنا شروع کیا اور کچھ دیر بعد گھر پہنچ کر اُن کا دلی شکریہ اور خدا کا شکر کیا۔
1965ء میں لندن کو دھوئیں سے پاک کر دیا گیا اور تما م کوئلے چلنے والی فیکٹریوں کو بند کر دیا گیا تو دھند ختم ہوئی۔ان فیکٹریوں کی وجہ سے لندن کی عمارات بھی سیاہ ہوجاتی تھیں چنانچہ پارلیمینٹ ہاؤسز اور بعض عمارات کو صاف کرنے پر کروڑوں پاؤنڈ خرچ ہوئے۔
ان دنوں عیدین کی تقاریب کے بعد مشن کی طرف سے تمام حاضرین کو دوپہر کا کھانا پیش کیا جاتا تھا۔ ساری ساری رات مشن کے تہ خانے میں کھانا تیار کیا جاتا تھا۔ اس زمانہ میں کثرت سے غیر از جماعت جن میں ہندوستانی پاکستانی احباب کے علاوہ ترک اور سائپرس کے لوگ بھی تھے، عید کی نماز مسجد فضل میں ادا کرتے تھے۔ عید کا سارا دن مسجد سے ملحقہ باغ میں گزرتا اور لوگ شام کو چائے کے بعد رخصت ہوتے۔ 1931ء کی عیدالاضحیہ کے موقع پر محمد علی جناح بھی تشریف لائے تھے اور حاضرین سے خطاب کیا تھا۔
ہر پندرہ روز بعد مشن ہاؤس میں میٹنگز کا اہتمام کیا جاتا جن میں مسلم اور غیر مسلم سکالرز خطاب کرتے۔ جب علامہ اقبال اور دیگر ہندوستانی اراکین گول میز کانفرنس لندن میں ہوتے تھے تو وہ بھی ان میٹنگز میں شریک ہوتے۔ ایک مرتبہ انگریز نواحمدی بچی کی قرآن کریم کی تلاوت سن کر علامہ اقبال کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اسے ایک گنی بطور انعام دی۔ 1959ء میں ان مجالس کے روح رواں عبدالعزیز دین صاحب اور حضرت میر عبدالسلام صاحبؓ ہوا کرتے تھے۔ امام مولود خانصاحب دہلی یونیورسٹی کے گریجویٹ اور بہت اچھے مقرر تھے۔
بلال نٹل انگریز نو احمدی تھے۔ نہایت خوش طبع، ملنسار اور احمدیت کے شیدائی تھے۔ 1926ء میں جب مسجد کا افتتاح ہوا تو انگریزوں کی طرف سے پہلی اذان آپ نے دی تھی۔ حضرت خلیفہ ثانی نے آپ کا نام بلال اسی لئے رکھا تھا۔اکثر وہ ویک اینڈ پر مشن ہاؤس میں ہی مقیم ہوجایا کرتے اور مشن کے وسیع باغ کی صفائی کٹائی وغیرہ میں میرا ہاتھ بٹاتے تھے۔ دیسی کھانے بھی بنانے سیکھ لئے تھے۔ بلال نٹل کو حضرت خلیفہ ثانی سے عشق کی حد تک تعلق تھا۔
1959ء میں ایک اور نو احمدی انگریز مسٹر سمرز ہوا کرتے تھے۔ احمدیت کے شیدائی اور حضرت مسیح موعودؑ کے عشق میں سرشار تھے۔ اُن کے سرہانے قرآن کریم اور ’’اسلامی اصول کی فلاسفی‘‘ موجود رہتی۔ ماہوار چندہ میں نہ صرف انتہائی باقاعدہ تھے بلکہ ان دنوں سب سے زیادہ ماہوار چندہ انہی کا ہوا کرتا تھا۔ طبعاً خاموش طبیعت کے مالک تھے۔ لمبی نمازیں پڑھتے اور مسجد میں دیر تک ذکرِ الٰہی کرتے تھے۔
انگریز نو احمدی مسٹر بانڈ، مسٹر سٹن ادھیڑ عمر کے تھے اور حضرت مولوی فرزند علی خان صاحب کے زمانہ میں احمدی ہوئے تھے۔ نہایت مخلص تھے۔ مسٹر بانڈ کو باغبانی کا شوق تھا اور مشن ہاؤس کے باغ میں ان کے ہاتھ کے لگے ہوئے بے شمار پھول ہوتے تھے۔
اس زمانہ کا انگلستان آج سے بہت مختلف تھا۔ لوگوں میں اخلاق، دیانت، شرافت اور ہمدردی کا جذبہ کہیں زیادہ تھا۔ دیانت کا یہ عالم تھا کہ صبح منہ اندھیرے دودھ والا گھروں کے آگے دودھ کی بوتلیں رکھ جاتا۔ ہر جمعہ کے دن بوتلوں کے نیچے حساب ہوتا اور اگلی رات مَیں بوتلوں کے نیچے چیک رکھ دیتا۔ مہینوں اُس کی شکل نہیں دیکھتے تھے اور کبھی ایسا نہیں ہوا کہ دودھ کوئی لے جائے یا رقم اُڑالے۔
سودا سلف مفت گھر میں پہنچانے کا انتظام ہوتا تھا۔ اگر فون پر آرڈر دیا جاتا تو رقم بھی دکاندار سامان پہنچاکر وصول کرتا۔ اگر ادائیگی ہوچکی ہوتی تو دکاندار شام کو سامان گھر کے دروازہ کے باہر رکھ دیتا تھا۔
احمدیہ مشن کا ماہوار چندہ (آمد) ان دنوں پچیس تیس پاؤنڈ کے لگ بھگ ہوتا تھا۔ جو کمی رہ جاتی وہ مرکز کے حکم سے مشرقی افریقہ سے آجاتی۔ 61میلروز روڈ کے تین فلیٹ کرایہ پر تھے اس سے 15پونڈہفتہ وار وصول ہوجاتے تھے۔ اور اس طرح مجموعی ماہوار آمدنی 80سٹرلنگ پونڈ کے لگ بھگ ہوجاتی تھی۔
مشن ہاؤس سے ملحقہ وسیع باغ کی صفائی کٹائی اور پھلدار درختوں کی نگہداشت عموماً وقارعمل کے ذریعہ ہوتی۔ گرمیوں میں درخت سیبوں اور ناشپاتیوں سے لد جاتے تو اس میں سے پھل ہمسایوں اور احمدیوں میں تقسیم ہوجایا کرتا تھا۔ اور زائد پھل کو مجبوراً زمین میں دبا دیا جاتا تاکہ پھل گل سڑ جانے سے کیڑے مکوڑوں کا خطرہ نہ رہے۔ ان دنوں فریج فریزر نہیں ہوتے تھے۔ بعد میں جدید مشن ہاؤس اور محمود ہال بن جانے کی وجہ سے سارے پھلدار درخت کاٹنے پڑے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں