آنحضورﷺ کی قیامِ توحید کے لیے عظیم الشان جدوجہد

(مطبوعہ ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘، الفضل انٹرنیشنل لندن 23اکتوبر2020ء)

آنحضورﷺ کو اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات و صفات کا کامل عرفان بخشا تھا۔ آپؐ نے اتنے قریب سے وہ حُسنِ بےپایاں دیکھا کہ الوہیت کے بحراعظم میں وہ ذرّہ بشریت گم ہوگیا۔ رسول کریم ﷺ کی قیام توحید کے لیے جدوجہد سے متعلق مکرم عبدالسمیع خان صاحب کا ایک مضمون ماہنامہ ’’خالد‘‘ ربوہ نومبر و دسمبر 2012ء کی زینت ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’آنحضرت ﷺ اس قدر خدا میں گم اور محو ہوگئے تھے کہ آپؐ کی زندگی کے تمام انفاس اور آپؐ کی موت محض خداتعالیٰ کے لیے ہوگئے تھے اور آپؐ کے وجود میں نفس، مخلوق اور اسباب کا کچھ حصہ باقی نہیں رہا تھا اور آپؐ کی روح خدا کے آستانہ پر ایسے اخلاص سے گری تھی کہ اس میں غیر کی ایک ذرّہ آمیزش نہیں رہی تھی۔‘‘
(ریویو آف ریلیجنز جلد اوّل صفحہ178)
عیسائی مستشرق ڈاکٹر سپرنگر لکھتا ہے:
نبی عربی کے خیال میں ہمیشہ خدا کا تصور غالب رہتا تھا۔ اُس کو نکلتے ہوئے آفتاب اور برستے ہوئے پانی اور اُگتی ہوئی روئیدگی میں خدا ہی کا دستِ قدرت نظر آتا تھا۔ کڑکتی ہوئی بجلی اور طیور کے نغمات میں خدا ہی کی آواز سنائی دیتی تھی اور سنسان جنگلوں اور پرانے شہروں کے کھنڈروں میں خدا ہی کے قہر کے آثار دکھائی دیتے تھے۔
(برگزیدہ رسول غیروں میں مقبول صفحہ29)
خدا کی وحدانیت کے اعلان نے مشرک عربوں کے صحرا میں حشر برپا کردیا۔ آنحضرت ﷺ پر مصائب کے پہاڑ توڑے گئے لیکن حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ آپؐ نے یہی اعلان فرمایا:
’’بخدا اگر مَیں اس راہ میں مارا جاؤں تو چاہتا ہوں کہ پھر بار بار زندہ ہوکر ہمیشہ اسی راہ میں مرتا رہوں۔ یہ خوف کی جگہ نہیں بلکہ مجھے اس میں بے انتہا لذّت ہے کہ اس کی راہ میں دکھ اٹھاؤں۔‘‘ (ازالہ اوہام صفحہ111)
چنانچہ ہم کبھی آنحضورﷺ کو نوحؑ کی طرح خفیہ اور اعلانیہ تبلیغ کرتے دیکھتے ہیں،کبھی ابراہیمؑ کی طرح پُرزور دلائل کے ساتھ مشرکین کو قائل کرتے ہوئے اور کبھی موسیٰؑ کی طرح جابر سلطانوں کو کلمہ حق سناتے ہوئے اور کبھی عیسیٰؑ کی طرح خدا کی خاطر دکھوں کی صلیب اٹھاکر مقتل کی طرف جاتے ہوئے۔ کبھی آپؐ کوہ صفا پر قریش کو زندگی کا پیغام دیتے ہیں اور کبھی مکّہ کی گلیوں میں تبلیغ کرتے ہیں لیکن دھتکارے جاتے ہیں۔ کبھی عکاظ، مجنہ اور ذوالمجاز کے بازاروں میں خدا کی طرف بلاتے ہیں اور حج کے ایام میں ایک ایک گروہ کے پاس جاکر پیغام دیتے ہیں تو ابولہب پتھر برساتے ہوئے تعاقب کرتا ہے اور لوگوں کو کہتا ہے کہ اس کی بات نہ سننا۔ کبھی آپؐ طائف میں پیغامِ حق پہنچاتے ہیں تو اس معصوم کو پتھروں سے لہولہان کردیا جاتا ہے۔ الغرض آپؐ کی ساری زندگی توحید کے لیے غیرمعمولی لگن اور شجاعت کا پتہ دیتی ہے۔سر ولیم میور لکھتے ہیں:
محمدؐ کے سفر طائف میں عظمت اور شجاعت کا رنگ نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ ایک تنہا شخص جسے اس کی قوم نے حقارت کی نظر سے دیکھا اور ردّ کردیا وہ خدا کی راہ میں دلیری کے ساتھ اپنے شہر سے نکلتا ہے اور جس طرح یونس بن متی نینوا کو گیا اسی طرح وہ ایک بُت پرست شہر میں جاکر اُن کو توحید کی طرف بلاتا اور توبہ کا وعظ کرتا ہے۔
(سیرت خاتم النبیّینﷺ صفحہ184)
توحید سے عشق کا ہی نتیجہ تھا کہ قریش نے جب حضرت ابوطالب کو آپؐ کی حمایت واپس لینے پر کہا تو اُن کے پوچھنے پر آپؐ نے جواب دیا کہ خدا کی قسم! اگر یہ لوگ میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے ہاتھ میں چاند بھی رکھ دیں تب بھی مَیں اپنے فرض سے باز نہیں رہوں گا حتیٰ کہ خدا اسے پورا کردے یا مَیں اس راہ میں مارا جاؤں۔
آہستہ آہستہ پاکباز انسانوں کی ایک جماعت تیار ہونے لگی جو توحید کی خاطر ہر قربانی کے لیے تیار تھی۔ مشرکین کے ہاتھوں بلالؓ، خبابؓ اور آل یاسرؓ کی بیکسی کو سیّد سلیمان ندوی نے یوں بیان کیا کہ عیسائیت کو ایک سولی پر بہت ناز ہے مگر دیکھو کہ اسلام کے دامن میں کتنے مقتل، کتنی سولیاں اور کتنے مذبح خانے ہیں۔
زمین پر توحید کا عجیب منظر ابھرنے لگا۔ خدائے واحدو یگانہ کی عبادت کے لیے غلام اور بادشاہ والہانہ طور پر لبّیک کہنے لگے۔ شاہِ حبشہ نجاشی، شام کا رئیس فردہ، حمیر کا رئیس عامر، یمن کا رئیس مرکبود اور عمان کے رئیس عبید اور جعفر بھی مکّہ کے غلاموں کے شانہ بشانہ کھڑے نظر آتے ہیں۔اس سحرآفرین داستان کی ایک دلکش منزل فتح مکّہ کا مبارک دن ہے جس دن خانہ کعبہ کو ہمیشہ کے لیے بتوں سے پاک کیا جاتا ہے۔ اگر کائنات کا مقصد محمد مصطفی ﷺ تھے تو آپؐ کا مقصود توحید کا قیام تھا۔ یہ توحید اتنی تیزی سے سینوں پر نقش ہونے لگی کہ حجۃالوداع تک دس لاکھ مربع میل پر بسنے والے انسانوں کو منور کرگئی۔ نپولین بوناپارٹ نے اسی انقلاب پر کہا کہ پندرہ سال کے عرصے میں لوگوں کی کثیر تعداد نے جھوٹے دیوتاؤں کی پرستش سے توبہ کرلی، مٹی کی بنی ہوئی دیویاں مٹی میں ملادی گئیں، بت خانوں میں رکھی مورتیوں کو توڑ دیا گیا۔ یہ حیرت انگیز کارنامہ تھا آنحضرتﷺ کی تعلیم کا۔
اسی غیرتِ توحید نے ذاتِ مصطفیٰ ؐکے لیے احتیاط کے کڑے اصول قائم کیے کیونکہ گزشتہ انبیاء کی طرح آپؐ کے عظیم الشان منصب کو نہ سمجھنے کے نتیجے میں ممکن تھا کہ نافہم آپؐ کی ذات کو شرک کا منبع بنالیتے۔ مگر آنحضرتﷺ اپنے عاجز بندہ ہونے میں ہی خوشی اور فخر محسوس کرتے تھے اور ہر موقع پر اپنے جذبات کو خدا کی طرف منتقل کردیتے۔ چنانچہ فتح کے موقع پر آپؐ کا سر جھکتے جھکتے اونٹ کے کجاوے سے جالگا اور سوائے خدا کی عظمت اور کبریائی کے وہاں اَور کوئی نعرہ نہ لگا۔ کسی نے کہا کہ شاہانِ فارس اور روم کو اُن کی رعایا سجدہ کرتی ہے، کیا ہم آپؐ کو سجدہ نہ کریں؟ فرمایا کہ سجدہ اللہ کے سوا اَور کسی کے لیے روا نہیں۔
سجدہ تو درکنار آپؐ کو تو مشرکوں سے مشابہت رکھنے والی تعلیم بھی ایک آنکھ نہ بھاتی۔ فرمایا میرے لیے اس طرح نہ کھڑے ہوا کرو جس طرح عجمی کھڑے ہوتے ہیں۔ ایک دفعہ بیماری کی وجہ سے بیٹھ کر نماز پڑھی تو پیچھے کھڑے صحابہؓ کو اشارے سے بٹھادیا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ بات میری خاص تعظیم خیال کی جاوے۔ ایک بار کسی صحابی نہ عرض کیا کہ فلاں معاملے میں اُسی طرح ہوگا جس طرح خدا تعالیٰ چاہے گا یا آپؐ چاہیں گے۔ آپؐ نے فرمایا:کیا تُو نے مجھے خدا کا شریک بنایا ہے؟ یوں کہو کہ مَاشَاء اللّٰہُ وَحۡدَہٗ یعنی وہی جو خدائے واحدویگانہ چاہے گا۔
ایک ہندو جناب لالہ بشن داس لکھتے ہیں: آپؐ نے وحدانیت کا ننھا سا بیج عرب کے ریگستان میں ایسا بویا اور بجائے پانی کے اپنے خونِ جگر سے ایسا سینچا کہ آج وہ اتنا بڑا درخت ہوگیا ہے کہ اس کی شاخیں چاردانگ عالم میں پھیل گئی ہیں اور کروڑہا روحیں اس کے سایہ میں بیٹھ کر ایک سچے خدا کی سچی عبادت کا نہایت ہی لذیذ پھل کھارہی ہیں۔
(برگزیدہ رسول غیروں میں مقبول صفحہ28)
سیّدنا حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں:
’’آج صفحۂ دنیا میں وہ شے کہ جس کا نام توحید ہے بجز اُمّت آنحضرتﷺ کے اَور کسی فرقہ میں نہیں پائی جاتی اور بجز قرآن شریف کے اَور کسی کتاب کا نشان نہیں ملتا کہ جو کروڑہا مخلوقات کو وحدانیت الٰہی پر قائم کرتی ہو اور کمال تعظیم سے اس سچے خدا کی طرف رہبر ہو۔ ہریک قوم نے اپنا اپنا مصنوعی خدا بنالیا۔ مسلمانوں کا خدا وہی ہے جو قدیم سے لازوال اور غیرمبدّل اور اپنی ازلی صفتوں میں ایسا ہی ہے جو پہلے تھا۔‘‘
(براہین احمدیہ جلداوّل صفحہ118-117)
قیامِ توحید کی خاطر روحِ مصطفویﷺ کی جدوجہد آج بھی جاری ہے اور تب تک جاری رہے گی جب تک تمام ابنائے آدم زمین پر اُمّتِ واحدہ نہیں بن جاتے۔ آپؐ کی وفات پر حضرت ابوبکر صدیقؓ نے کتنی سچی بات عرض کی تھی کہ خداکی قسم! اللہ تعالیٰ آپؐ پر ہرگز دو موتیں جمع نہیں کرے گا۔ آپؐ اپنی قوّتِ قدسیہ اور روحانی فرزندوں کے ذریعے زندہ رہیں گے اور زندگیاں عطا کرتے رہیں گے۔ آپؐ کی روحانی توجہ خلفائے راشدین، مجدّدین اور اولیائے کرام کی صورت توحید کی منادی کرتی رہے گی اور جیسا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا ہے:
’’آخر توحید کی فتح ہے۔ غیرمعبود ہلاک ہوں گے اور جھوٹے خدا اپنی خدائی کے وجود سے منقطع کیے جائیں گے۔ … وہ وقت قریب ہے کہ خدا کی سچی توحید جس کو بیابانوں کے رہنے والے اور تمام تعلیموں سے غافل بھی اپنے اندر محسوس کرتے ہیں ملکوں میں پھیلے گی۔ اس دن نہ کوئی مصنوعی کفّارہ باقی رہے گا اور نہ کوئی مصنوعی خدا اور خدا کا ایک ہی ہاتھ کفر کی سب تدبیروں کو باطل کردے گا۔‘‘
(مجموعہ اشتہارات جلد دوم صفحہ304)

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں