اہرام مصر

ماہنامہ ’’خالد‘‘ فروری 2006ء میں اہرام مصر کے بارہ میں ایک تفصیلی معلوماتی مضمون مکرم آر۔ایس بھٹی صاحب کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔
پانچ ہزار سال قبل مصر کے شہنشاہوں کی چوتھی نسل بہت ترقی یافتہ تھی۔ بادشاہ کو فرعون کہا جاتا تھا اور انہیں خدا کا درجہ حاصل تھا۔ ویسے فرعون کا بنیادی مطلب عظیم گھر تھا۔ پرانے مصری بادشاہوں کے مزار ٹیلوں کی شکل کے ہوتے تھے جن کو mastabas کہا جاتا تھا۔ قریباً 2780 قبل مسیح میں بادشاہ Djoser کے آرکیٹیکٹ Imhotep نے پہلی مرتبہ دریائے نیل کے کنارے پر اہرام تعمیر کیا۔ اُس نے چھ mastabas کو اوپر نیچے رکھا۔ اس میں بہت سے کمرے، راستے اور بادشاہوں کے مدفن کے چیمبر تھے۔ ایک مکمل اہرام کی تعمیر Snefru بادشاہ کے دَور میں شروع ہوئی جو شہنشاہوں کے چوتھے دَور کا بانی تھا۔ اُس کا عہد 2680 سے 2560قبل مسیح تک رہا۔

سب سے مشہور اہرام Giza میں ہے جو Snefru کے بیٹے khufu (2589-2566) نے تعمیر کروایا۔ یہ قدیم دَور کے سات عجائبات میں پہلے نمبر پر ہے اور اُن میں سے واحد ہے جو اس وقت درست حال میں موجود ہے۔ اس کی تعمیر بارہ سے بیس سال کے عرصہ میں مکمل ہوئی۔ اس کی بنیاد 13 ایکڑ سے زائد رقبہ پر پھیلی ہوئی ہے اور اطراف کی لمبائی 755فٹ ہے۔ ابتدا میں یہ 481 فٹ بلند تھا لیکن اب 450فٹ سے اونچا نہیں۔ اس میں استعمال ہونے والے پتھر کے بلاکس کا وزن دو سے پندرہ ٹن تک ہے اور کُل وزن ساڑھے چھ ملین ٹن بنتا ہے۔
Giza میں واقع دیگر اہراموں میں Khufu کے بیٹے Khafre اور اُس کے جانشین Menkaure کے بنوائے ہوئے اہرام بھی ہیں۔ ان اہراموں میں نصب پتھروں کے بلاک کی تعداد کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان سے دس فٹ اونچی اور ایک فٹ موٹی دیوار پورے فرانس کے گرد بنائی جاسکتی ہے۔ قریباً تمام اہراموں کے ساتھ ایک چھوٹا سا اہرام بادشاہ کی روح کے لئے بنایا جاتا تھا، اسی طرح ایک مندر جو مُردہ خانہ کے طور پر تھا اور اس میں نعش کو کچھ دیر کے لئے محفوظ رکھا جاتا تھا۔
ابھی تک اہراموں کے بارہ میں تفصیلی معلومات حاصل نہیں ہوسکیں۔ موجودہ محققین کا خیال ہے کہ بیس سے تیس ہزار مزدور وہاں مسلسل کام کرتے رہے ہیں جن کے نشان بھی ملتے ہیں۔ ان مزدوروں کی خوراک اور رہائش کا کیا انتظام تھا، یہ ابھی ایک معمہ ہے۔ ایک مزار کی پینٹنگ سے پتہ چلتا ہے کہ پتھر کے بلاک کو دھکیل کر لے جانے سے پہلے زمین پر کوئی مائع گرا کر پھسلن کی جاتی تھی۔ پانی سے بھری ہوئی خندقیں پیمائش کو ایک لیول پر رکھنے کیلئے استعمال کی جاتی تھیں۔
بڑے اہرام بادشاہت کے چوتھے دَور سے چھٹے دَور تک بنے جس کے بعد چھوٹے اہرام ایک ہزار سال تک بنتے رہے جن میں سے زیادہ تر ابھی تک ریت میں دبے ہوئے ہیں۔ آخری شاہی اہرام Ahmose نے Abydos کے مقام پر تعمیر کروایا۔ وہ بادشاہت کے اٹھارویں دَور کا بانی تھا اور نئے مصر کا بانی تھا۔ چونکہ یہ مقبرے لٹیروں کی زَد سے محفوظ نہیں رہے تھے اس لئے اس کے بعد بادشاہوں کو پوشیدہ قبروں میں دفنایا جانے لگا جو Thebes کے مغربی کنارے کے پہاڑوں میں کاٹ کر بنائی گئیں۔
Giza میں مصری سنگ تراشی کا مکمل نمونہ ابوالہول بھی ہے۔ یہ انسانی ہاتھ کا بنا ہوا سب سے بڑا شاہکار ہے۔ اس کا سر انسانی شکل کا اور جسم شیر کا ہے۔ یہ پرانے اور نئے مصر کا قومی نشان ہے۔ ابوالہول کا لفظی مطلب Stangler ہے اور یہ نام سب سے پہلے یونانیوں نے ایک ایسی مخلوق کو دیا جس کا سر عورت کا، دھڑ شیر کا اور پرندے کی طرح کے پر تھے۔ سب سے پہلے Khafre کے مزدوروں نے ایک بڑے پتھر کو شیر کی شکل دی اور غالباً اس کے سر کو اپنے بادشاہ کی صورت میں ڈھالا۔ اس کی بنیاد چونے کے پتھر کی ہے۔ یہ چٹان پچاس ملین سال پرانی ہے اور سمندر کے پانی میں دبی رہی تھی۔ اس کے دھڑ کی لمبائی 72.55میٹر اور اونچائی 20.22میٹر ہے۔ چہرہ چار میٹر چوڑا ہے اور ناک ڈیڑھ میٹر سے زیادہ لمبی ہے۔ ماتھے پر کوبرا کا نشان تھا جو غائب ہوچکا ہے اور ناک، کان کا زیریں حصہ اور داڑھی بھی ختم ہوچکی ہے۔
مصر میں ابوالہول بھی بہت سے ہیں لیکن عموماً اُن کے سر بادشاہ کے ہیں یا نر بھیڑ کے ہیں جو ایک دیوتا Amun کی طرف منسوب ہوتے ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں