آندھراپردیش (بھارت) میں احمدیت

سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے 1924ء میں ویمبلے کانفرنس لندن میں فرمایا تھا کہ حیدرآباد دکن کے قرب و جوار میں سینکڑوں نچلے طبقہ کے لوگوں نے احمدیت قبول کی ہے۔ حضورؓ کا اشارہ ضلع وارنگل میں موجود جماعت کنڈور کی طرف تھا جہاں مکرم سید حسین صاحب نے احمدیت کا پودا لگایا تھا۔ بعد ازاں تقسیم ملک کے بعد کنڈور سے مرکز کا تعلق منقطع ہوگیا۔ 1981ء میں مکرم عبدالستار صاحب سبحانی نے قادیان خط لکھا کہ ہم یہاں اتنے لوگ احمدی موجود ہیں اس لئے کوئی معلم بھجوایا جائے۔ قادیان سے ہدایت ملنے پر مکرم سیٹھ محمد معین الدین صاحب مرحوم سابق صوبائی امیر آندھرا اپنے ہمراہ مکرم مولانا حمیدالدین صاحب مرحوم کو لے کر کنڈور پہنچے۔ اس وقت وہاں تین صد احمدی موجود تھے۔ دونوں نے اس علاقہ میں نہایت جوش سے دعوت الی اللہ شروع کی جس کے نتیجہ میں ہزارہا احمدی ہوئے اور بہت سی جماعتیں قائم ہوئیں۔ اس راہ میں بے شمار خطرات کا سامنا کرنا پڑا۔ دھمکیاں دی گئیں اور حملے کئے گئے لیکن اللہ تعالیٰ نے خود حفاظت فرمائی۔ مکرم حافظ سید رسول نیاز صاحب کے قلم سے صوبہ آندھرا پردیش میں تبلیغی سرگرمیوں کے حوالہ سے ایک مضمون ہفت روزہ ’’بدر‘‘ 11 تا 18؍نومبر 1999ء میں شامل اشاعت ہے۔
اس وقت صدر جماعت کٹاشپور مکرم سید حیدرعلی صاحب ہیں۔ آپ قبول احمدیت سے پہلے سنگتراش قوم کے قائد تھے اور شراب کے عادی تھے۔ جب آپ نے آٹھ صد افراد کے ساتھ جماعت میں شمولیت اختیار کی تو کہا کہ اگر یہ جماعت سچی ہے تو اللہ تعالیٰ مجھے شراب کی عادت سے نجات دلائے گا۔ چند ہی ہفتوں میں انہیں شراب سے سخت نفرت ہوگئی اور اُن پر اس کا اتنا اثر ہوا کہ وہ گاؤں گاؤں پھر کر تبلیغ میں مصروف ہیں اور اب تک ایک لاکھ سے زیادہ افراد اُن کی تبلیغ کے نتیجہ میں احمدیت قبول کرچکے ہیں۔
بیس سال قبل صوبہ آندھرا میں جماعتوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جاسکتی تھی لیکن گزشتہ سال تک چوبیس میں سے بیس اضلاع میں احمدیت پھیل چکی ہے اور چھ سو سے زائد جماعتیں قائم ہیں۔ جماعت کی 29 مساجد میں سے 12 بنی بنائی عطا ہوئی ہیں جبکہ متعدد زمینیں جماعت کو پیش کی گئی ہیں۔نومبائعین میں سے قادیان جاکر مبلغین، معلمین اور حافظ قرآن تیار ہورہے ہیں۔ کئی تربیتی مراکز میں کیمپ منعقد ہو رہے ہیں جن سے سینکڑوں افراد استفادہ کر رہے ہیں۔ بہت سے لٹریچر کے علاوہ ایک تیلگو ماہنامہ بھی یہاں سے جاری کیا گیا ہے۔
ایک زیر تبلیغ دوست مکرم لال محمد صاحب نے قادیان جانے پر آمادگی ظاہر کی۔ اُن کی عمر اسّی برس ہے اور وہ اپنے گاؤں کی مسجد کے متولی اور امام بھی ہیں۔ مولویوں نے انہیں اس ارادہ سے قادیان کے بارہ میں گمراہ کن کہانیاں سناکر باز رکھنا چاہا لیکن وہ چلے گئے اور واپس آکر پورے گاؤں کو اکٹھا کرکے اپنے تاثرات سنائے تو پورا گاؤں احمدیت میں داخل ہوگیا۔ آپ کو تبلیغ کا ایسا جوش ہے کہ اب تک بیس گاؤں مکمل طور پر آپ کے ذریعہ احمدی ہوچکے ہیں جن میں چار مساجد بھی موجود ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں