ایک جرمن خاتون کا قبولِ احمدیت

لجنہ اماء اللہ کینیڈا کے رسالہ ’’النساء‘‘ ستمبر تا دسمبر 2011ء میں مکرمہ نسیم رفیق صاحبہ اور مکرمہ شگفتہ عزیز شاہ صاحبہ نے ایک جرمن خاتون سے انٹرویو کے بعد اُن کے قبول احمدیت کے واقعہ کو اُنہی کے الفاظ میں بیان کیا ہے۔
میرا نام فریدہ ثروت ہے۔ مَیں 22 سال کی عمر میں اپنے مذہب (پروٹسٹنٹ کرسچن) سے احمدی ہوئی۔یہ 1960ء کی بات ہے۔ میرے لئے فریدہ نام کا انتخاب احمدیہ مسجد ہمبرگ کے امام عبد اللطیف صاحب نے کیا۔
اسلام کا نام مَیں نے سب سے پہلے ہائی سکول میں دورانِ تعلیم سنا تھا لیکن یہ نام منفی طرز میں پیش کیا گیا تھا۔ ہمیں یہ بتایا گیا تھا کہ یہ مذہب ایک عرب وحشی نے ایجاد کیا تھا (میری اُستاد کے یہ الفاظ ہمیشہ کے لئے میرے ذہن میں پیوست ہوگئے)۔ بعد ازاں انگلینڈ میں لسانیات کی طالبہ کی حیثیت سے میں نے ایک لیکچر اسلام کے بارے میں سنا تو میری حیرت کی انتہاء نہ رہی کہ اسلام تو عیسائیت سے بڑھ کر معقول اور مبنی برمنطق مذہب ہے۔
جب میں ثروت صاحب سے ملی جن سے بعد میں میری شادی ہوئی تو انہوں نے مجھے احمدیت کے بارے میں بتایا نیز یہ بھی بتایا کہ میرے اپنے علاقہ میں بھی ایک مسجد ہے۔ مَیں نے جرمنی واپس آکر مسجد سے رابطہ کیا، وہاں لیکچرز سننے شروع کئے۔ جماعت کا لٹریچر پڑھا اور کچھ مہینوں کے بعد بیعت کر لی۔ امام صاحب کا معاون مرزا نامی نوجوان بہت اچھا تھا۔ جرمن زبان بھی بہت اچھی بولتا تھا وہ بہت اچھی اور خوبصورت اذان دیتا تھا۔اُسی نے مجھے ترجمے سے نماز سکھائی۔
میرا خاندان اگر چہ میری تبدیلیِٔ مذہب سے خوش نہ تھا لیکن اس نے نہ تو مداخلت کی نہ میرے لئے کسی قسم کے مسائل کھڑے کئے ہاں کسی نے کبھی کھلے دل سے میری بات نہ سنی،جبکہ میں انہیں اسلام کے بارے میں بارہا بتاتی رہی،یہ بات مجھے اکثر بہت دکھی کر دیتی ہے۔
عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے کتنے ہی ایسے لوگ ہیں جنہیں اپنے مذہب اور عقیدہ کا کچھ پتہ ہی نہیں ہے۔ وہ چرچ کے اندر زیادہ سے زیادہ کرسمس کے موقع پر ہی جاتے ہیں۔ مَیں اور ثروت صاحب رابطے میں تھے۔ اُن کے خاندان کی رضامندی سے مَیں پاکستان آئی اور جون 1961ء میں ان کے گھر واقع حسن ابدال میں ہماری شادی ہوئی۔ اس وقت وہاں جماعت نہیں تھی، میرے سُسر محترم اکرام بخش صاحب اکیلے احمدی تھے۔ قریبی جماعت واہ کینٹ تھی، وہاں ہمارا نکاح پڑھا گیا۔ 1962ء کے جلسہ سالانہ کے دوران خوش قسمتی سے مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ سے ملنے کا شرف بھی حاصل ہوا۔
میرے میاں فوج کی انجینئرنگ کور میں تھے اور مختلف علاقوں میں تعینات کئے جاتے تھے۔ مَیں بھی اُن کے ساتھ حسین جگہوں کی سیر کرنے اور وہاں کی جماعتوں میں اپنے فرائض ادا کرنے لگی۔ اجلاسات میں باقاعدگی سے شریک ہوتی اور بخوشی چندے دیتی۔ پاکستانیوں کی ایک بات مجھے شدید ناپسند تھی کہ وہ وقت کی قدر نہیں کرتے۔ مَیں شدّت سے محسوس کرتی کہ ایک احمدی کو بہت قابلِ اعتبار، قابلِ اعتماد، ذمہ دار اور ہر پہلو سے دوسروں کے لئے نمونہ ہونا چاہیے۔
ایک چیز جس نے مجھے بہت متاثر کیا وہ 1974ء کے فسادات میں متاثرہ احمدیوں کابا وقار اور بہترین رویّہ تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس بات نے میرے اخلاص کو اَور بھی بڑھا دیا۔ مَیں نے قرآن مجید پڑھنے کے بعد سورتیں یاد کرنی بھی شروع کردی تھیں۔ لٹریچر بھی پڑھنے لگی۔
1989ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے مجھے ’’تذکرہ‘‘ کا انگریزی سے جرمن زبان میں ترجمہ کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ بعد ازاں ایک چھوٹا سا رواں ترجمہ ایک عالمہ فاضلہ جرمن احمدی بہن خدیجہ نذیر صاحبہ کے تعاون سے کیا۔ پھر “Essence of Islam” کی تین جلدوں کا ترجمہ کیا۔ اور اس کے بعد ہمارے محترم بھائی ہدایت اللہ حبش صاحب (مرحوم) کی خاص درخواست پر مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کی حیرت انگیز اور شاہکار تصنیف “Revelation, Rationality, Knowledge and Truth” کے نصف حصہ کا ترجمہ کرنے کی توفیق ملی۔ ترجمہ کرنے کی خدمت کی وجہ سے ہی مجھے ان کتب کا گہرا مطالعہ کرنے کا بھی موقع ملا۔
میری مصروفیات میں مطالعہ کتب اور ترجمہ کے کام کے علاوہ ایم ٹی اے دیکھنا، حضور انور کے خطبات سننا اور ویب سائٹ ’الاسلام‘ پر جانا شامل ہے۔ نیزاپنے علاقہ کے غریب اور مستحق عورتوں اور بچوں کو مفت ہومیو پیتھک ادویہ بھی دیتی ہوں۔ بد قسمتی سے میرے علاقہ کے لوگ بڑی شدّت سے پیروں فقیروں کے زیرِ اثر ہیں۔ان کو قائل کرنا بہت مشکل ہے۔ جہاں تک ممکن ہو مَیں ان کو تربیتی امور سکھلاتی ہوں مثلاً دوائی بسم اللہ پڑھ کر دائیں ہاتھ سے لیں اور دعا کرتے رہیں کیونکہ شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں